مسئلہ کشمیر کے لیے سلامتی کونسل نے ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو
کشمیریوں کے حق میں حقِ خود اداریت کی قراداد منظور کی تھی جس کو کشمیری۷۲
سالوں سے اسی نام سے مناتے ہیں۔ مگر سلامتی کونسل کی آج تک جوں تک نہیں
رینگتی اور مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں ہے۔ بھارت نے اپنی۹ لاکھ فوج کشمیر
میں لگائی ہوئی ہے ۔ اب تو۵ ؍اگست ۲۰۱۹ ء کو مودی نے کشمیرے بارے بھارتی
آئین میں خصوصی دفعات ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کو ختم کر کے غیر قانونی طور پرکشمیر
جبر کے تحت بھارت میں ضم کر لیا۔ آزادی کی جد و جہد میں لاکھوں کشمیری شہید
ہو گئے، کھربوں کا مالی نقصان ہوا، ہزاروں عصمتیں لو ٹی گئیں، ہزاروں افراد
گم کر دیے گئے، ہزاروں قید کی صوبتیں برداشت کر رہے ہیں، ہزاروں کو اذیتیں
دے دے کر آپائج کر دیا گیا اور مسئلہ اب تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود
ہے اس طرح مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی مسلمان کافی عرصہ
سے۵؍ جنوری کو اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں سے یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں
کیوں نہ ہو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم
پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بانی پاکستان نے فرمایا تھا جموں
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کوئی جسم شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔جموں
کشمیر ہماری بقا کا مسئلہ ہے اس کے لیے کارگل کی جنگ ملا کر چار جنگہیں ہو
چکی ہیں۷۲ سالوں سے دنیا کے ضمیرکو یہ مسئلہ دستک دے رہا ہے کب دنیا کا
ضمیر جاگتا ہے اور انصاف کرتا ہے کشمیری کہتے ہیں ہم ساری عمر اس کا انتظار
کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
برصغیرہند وپاک میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سیاسی جدوجہد سے مملکت
پاکستان حاصل کیا۔برصغیر کی تقسیم اس فارمولے کے تحت ہوئی کہ جن صوبوں میں
ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ علاقے ہندوستان میں شامل ہونگے ا ور جن صوبوں میں
مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہونگے۔اس فارمولے کے تحت کشمیر
پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔مگر برطانیہ اور بین ا لاقوامی سازش کے
تحت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا اظہار خود برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے
اپنے دورہ پاکستان پہلا ہفتہ اپریل ۲۰۱۱ ء میں اس بات اعتراف کیا ہے کہ
بھارت ؍پاکستان کشمیر تنازہ برطانیہ کا پیدہ کردہ ہے اس کی نیوز رپورٹینگ
ڈیلی ٹیلگراف نے ۷؍ اپریل ۲۰۱۱ ء میں کی ہے۔ ریڈ کلف ایوارڈ نے جانبداری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے پٹھان کوٹ اورگرداس پور کو ہندوستان میں شامل کر دیا جبکہ
کے اس کی کثیر آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔وہ اس لیے کیا گیا کہ ہندوستان
کو کشمیر کا واحد زمینی راستہ مل جائے۔ یعنی درہ دنیال سے راستہ۔ یہ سازش
ان لوگوں نے کی جو دنیا کو سچائی کا سبق سکھاتے ہیں یعنی برطانیہ بہادر۔
