بلیک میلنگ یا بے حسی

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی فرمایا تھا کہ اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔آج ریاست مدینہ کے خواب دکھانے والے کپتان کو گیارہ لاشیں منفی پانج درجہ حرارت میں پڑی آواز دے رہیں ہیں مگر وہ زندہ لاش ہونےکا ثبوت دے رہا ہے۔

ہزارو برادری کےساتھ یہ پہلی بار نہيں ہوا پہلے بھی اس برادری نے اسی لاشیں رکھ کر بھوک ہڑتال کی تھی۔ پپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے وہاں پر اپنی صوبائی حکومت کو گرا دیا تھا ، نواز حکومت میں آرمی چیف جنرل باجوہ ذاتی طور پر گئے تھے۔ خود عمران خان اس وقت اپوزیشن بنے ریاست کو تنقید کا۔نشانہ بناتے رہے ان کے ٹیوٹس آج بھی موجود ہیں۔ آج جب انہیں اقتدار کا نشہ سر پر چڑھ گیا ہے تو وہ اس طرح بلائے جانے کو بلیک میلنگ قرار دے رہے ہیں ۔جو باتیں زلفی بخاری نے اور عمران خان نے کہیں ہیں وہ اس دکھ سے بڑھ کر صدمہ ہیں۔ خان صاحب بلیک میلنگ تو وہ تھی جو آپ نے ۱۲۶ دن ڈی چوک میں کنسرٹ کیا تھا ۔ریاست کو صرف چار حلقوں کے لیے ہراساں کیے رکھا۔ کیا آپ کی نظر میں وہ چار حلقے ان گیاراں لاشوں سے زیادہ معتبر تھے؟ آپ کا قبلہ صرف آقتدار ہےآپ کا دین سیاست ہے! عوام کا درد کہاں بے ضمیروں کو محسوس ہوتا ہے؟ کیا آپ کے پاس ترکی کے اداکاروں سے ملاقات کرنے کا وقت ہے تعزیت کے لیے نہیں ہے؟ رات کو نیند آ جاتی ہے ان روتی بلکتی بچیوں کی آوازیں آپ کو سنائی نہیں دیتی؟ کیا اسلام آباد کی آب و ہوا نے آپ کے ضمیر کو منجمد کردیا ہے؟

مظلوم وغیرمسلح مزدوروں کا سر عام قتل اوپر سے ریاستی بے حسی خون جگر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ قلم کی سیاہی اس سفاکی کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ آنسوؤں کی روشنائی ہی کچھ کہہ سکے تو کہے۔

حکومت سے درخواست ہے کہ ان عناصر پر اپنا شکنجہ مضبوط کرے ، تحقیقات شروع کرے ،نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کویقینی بنانے اور آپریشن شروع کرے۔

عوام۔سے درخواست ہے کہ سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بڑھکتے ہوئے انگارے نا دھکائیں۔ صرف اپنی واہ واہ کی خاطر جذباتیت کی آڑ مپں مذہبی منافرت پھیلانے کا ذریعہ نا بنے۔ ورنہ دشمن لوہا گرم دیکھ کر ہی وار کرتا ہے۔
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبابی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اپنے اصل دشمن کو پہچانا جائے ۔ کلبوشن یادیو کو نا بھولیں جسے خاص الخاص کوئٹہ میں امن خراب کرنے ، مذہبی فساد مچانے کا مشن سونپا گیا تھا۔ پچھلے دنوں سنی رہنما ڈاکٹر عادل کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمیں اس آگ میں جھونکا جا رہا ہے جس کا پہلا شعلہ ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلے تھے۔

جال ہزارہ برادی کی نسل کشی کر کے بچھایا جا رہا ہے جو بربریت کی انسانیت سوز مثال ہے۔ پچھلے دنوں راقم الحروف نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آخر ہزار برادی خود کو کمییونٹی کیوں کہتے ہیں؟ کیا وہ آئین میں اقلیت قرار دیئے گئے ہیں یا وہ کسی ملک سے آئے ریفیوجی ہیں؟ ایک شیعہ لڑکی نے دل سوز و دل خراش جواب دیا کہ کیونکہ ہزارہ والے کوئٹہ کے اندر بھی چاردیواری میں محصور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شیعہ ہونے کی وجہ سے کہیں سے بھی کبھی بھی کوئی گولی یا دھماکہ ان کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جب اپنی ہی ریاست میں وہ اتنے غیر محفوظ ہیں تو یہ ریاست کے منہ پر بد نما داغ اور سوالیہ نشان ہے۔ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے لیکن دہائیوں سے ہزارہ والوں کے لیے سوتیلی ماں ثابت ہوئی۔ اور اب موجودہ حکومت ان کے زخموں پر نمک پاشی کر کے زہریلی ناگن کا کرادر ادا کررہی ہے۔
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49526 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.