کرپشن اور توبہ کے دروازے
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
شبیر ابن عادل تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو سزائیں دینے اور قانون کے شکنجے میں جکڑے جانے کا عمل جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس حوالے سے لوگوں کو تحفظات ہوں اور کسی کو اس کی شفافیت پر شک۔ خاص طور پر سزائیں پانے والے اور اپنے کرتوتوں کی بناء پر گرفتاریوں سے خوفزدہ سیاستدان اسے سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سزاؤں سے بچنے کے لئے حکومت گرانے اور اِن ہاؤس باتیں ہورہی ہیں۔ ایک عجب قسم کی ہیجانی کیفیت پورے ملک میں برپا ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ چوری اور سینہ زوری !!!! کیا ملکی خزانہ ایسا مالِ مفت ہے کہ جو چاہے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھولے مظلوم غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں اور ان کے حکمران لندن اور پیرس کے محلوں میں عیش کرتے رہیں۔ کیا یہی زندگی ہے اور یہی انصاف ؟؟؟؟ لوٹ مار اور کرپشن ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سیاستدان ہی کیا، سب کا یہی حال ہے۔ جس کو موقع ملتا ہے، لوٹ مار میں ملوث ہوجاتا ہے۔ شریف صرف وہی ہے، جس کو موقع نہیں ملتا۔ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دیانتدار اور ایماندار لوگ آٹے میں نمک سے بھی بہت کم ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں، جب ایک اعلیٰ افسر نے مجھ سے کہا تھاکہ سرکار کے کام ایسے ہی چلتے ہیں (یعنی کرپشن)۔ کیونکہ کچھ دیر قبل ایک ٹھیکے دار اُسے نوٹوں سے بھر ا ہوا شاپر دے کر گیا تھا۔ میں نے اسے خدا خوفی کا واسطہ دیا تو اس نے کہا کہ سب ہی اس میں ملوث ہیں اور سب ہی کھاتے ہیں، جس کو دیکھو کرپشن میں لگا ہوا ہے میں تنہا اس کا ذمہ دار نہیں۔ پھر اُس اعلیٰ افسر نے کہا کہ کیش کا طریقہ پرانا ہوچکا ہے۔اب تو کسی پروجیکٹ کا بجٹ ایک کروڑ ہو تو اُسے ڈھائی کروڑ کرایا جاتا ہے۔ کنٹریکٹ فرم یا ٹھیکے دار اس میں سے ایک کروڑ روپے اپنی جیب میں رکھ کر ڈیڑ ھ کروڑ روپے ہمیں دے دیتے ہیں۔بالکل درست کہا، اُس افسر نے یہی ہوتا رہا اور یہی ہورہا ہے ہر سطح پر اور ہر ڈپارٹمنٹ میں۔ مگر اس امر کی امید پیدا ہوچلی ہے کہ شاید مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ لیکن فی الحال توایسا ہی ہورہا ہے، کرپشن پورے معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکا ہے۔ غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ ہر بااختیار فرد لوٹ مار میں ملوث ہے۔ اگر ایسا ہے تو صرف سیاستدانوں اور سابق حکمرانوں کو ہی سزا کیوں مل رہی ہے۔ اس کا جواب اعلیٰ حکام بلکہ ملک کے 'اصل حکمران ' یہ دیتے ہیں کہ سب کے گر د گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ چونکہ سیاست دان مشہور ہوتے ہیں، اس لئے میڈیا اُن ہی کی کوریج میں لگا رہتا ہے، تاکہ اپنی ریٹنگ بڑھا سکے۔ دردمند، محب وطن اور دیانتدار لوگ بہت دکھ بھر ے انداز میں کہتے ہیں کہ لوٹ مار یا کرپشن کرنے والوں کا پیٹ کتنی دولت سے بھرے گا؟ دولت ایک حد تک تو مسائل اور مشکلات حل کرتی ہے۔ مگر بے پناہ دولت کس کام کی؟ ضرورت سے زائد دولت بینکوں یا تجوریوں میں بند رہتی ہے۔ دانش مندوں سے سنا ہے کہ لالچی انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ماضی کے شداد، قارون، فرعون اور ہامان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ دور کے قارونوں نے بھی اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے یا معزول کئے گئے تو ان کے اکاؤنٹس اور محلوں سے کروڑوں اربوں ڈالر نکلے اور بے حساب جائیداد۔ بے پناہ مال ودولت اُن کے کسی کام نہیں آسکی۔ یہ بات کبھی بھی میری سمجھ میں نہیں آسکے گی کہ اگر سرکاری افسران اور دوسرے بااختیار افراد کرپشن میں ملوث ہوں تو یہ امر قابل فہم ہے کہ انہوں نے ماضی میں قانون کی ڈھیلی گرفت سے فائدہ اٹھایا اور بعض صورتوں میں قانون کے رکھوالوں کو بھی خرید لیا۔کیونکہ اُن کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اور ایک خاص وقفے کے بعد عوام سے ووٹوں کی بھیک مانگنے والے سیاستدان اور حکمران بھی کرپشن میں ملوث ہیں اور وہ بھی اربوں کھربوں کی۔ اس حوالے سے حیرت ہوتی ہے۔ میرے حساب کتاب کے مطابق اگر ہمارے ملک میں کوئی بھی پانچ چھ فیصد کرپشن کرے تو کسی کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ لیکن حرص ولالچ کا کیا کریں، کیونکہ وہ کبھی ختم نہیں ہوتی چاہے پہاڑوں کو سونے کا بنا دیا جائے، تب بھی اُن کی لالچ ختم نہ ہوگی۔ افسوس انہوں نے کبھی بھی نہ تو اپنے ملک کی عزت اور وقار کا خیال کیا اور نہ ہی اپنی عزت کا۔ وہ برسوں سے یہ کھیل کھیلتے رہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ انہوں نے غیرملکی بینکوں کو اپنی لوٹ مارکی رقوم سے بھر دیا اور دبئی، لند ن اور دیگر شہروں میں جائیدادیں خرید لیں۔ یہ بات بھی میرے لئے ناقابل فہم ہے کہ ایسے لوگ اپنی موت اور آخرت میں ہونے والے حساب کتاب کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ جبکہ ان میں اکثریت بوڑھے بابوں کی ہے۔ اگرچہ طبقہ ئ امراء میں دین کی کوئی اہمیت نہیں (العیاذُ باللہ) اور نہ یقین ہے، اپر کلاس میں زیادہ تر کفر و الحاد کا دور دورہ ہے۔ لیکن بڑھاپے کی حدود میں داخل ہونے کے بعد بڑے بڑوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور اُن کو اپنی بخشش کی فکر ہونے لگتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد ہی سہی، لیکن توبہ کے دروازے تو کھلے ہیں نا ۔۔۔۔۔ !!!!! ۔ |