اویس سکندر یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں ماس کمیونیکیشن
میں میرا شاگرد ہے۔ پہلے سمسٹر کے پہلے دن حاضری (اٹینڈنس) لیتے ہوئے یہ
نام اور چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا۔ اور یہ راز کھلنے میں دیر نہ لگی کہ
یہ وہی اویس سکندر ہے ، جس کے کالم ملک کے بڑے اخبارات میں نظر سے گزرتے
رہتے ہیں۔ اس عمر میں ( بلکے نو عمری میں) ایسی پختہ کالم کاری میرے لیے
حیرت اور مسرت کا باعث تھی۔
شاعر نے کہا تھا، میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے
اویس سکندر کا مزاج لڑکپن سے کالمانہ ہوگیا تو اس کا سبب بھی اس کے لکھے
ہوئے پیش لفظ میں موجود ہے۔ یہ اس کے گھر کا ماحول تھا جہاں اس نے آنکھ
کھولی ، اس گھرکے مکین کتابوں سے محبت کرنے والے تھے۔ چناچہ جو عمرکھیلنے
کودنے کی ہوتی ہے ۔ اویس اخبار سے اور کتابوں سے دل بہلانے لگا، اور کتابیں
بھی قدرت اﷲ شہاب، ممتاز مفتی (جنھیں اویس نے مرشد لکھا ہے) اور سعادت حسن
منٹو جیسے ممتاز و منفرد قلم کاروں کی۔
علم و ادب کے میدان میں قدم بہ قدم اور مرحلہ بہ مرحلہ سفر کی یہ داستان
اویس نے بڑی تفصیل سے پیش لفظ میں بیان کر دی ہے۔
اویس کے کالموں کی ایک اور خوبی موضوعات کا تنوع ہے جو قاری کی دلچسپی کو
برقرار رکھتا ہے اور جس سے اویس کی وسیع النظری کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ذوق تماشا اس کے اپنے کالموں کا مجموعہ ہے، جو یقینا اہل ذوق اور احباب نقد
و نظر کی طرف سے تحسین کا مستحق قرار پائے گا۔
میری خواہش ہے اور دعا بھی کہ اویس اس سفر میں منزل بہ منزل آگے ہی آگے
بڑھتا چلا جائے۔
ہر لحظہ نئی برق ، نیا ذوق تجلی
اﷲ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
رؤف طاہر
|