ریڈ کلف کے سابق سیکرٹیری اور سول سروس کے ایک اعلیٰ افسر جو حقیقت آشنا
اور چشم دیدگوا تھے، نے اپنے یاداشتوں میں لارڈ مائنٹ بیٹن کی غیر منصفانہ
پالیسیوں سے اختلاف رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لارڈ ماوٗنٹ بیٹن نے نہ
صرف تقسیم کے وقت مروجہ قوانیں کو توڑا بلکہ سرحدوں کے لیے انہوں نے ریڈ
کلف پر باقاعدہ دباؤ بھی ڈالا۔لکھتے ہیں کہ مجھے چالاکی سے ایک ظہرانے میں
شرکت سے روک دیا گیا جس میں ماوٗنٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ایک مسلم اکثریتی
علاقے گرداسپور کو جو کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے
،پاکستان کے بجائے بھارت میں شامل کنے کا فیصلہ کیا۔
قارئین! کشمیر جغرافیائی طور پر پاکستان کا فطری حصہ ہے ۔کشمیر کے سارے
دریا پاکستان کی سمت بہتے ہیں۔ سارے زمینی راستے سوائے درہ دنیال کے کشمیر
سے پاکستان کی طرف آتے ہیں واحد راستہ جیسے کے پہلے بتایا جا چکا ہے سازش
کے ذریعے ہندوستان کو دیا گیا تھا۔مذہبیی طور پر بھی کشمیر کا الحاق
پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ ۹۰ فی صد مسلمان کشمیر میں رہتے
ہیں۔تہذیبی طور پر بھی ایک جیسے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں ان کا کلچر، ان کی
زبا ن ایک، ان کے رہنے سہنے کے طر یقے ایک۔ شادی بیاہ کے طریقے ایک
جیسے۔۱۹۴۷ ء میں جب ہندوستان نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر
میں اتارنی شروع کیں تو مسلمانوں نے ہندوستان کی سازش کو سمجھا تو فوراً
کشمیر کی طرف مارچ شروع کیا۔ کشمیر کے سابق فوجی اور پاکستان کے قبائل نے
پاکستان کی مدد کی ۔قائد اعظم ؒ نے فوج پاکستانی فوج کے اُس وقت کے کمانڈ ر
جرنل گریسی کو آزادی کشمیر کے لیے کشمیر پر حملے کا حکم دیا توسازشی کمانڈر
نے قائد اعظم ؒ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ۔کشمیر کے سابق فوجیوں،پاک
فوج اور پاکستان کے قبائل نے موجودہ کشمیر کا ۳۰۰ میل لمبا اور ۳۰ میل چوڑا
حصہ اور گلگت بلتستان مقامی کمانڈروں نے آزاد کروا لیااور ڈوگرہ انتظامیہ
کو علاقہ بدر کر دیا۔پاک فوج اور قبائل سری نگر تک پہنچنے والے ہی تھے کہ
پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست پیش کر دی
۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی اور فیصلہ کیا کہ حالات ٹھیک ہونے کے بعد
کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے گی کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے
ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔اقوام متحدہ نے اپنے مبصر جنگ بندی لین جسے شملہ
معاہدے کے تحت کنٹرول لین بنا دیاپرتعینات کر دیے جو آج
تک موجود ہیں۔آج۷۲ سال ہو گئے مگر ہندوستان اوراقوام متحدہ (مغرب کی
لونڈی)نے اپناوعدہ پورا نہیں کیا۔ دوسری طرف اسلامی ملک انڈونیشیا کے حصے
بخرے کرتے ہوئے عیسائی آبادی والے جزیرے میں فوراً استصواب کروا کے عیسایوں
کی حکومت قائم کروا دی اور کچھ عرصہ پہلے اسلامی ملک سوڈان کے وارفر علاقہ
جس میں عیسایوں کی آبادی ہے ریفرنڈم کے ذریعے ایک عیسائی ریاست قائم کر دی۔
واہ رے انصاف واہ ! ۔۷۲ سال سے کشمیر اور فلسطین کامسئلہ حل نہیں ہوا۔ پہلے
تو برطانیہ بہادر نے اپنے دور میں کشمیریوں کو چند نانک شاہی ٹکوں کے عوض
