امریکہ میں جمہوریت کے پرخچے

امریکہ میں جمہوریت کے پرخچے
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
امریکہ دنیا کی سپر پاور، دنیا کی سب سے بڑی جمہو ریت، دنیا میں ترقی یافتہ اور باشعور مملکت، مہذب معاشرہ کہلا نے والے ملک میں 3نومبر 2020 ء کوصدارتی انتخابات ہوئے۔ ٹرمپ دوسری بات ریپبلکن کی جانب سے صدارتی امیدوار تھے جب کہ ڈیموکریٹس کی جانب جو بائیڈن صدارتی امیدوار تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست ہونے لگی تو ٹرمپ نے نامنظور نامنظور کا واویلا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ شکست اس کا پیچھا کرنے لگی مختلف امریکی ریاستوں سے ایک ایک کر کے ٹرمپ کو شکست اور بائیڈن کو زیادہ ووٹ ملنے شروع ہوئے توٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ عدالت میں بھی چلا گیا، جہا ں پر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ اقتدار کی منتقلی کا عمل امریکہ جمہوریت کے مطابق آگے بڑھ رہا تھا۔ ٹرمپ میں نا مانوں کی ضد پر قائم رہا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ شور مچائے شور والی کیفیت پیدا کر کے امریکیوں کو قائل کر لے گا کہ جوبائیڈن نے اس کا الیکشن چوری کیا ہے، چنانچہ خوب واویلا کیا لیکن شکست پر شکست اس کا مقدر ہوتی چلی گئے۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے سابقہ الیکشن میں ہیلری کو شکست دی تھی اور ٹرمپ کو ساڑے سات کروڑ ووٹ ملے تھے۔ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو سیاسی مقابلہ ہیلری کلنٹن سے کسی طور بنتا ہی نہیں تھا، پھر بھی نہ معلوم کس طرح ٹرمپ کامیاب ہوگیا۔ ہیلری ایک پڑھی لکھی، تجربہ کار سیاسی شعور رکھنے والے سیاست داں تھی۔ لیکن ٹرمپ نے امریکیوں پر اپنی اداکاری کا ایسا جادو چلایا کہ کامیاب ہوگیا۔ چار سالہ دور صدارت میں ٹرمپ کی پالیسیاں، اس کے بیانات اور اس کی بڑکیاں اُسے لے ڈوبیں۔ مسلمانوں کے خلاف بیانات، کشمیر کے حوالے سے کہتا رہا کہ وہ ثالثی کرنے کو تیار ہے۔ وہ در اصل ثالثی پر نہیں بلکہ اندر سے بھارت کا سپوٹر تھا۔ وہ کسی طور پر مودی کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتا تھا۔ عمران خان سے دوستی کی بات بھی کر کے اس نے عمران خان اور پاکستانیوں کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ گورا ہے اسے کالے امریکیوں سے نفرت ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ایک کالے امریکی کو ایک گورے امریکی فوجی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کرنا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ٹرمپ کالوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کا دشمن ہے۔ ٹرمپ اور ہیلری کے الیکشن کے فوری بعد مَیں نے ایک کالم بعنوان ”ٹرمپ فاتح۔ہیلری کو شکست‘ لکھا تھا جس میں دونوں کا موازنہ کچھ اس طرح سے کیا تھا”ہیلری کلنٹن شائستہ، ملنسار، خوش اطوار، خوش مزاج، خوش خلق، خوش بیان، مؤدب، مہذب، سیاسی سوچ، سیاسی فکر اور سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک ہیں، امریکی سیاست اور علمی تعلقات کاادراک رکھتی ہیں، سیاسی خاندان کی بہو یعنی سابق امریکی صدر کی شریک حیات ہے، امریکی حکومت میں اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔اس کا مقابلہ امریکہ کے ایک ارب پتی شخص ڈونالڈ ٹرمپ سے ہے جو پیسے بنانیکی مشین کہا جاتاہے،وہ بزنس کوترقی دینے کے گُر تو جانتا ہے لیکن سیاست میں کوراہے، اس کے اثاثوں کی مالیت 3.7 ارب ڈالر بتائی جارہی ہے،دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اس کا نمبر 324 واں ہے جب کہ امریکہ میں امارت کے اعتبار سے وہ 156ویں نمبر پر ہے۔ عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ بد تہذیب، بد اطوار، اوچھے پن کا مالک، فحش کلامی کرنے والا، دشنام طراز، دریدہ دہن، کثیف الطبع، کرخت، اجڈ، شیخی خورا اورچھچورا قسم کا انسان ہے،عمر 71 ہوچکی ہے،غیر امریکیوں کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے انتخابی مہم کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے گورے اور کالے امریکیوں میں نفرت کی دیوارکھڑی کرنے جیسا حربہ بھی استعمال کر ڈالا، گویا متعصب ذہنیت کا حامل بھی ہے۔ اس کی رائے میں امریکہ میں موجود اقلیتی عوام امریکہ پر بوجھ ہیں اور مسلمان دہشت گرد۔ گزشتہ تین دہائیوں میں وہ 3500مقدمات میں ملوث ہوا،یہ مقدمات اس کے کاروبار کے حوالے سے ہوئے۔ اس کی آمدنی کا کوئی ٹھکانا نہیں 2015میں ٹرمپ نے اپنے آپ کو کوئی 38کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا مالک ظاہر کیا۔ اس کی اچھی عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کرتا۔ نیویارک میں پیدا ہوا،ٹرمپ کا باپ جرمن اور ماں اسکاٹش تھی، ٹرمپ نے تین شادیاں کیں تینوں کا تعلق شوبیز سے ہے، وہ خود بھی شوبیز کا آدمی ہے، موصوف ٹی وی نیٹ ورک میں پروڈیوسر اور میزبان بھی رہ چکے ہیں۔تعلیم کوئی خاص نہیں 1968 میں معاشیات میں گریجویشن کیا تھا۔اپنے والد کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے جانشین ہوگیا۔ٹرمپ کی زندگی کی کہانی میں بہت کھوج لگایا کہ کہیں اس کا تعلق سیاسی معاملات، حکومتی مشینری سے وابستگی، فلاحی اور عوام کی بہتری کے لیے اس کا کوئی کام سامنے آئے لیکن کہیں بھی ایساکچھ نہیں ملا“۔میرا یہ تجزیہ ٹرمپ کی شخصیت کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
دو روز قبل امریکی ایوان نمائندگان یعنی کانگریس نے اپنے اجلاس میں باقاعدہ طور پر نو منتخب صدر جو بائیڈن کو باقاعدہ امریکہ کا 46واں صدر کا اعلان کرنا تھا۔صدارتی انتخاب میں ٹرمپ نے 232 جوبایڈن نے306 ووٹ حاصل کیے۔ فاتح امیدوار کو270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں ٹرمپ کو شکست تسلیم کر کے کھلے دل کے ساتھ جوبائیڈن کو صدر تسلیم کر لینا چاہیے تھا لیکن حکمرانی کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ عین جب کے امریکی کانگریس کا اجلاس نو منتخب صدر جوبائیڈن کو صدارت کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل کی جانب جانے ہدایت کی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بھی آرہا ہے۔ ٹرمپ کے کے اکسانے پر گورے چڑھ دوڑے کانگریس کی عمارت کی جانب اور دھاوا بول دیا جس کا نظارہ ہم آپ نے ٹی وی پر دیکھا۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ امریکہ کاایوان یعنی کانگر یس ہے۔ پاکستان میں تو ایسے نظارے کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں لیکن امریکہ میں اس طرح کی غنڈہ گردی اپنی مثال آپ ہے۔