دِلخر اش مچھ واقعہ

دِلخر اش مچھ واقعہ
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
بلوچستان کے شہر مچھ میں 3جنوری کو ہونے والے واقعہ نے پوری قوم کو دھلا کر رکھ دیا۔ ہزارہ کمیونٹی کے 10کان کنوں کو بے دردی، بے رحمی سے پہلے اغواکیا اور شہید کر دیا، تفصیل لکھنا بھی مشکل،سن کر ہی پتھر سے پتھر دل لرز گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات عرصہ دراز سے رونما ہورہے ہیں تاہم یہ بڑا واقعہ کافی عرصہ بعد رونما ہوا۔ افواج پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مسلسل کاوشیں اور قربانیاں دیں ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ان کے دو ہزار لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ کہا جارہاہے کہ ہزارہ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ کیوں اور کون لوگ ہزارہ قوم کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں۔ 10 کانکنوں کے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے کان کنوں کی لاشین کھلے آسمان کے نیچے رکھ کر احتجاج شروع کیا جس میں خواتین، بچے اور مرد شامل تھے۔ رفتہ رفتہ ان شہیدوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہوگئی، حکومت مخالف پی ڈی ایم کے رہنما بلا ول اور مریم نواز اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھرنا گاہ پہنچے، شہیدوں کے ساتھ دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا اور حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ باوجود اس کے کہ وہاجانے سے قبل یہ بیان آچکا تھا کہ سیاست نہیں ہوگی،لیکن شاعر ذوق کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘، سیاست سیاستدانوں کے لیے ایسی ہی ہے۔ کہاوت ہے کہ ’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘، ناچھاتے ہوئے بھی بلاول اور مریم نے اپنی تقاریر میں اظہار دکھ کے ساتھ ساتھ حکومت پر خاص طور پر عمران خان پر خوب تیر کے نشتر برسائے۔ احتجاج نے دھرنے کی شکل اختیار کر لی،سردی عروج پر رات میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نو درجہ تک ہوتا اورشہیدوں کے لواحقین اور ہمدرد سراپا احتجاج خواتین ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے میں سخت سردی میں سرا پا احتجاج تھے۔ دھرنے میں اسٹیج بھی سجادیا گیا، ہمدرد جیسے جیسے آتے وہ شہیدوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے کچھ ان کے ساتھ ہی بیٹھ جاتے کچھ تقریر کر کے چلے جاتے۔ ہزارہ کمیونیٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کا سلسلہ جاری رہا۔ شہدا کمیٹی تشکیل دے دی گئی، اس کے علاوہ تنظیم وحدت المسلمین نے بھی اپنی تمام تر ہمدردیاں شہداکے لواحقین کے ساتھ شامل کردیں۔
شہیدوں کے جنازوں کے ساتھ دھرنا پہلی بار نہیں ہورہا تھا اس سے پہلے بھی اسی قسم کی صورت حال کئی بار پیدا ہوچکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں اور نون لیگ کی حکومتوں میں ایسا ہوچکا ہے۔ لواحقین نے جو مطالبات حکومت کو پیش کیے ان میں سر فہرست وزیر اعظم عمران خان مچھ پہنچے اور لواحقین سے اظہار تعزیر اور ہمدردی کریں اس سے قبل وہ شہیدوں کو دفن نہیں کریں گے۔بہ ظاہر یہ مطالبہ غیر معمولی یا ایسا نہیں تھا کہ اس پر عمل نہ کیاجاسکتا تھا، ہرکوئی اس بات کے حق میں تھا کہ عمران خان کو ایسا کرنا چاہیے۔ انسانی ہمدردی،شدید غم، دکھ کی اس گھڑی میں سربراہ مملکت کا اظہار دکھ و ہمدردی کرنا بنتا ہے لیکن عمران خان صاحب خان بھی ہیں اور خاں صاحب بھی، مزاج کے اپنے ہی الگ ہیں۔ ماضی میں اس قسم کے حادثات میں وہ پہلی فرصت میں نہ صرف جاتے رہے تھے بلکہ حکومتوں کو اور سربراہان کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ ان کی اس طرح کی ویڈیو او ر بیانات ٹی وی چینلز نے خوب چلائے لیکن پہلے تو خان صاحب یہ کہتے رہے کہ آپ شہدا کی تدفین کریں میں آجاؤں گا کوئٹہ لیکن پانچویں دن انہوں نے یہ بیان داغ دیا کہ مجھے لواحقین سے ہمدردی اور شہادتوں کا دکھ ہے لیکن میں ’بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا‘، یہ بیان آگ کی مانند پھیل گیا، حزب اختلاف تو پہلے ہی دو دھاری تلوار لیے بیٹھی تھی، خان کے خلاف زبردست گولا باری ہوئی۔ بعد میں وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ انہوں نے در اصل یہ جملہ پی ڈی ایم کے لیے کہا تھا۔ شہیدوں کے لواحقین کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں نے اس مطالبہ کو ایسی ہوا دی کہ لواحقین شہیدوں کے جسم خاکی کے ساتھ کھلی فضاء میں چھ دن تک بیٹھے رہے۔ ادھر حکومت کی جانب سے کئی وزراء کو بھیجا گیا، لیکن بات نہیں بنی، عمران خان کی حاضری کو ضروری کہہ کر بات بڑھتی چلی گئی۔ چھٹے دن عمران خان کی جانب سے سخت بیان سامنے آگیا۔اس بیان نے گویا لواحقین سے زیادہ پی ڈی ایم کو چنگاری لگا دی اور انہوں نے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی، بلاول اور مریم جو کچھ عمران خان کو کہہ سکتے تھے انہوں نے کہا۔ حکومتی وزراء کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ شہدا کی تدفین کریں عمران خان اسی لمحہ کوئٹہ کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔ یہ بات خود عمران خان نے بھی کہی کہ لواحقین تدفین کریں میں اسی لمحہ کوئٹہ پہنچ جاؤنگا۔ لیکن بات بن کے نہیں دے رہی تھی۔ چھٹا دن ختم ہونے کو تھا، کوششیں تیز ہوئیں، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال جو پہلے ہی ایک کوشش کرچکے تھے دوبارہ لواحقین اور شہدا کمیٹی سے مذاکرات کے لیے حکومتی وزراء کے ہمراہ دھرنا گاہ پہنچے۔ چھٹا دن ختم ہوچکا تھا اور ساتوا دن شروع ہوچکا تھا۔ اسی دوران مذاکرات کامیاب ہوئے، دونوں فریقین کے درمیان تحریری معاہدہ طے پایا، جس کا اعلان وفاقی وزیر انیس زیدی نے کیا، جام صاحب نے بھی اظہار خیال کیا، فوری بعد جنازے اٹھائے گئے اور طے پایا کہ صبح 10بجے تدفین عمل میں لائی جائے گی اور عمران خان صاحب بھی اسی وقت کوئٹہ روانہ ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا دونوں جانب سے۔ ساتویں دن شہدا کی تدفین عمل میں لائی گئی اور عمران خان اپنے وعدہ کے مطابق کوئٹہ پہنچے۔
اس حادثہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا کہ ہزارہ برادری سے اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں دھرنے دینا شروع ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں جگہ جگہ دھرنے شروع ہوگئے، صرف کراچی میں 29جگہوں پر دھرنے دئے گئے۔ عوام پریشان ہوگئی، ہزارہ برادری کے ان شہیدوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا پاکستان کا ہر شہری دل خستہ تھا، پوری پاکستانی قوم انتہائی غم رسیدہ تھی، پریشان تھی۔ دھرنے میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شامل تھے اس لیے کہ واقعہ ہی اس قدر درد ناک تھا لیکن ملک میں ایک تاثریہ سامنے آنے لگا کہ شہیدوں و لواحقین سے ہمدردی کی یہ تحریک فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتی جارہی ہے جو کہ ملک کو سنگین صورت حال سے دوچار کرسکتی تھی۔ اس صورت حال کا ادراک شہیدوں کے لواحقین نے بھی کیا، صوبائی اور مرکزی حکومت کے نمائندوں نے بھی معاہدہ کو عملی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ساتویں روز شہداکی تدفین ہوئی، عمران خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئٹہ گئے اور غم رسیدہ و غم زدہ لواحقین سے غم خواری کی اور ان کے دکھ میں شریک ہوئے۔
ہزارہ برادری کے ساتھ اس طرح کا ظلم عرصہ دراز سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک دو ہزار سے زیادہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے ہزارہ قوم سے وقتی وعدے کیے، امداد دی، ان کے غم میں شریک ہوئے لیکن اس کی بنیاد کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ موجودہ حکومت میں یہ حادثہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اب بھی لواحقین سے ہمدردی اور ان کے دکھ میں شریک ہونا، امداد دینے سے ضروری یہ ہے کہ اس کی بنیاد معلوم کی جائے آخر دہشت گرد ہزارہ قوم کے معصوموں کو ہی نشانہ کیوں بنا رہے ہیں۔ حکومت کو اس کی بنیاد تک پہنچنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وقتی طور پر تو معاملہ ٹل گیا، وقتی انتشار اور خوف ضرور ختم ہوگیا لیکن آئندہ کسی بھی وقت اللہ نہ کرے ایسی سازش دھرائی جاسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر خاموش نہ رہے بلکہ ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے واقعات کی بنیاد پر توجہ دے۔ وجوہات سامنے لائی جائیں، بے گناہوں کو بے دردی سے شہید کرنے والوں کو کیفے کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔(12جنوری2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286196 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More