ڈوگروں کو فروخت کیا۔پھر بھارت کو ناانصافی اور سازش کے ذریعے کشمیر میں
داخل ہونے کے لیے ،انصاف کے سارے تقاضے ایک طرف رکھ کرراستہ مہیا کیا اور
اب۷۲سال ہو گئے استصواب رائے کروانے کے لیے تیار نہیں ہو رہے۔ ہندوستان طرح
طرح کے بہانے تلاش کرہا ہے۔ کشمیر کے دریاؤں پر ڈیم بنا کر کشمیر کا پانی
ہندوستانی پنجاب اور را جستان کی طرف لے جار ہا ہے۔ یہ سند طاس معاہدے کی
خلاف ورزی ہے۔ کشمیری اپنے وطن کی آزادی کے لیے پہلے ڈوگروں سے لڑتے رہے ان
کے ظلم سہتے رہے ۔ڈوگرہ دور میں جیل کی چاردیواری کے اندر آذان دیتے
ہوئے۲۱کشمیری ایک وقت میں آذان مکمل کرتے ہوئے شہید کئے گئے۔ڈوگروں نے زندہ
کشمیریوں کی کھا لیں اتاری ۔اس کی یاد گار اب بھی آزادکشمیر کے اند ر موجود
ہے۔ کشمیریوں نے ہندوستان کے بار بار کرائے جانے والے جعلی الیکشن سے تنگ
ہو کر اپنی آزادی کے لیے بندوق اٹھائی۔ ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔
اب تک جاری تازہ مہم میں نہتے کشمیر ی بھارتیوں کی بندوقوں کا پتھر سے
مقابلہ کر رہے ہیں جب کشمیریوں کے بچے،نوجوان اور عورتیں ٹینکوں کے مقابلے
میں پتھر اٹھا لیں تو سمجھ جائیں کہ اس قوم کی آذادی قریب آ گئی ہے۔ ان کا
کہنا ہے بھارتیو ! ہمارے و طن سے نکل جاؤ ہم پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے
ہیں۔اپنے وعدے پورے کرو بذریعہ استصواب ہمیں آزادی دو۔لاتعداد تا زہ
شہادتیں ہو چکی ہیں۔ کئی کئی ہفتے سے کرفیو لگارہتا ہے۔ لوگ پریشان ہیں
لیکن ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی بیمار ۹۰
سالہ سید علی گیلانی تحریک کی کمانڈ کر رہا ہے ۔ سید علی کیلانی کہتا ہے
میں پاکستانی ہوں پاکستان میر ا ہے۔اس کا عزم ہمالیہ سے بھی بہت بلند
ہے۔کشمیری پاکستان کی جنگ لڑ ہے ہیں اور پاکستان کی حکومت کشمیر کا مقدمہ
صحیح طریقے سے نہیں لڑ رہی۔ پاکستان میں زمینوں کا پانی پورا نہیں ہو
رہااور اس کا پانی ڈیموں میں روک کر ہندوستان نے بھارتی پنجاب اور راجستان
کی طرف تبدیل کر دیا ہے۔ کشمیر کے ڈیموں میں جمع شدہ پانی کو جب چاہے چھوڑ
کر پاکستان میں سیلا ب لا سکتا ہے۔ بھارت ایک طرف تو پاکستان سے مذاکرات کر
رہا ہے اور دوسری طرف چانکیہ ذہنیت کے مطابق اندرا گاندھی نے وصیت کی تھی
کہ میر ی میت کی راکھ کشمیر کے پہاڑوں میں اوڑا دینا۔ اس کی موت کے بعد
ایسا ہی کیا گیا۔ ہندوستان کے وعدے اور ان کاطرز عمل منافقت کی نشان دہی
کرتا ہے۔ کشمیر جنت نظیر ہے ۔ اور جنت کبھی کافر کی جاگیر نہیں ہو سکتی۔
کشمیر میں دنیا کے دو عجائب ہیں کے ٹو دنیا کی دوسری بڑی اونچی چوٹی اور
شاہ راہ ریشم جو کشمیر سے گزرتی ہے ۔ بیشمار جھیلوں،باغوں اور قدرتی مناظر
والی کشمیر مسلمانوں کی جاگیر ہے اور ہے گی اس مشکل کی گھڑی میں دارالعلوم
دیو بند نے کشمیر پر بھارت کی حمایت کر دی اور کہا بھارت آئین کے تحت حل کے
لیے کوشش کرے۔مقبوضہ کشمیر کو بھارتی اٹوٹ انگ قرار دے دیا اور کشمیریوں سے
اپیل کی کہ وہ بھارتی فوج پر پتھراؤ نہ کریں کشمیری لیڈروں نے اس حمایت کی
پر زور مذمت کی ۔نہتے کشمیروں پر گولیوں برس رہی ہیں اور وہ پتھر بھی نہ
ماریں یہ تو عجیب منطق ہے ۔آپ اگر مظلوم کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتے تو
اُن کا زخموں پر ایسی باتیں کر کے نمک تو نہ چھڑکیں ۔ ایک لاکھ شہادتوں کے