کانگریس کے حال میں موجود کانگریس کے ارکان نے نیچے چھپ کر جان بچائی، کچھ نے بلوائیوں کا مقابلہ کر نے کے لیے ہتھیار نکالیے، نکالنا ہی تھے، دروازوں اور کھڑکیوں سے ٹرمپی دیوانے مکھیوں کی مانند کانگریس کی عمارت میں داخل ہورہے تھے۔یہ ہے امریکیوں کو اصلی چہرہ، ان کے اندر کے امریکی در اصل یہی ہیں۔اس حملے میں زخمی ہونے والے تو بے شمار تھے 4امریکیوں کی جانیں چلی گئیں اور ایک امریکی پولیس اہل کار شدید زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔ عمارت کو نقصان پہنچا، فرنیچر اور ساز و سامان تہس نہس کردیا گیا۔ واشنگٹن میں پندرہ دن کے لیے کرفیولگا دیا گیا۔ بہت سال قبل کا ایک واقع ذہن میں آیا کہ ایک مرتبہ نیو یارک میں اچانک بجلی چلی گئی، کوئی بہت بڑافالٹ ہوا اور پورا نیویارک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اس اندھیرے میں امریکیوں نے جو لوٹ مار مچائی، جس کے ہاتھ جو آیا وہ لے اڑا۔ دوکانوں کی دوکانیں، مال امریکی لوٹ کر لے گئے۔
عام طور پر انتخابات میں شکست خور اپنی شکست کاواویلا کرتے ہی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان میں تو 72سال کی تاریخ میں صرف ایک الیکشن جو 1970میں ہوئے، باقی تمام انتخابات کو ہر ہارنے والے نے دھاندلی کے انتخابات کہا اور نئے انتخابات تک وہ واویلا کرتے رہتے ہیں۔ہمارے ملک میں تو یہ عام سی بات ہے، یہا ں تک عدالتوں پر، ٹی وی اسٹیشنز پر، پیٹرول پمپس پر، عمارتوں پر عملے اور توڑ پھوڑ عام سے بات ہے کہ لیکن امریکہ، جمہوریت کا داعی، تعلیم یافتہ لوگوں کا ملک، دنیا کو پڑھانے، سکھانے والا، مہذب اور شائستہ گوروں اور کالوں کے ملک کے منتخب ایوان جو کیپیٹل ہل کہلاتا ہے، اعلیٰ ترین جمہوری ادارے پرٹرمپ نے اپنے لیے تو جو کچھ بھی کیا وہ اپنی جگہ، اس نے پوری امریکی قوم کو شرمندہ اور رسوا کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاریخ میں اس واقعہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے سیاہ الفاظ سے لکھا جائے گا۔ ان حالات کے باوجود پارلیمنٹ نے نتائج کی توثیق کردی۔ اب ٹرمپ پر دباؤ ہے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہوجائے۔ بصورت دیگر ڈیمو کریٹس اس کے خلاف مواخذے کی تحریک لے آئیں گے۔ امریکی قانون میں ترمیم 25کے تحت اگر صدر دماغی طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے تو انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔ امریکی اسپیکر پارلیمنٹ نے ٹرمپ کو پاگل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ خطر ناک صدر نہیں ہوسکتا اور ہمیں اپنے ملک اور جمہوریت کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔ٹرمپ نے اپنی رسوائی کو بھانپتے ہوئے اپنے حامیوں سے خود کو الگ کر لیا، حملہ کی مذمت کی، کہا اسے مایوسی ہوئی، کہا کہ وہ پر امن انتقال اقتدار چاہتا ہے لیکن نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوگا۔ٹرمپ کی کابینہ کے کئی ارکان نے استعفے دینے شروع کر دئے ہیں۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ کو 20جنوری کو اپنے کام کا آغاز کرنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نو منتخب صدر جوبائیڈن، ٹرمپ کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی صدارت کے عہدہ کا حلف اٹھالیں گے۔ (۹جنوری 2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277592 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More