بعد تازہ تحریک کے دورن سیکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں اوربندوق چلانے
والوں کو پتھربھی نہ ماریں۔امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ کرؤلی نے
کہا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال گہری تشویش ہے لیکن حل کے لیے ثا لثی نہیں
کراسکتے۔اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کا
سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ہماری واضح پالیسی ہے کہ امریکی ثالثی کے بغیر
دونوں ممالک کو خود ہی مسئلہ کو حل کرنا ہو گا۔یہ بیان ذہن میں رکھتے ہوئے
اورپاکستان کی طرف سرد مہری کی وجہ سے میر واعظ فاروق اور سید علی گیلانی
حریت کانفرنس کے مرکزی لیڈروں نے پھر بھی امریکہ کے صدر سے اپیل کی ہے
کشمیر کا فیصلہ کروائے ،کشمیر کے مرکزی لیڈروں کا بصد احترام کرتے ہوئے
گزارش ہے ۔بقولِ غالب:۔
ہم کو ہے ان سے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفاع کیا ہے
ڈکٹیٹرپرویز مشرف کے دور میں دوسرے ملک دشمن اقدام کے علاوہ کشمیر کے باڈر
پر ہندوستان کی طرف سے باڑ لگانے کی سہولت فراہم کرنا بھی ہے۔پوری پاکستانی
قوم کی ایک سوچ کہ جموں و کشمیر میں رائے شماری ہونی چاہیے جو اقوام متحدہ
نے بھی تسلیم کی ہوئی ہے اور اپنے آبزرور کنٹرول لین کے دونوں طرف تعینات
کئے ہوئے ہیں پرویز مشرف نے دوسرے آپشنز کی بات کر کے مسئلہ کشمیر کومذید
الجھا دیا ہے جسے کشمیر ی قیادت نے ناپسند کیا ہے۔ مشرف نے کشمیری لیڈر شپ
کو پاکستان آنے کی دعوت دی کہ وہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورہ کر کے چلے
گئے مگر سید علی گیلانی نے آنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان مسئلہ کشمیر حل
کروائے بغیر آمن کی آشا کے راستے پر چل پڑا ہے۔ اس میں دورہ کیسے کیا جائے
یہ تو صرف فوٹو سیشن تھا۔سپریم کورٹ سے تاحیات سیاست سے نا اہل نواز شریف
نے مسئلہ کشمیر ایک طرف رکھ کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے صرف آلو پیاز
کی تجارت کی۔ اب عمران خان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ بڑے زور شور
سے اُٹھا یا۔ک وئی کچھ بھی کرے پاکستانی قوم تو کشمیریوں کے ساتھ ہے۔
قارئین! کشمیر ا ن شا ء اﷲ کشمیریوں کی موجودہ جدوجہد سے آزاد ہو گا۔کشمیر
مسلمانوں کا ہے اور انہیں مل کے رہے گا ۔ جب تک کشمیر پاکستان میں شامل
نہیں ہوتا پاکستان نامکمل رہے گا ۔کشمیری ہر سال ۵؍ جنوری کویوم خود اداریت
مناتے ہیں جب تک اقوام متحدہ کا ضمیر نہیں جاگتا کشمیری اسی طور پر یوم خود
اداریت کشمیر مناتے رہیں گے ۔ کشمیر پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔اب جاری
تازہ مہم میں نہتے کشمیر ی بھارتیوں کی جیل میں بھی کی بندوقوں کا پتھر سے
مقابلہ کر رہے ہیں جب کشمیریوں کے بچے،نوجوان اور عورتیں ٹینکوں کے مقابلے
میں پتھر اٹھا لیں تو سمجھ جائیں کہ اس قوم کی آزادی قریب آ گئی ہے۔ ان کا
کہنا ہے بھارتیو ! چائے تم اپنے ہی آئین کی خلاف وردی کرتے ہوئے ہمیں بھارت
میں شامل کر لو ہم پاکستانی ہیں پاکستان میں شال ہونا چاہتے
ہیں۔بھارتیوہمارے و طن سے نکل جاؤ ہم پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔اﷲ
کشمیریوں کی مدد فرما۔آمین۔
|