امریکہ الیکشن اک فریب

پوری دنیا کی نظریں اس وقت امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج پر مرکوز ہیں۔ امریکہ کے ایک عالمی سامراجی طاقت ہونے کے پیش نظر یہ انتخابات بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور سفارتی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 3 نومبر کو منعقد ہونے والے اس الیکشن میں یوں تو کئی پارٹیوں کے امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح اصل مقابلہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک امیدواروں کے درمیان ہے۔ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ، جو گزشتہ چار سال امریکہ کا صدر رہا ہے، دوبارہ الیکشن لڑ رہا ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار جو بائیڈن ہے جو اوباما دور میں 2009ء سے 2017ء تک امریکہ کا نائب صدر رہ چکا ہے۔ تا دمِ تحریر ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ووٹنگ کے بعد ابتدائی نتائج دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی عکاسی کر رہے تھے تاہم بی بی سی کے مطابق اس وقت جو بائیڈن کو 253 انتخابی پوائنٹس کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ جبکہ ٹرمپ نے اب تک 214 پوائنٹ حاصل کیے ہیں۔ امریکہ کا 46 واں صدر منتخب ہونے کے لئے 270 پوائنٹ درکار ہیں۔ اس وقت جارجیا، پنسلوینیا، شمالی کیرولینا اور نیواڈا کی ریاستوں سے حتمی نتائج آنا باقی ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں اب تک کے نتائج کے مطابق مقابلہ سخت ہے۔ بہرحال قوی امکان یہی ہے کہ مجموعی طور پر جو بائیڈن، جو بنیادی طور پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا امیدوار ہے، امریکہ کا یہ 59 واں صدارتی انتخاب جیت جائے گا۔

یہ الیکشن کئی لحاظ سے غیرمعمولی ثابت ہوا ہیں۔ مثلاً ووٹ ڈالنے کے اہل 66.9 فیصد افراد نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جو 120 سالہ تاریخ کا بلند ترین ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ امریکی معاشرے میں گہری ہوتی ہوئی سیاسی اور سماجی پولرائزیشن کی غمازی کرتا ہے۔ اسی طرح جو بائیڈن 7 کروڑ دس لاکھ ووٹ حاصل کر کے امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا صدارتی امیدوار بن گیا ہے۔ اس سے قبل اوباما نے سب سے زیادہ 6 کروڑ پچانوے لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں جو بائیڈن کو ملنے والے ووٹوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ سے تنگ امریکی سماج کی بیشتر پرتوں نے کسی ترقی پسند یا انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں جو بائیڈن کا انتخاب کیا ہے۔ الیکشن کے غیر معمولی ہونے کی تیسری وجہ ٹرمپ کی جانب سے انتخابی دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔ اس نے اپنے پے درپے سوشل میڈیا پیغامات اور تقاریر میں انتخابی عمل میں ”شدید بدعنوانی اور فراڈ“ کے الزامات عائد کیے ہیں اور اس سلسلے میں عدالتوں سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یوں حتمی نتائج آنے سے قبل ہی اس نے الیکشن کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ صورتحال کی نزاکت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جمعرات 5 نومبر کی رات کو جب وہ یہ الزامات عائد کر رہا تھا تو بیشتر امریکی ٹیلیوژن چینلوں نے اس کی تقریر کاٹ دی۔ اسی طرح فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی ٹرمپ کے ایسے پیغامات کیساتھ مواد کے ”ممکنہ طور پر متنازعہ اور گمراہ کن“ ہونے کے خصوصی نوٹ شائع کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے الزامات کتنی سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے کس قدر دردِ سر کا باعث بن رہے ہیں۔

امریکہ میں 1850ء کی دہائی سے دو پارٹی سیاسی نظام قائم ہے۔ ان دو پارٹیوں کے بارے میں امریکی لکھاری اور دانشور گور ویڈال نے کہا تھا کہ ”امریکہ میں صرف ایک سیاسی پارٹی ہے۔ یہ دولت اور جائیداد والوں کی پارٹی ہے۔ جس کے دو دائیں بازو ہیں: ریپبلکن اور ڈیموکریٹ۔“ یوں ان دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی امریکی محنت کش طبقے کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔ امریکہ کی حاوی سیاست میں محنت کش طبقے کے کسی نمائندہ رجحان کی عدم موجودگی تاریخی طور پر امریکی سرمایہ داری کے استحکام اور ترقی کی علامت ہے اور سماج پر امریکی بورژوازی کی مضبوط گرفت کی غمازی بھی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد سے زیادہ تر امریکی بایاں بازو اور ٹریڈ یونین اشرافیہ ”کمتر برائی“ کے نظرئیے پر کارفرما رہے ہیں اور محنت کش طبقے کو ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ سیاسی افق پر کسی متبادل کی عدم موجودگی میں محنت کش طبقہ بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے ذریعے اپنی مانگوں اور مطالبات پر عملدرآمد کی کوشش کرتا رہا ہے۔ تاہم 1970ء کے بعد سے امریکی محنت کشوں کی حالت زار ابتری کا شکار ہی ہوئی ہے جس میں 2008ء کا بحران مزید شدت لایا ہے۔ اس حوالے سے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج دو پارٹیوں پر مبنی یہ نظام امریکی محنت کشوں کی زندگیوں میں کوئی ترقی اور بہتری لانے سے قاصر نظر آتا ہے۔

ٹرمپ روزِ اول سے ہی ڈھٹائی اور بدتمیزی پر مبنی اپنی حرکتوں، زبان اور لاابالی طرز ِ عمل کی وجہ سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تضاد کا شکار رہا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کو مسئلہ ٹرمپ کے ارادوں یا نصب العین سے نہیں بلکہ طریقہ کار سے ہے جس میں امریکی سامراج کی تاریخی زوال پذیری کی وجہ سے فرسٹریشن کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ فرسٹریشن پھر اکثر دھونس کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو امریکی سامراج کے نمائندوں کے لئے مخصوص لبرل منافقت پر غالب آ جاتی ہے اور بیشتر صورتوں میں جگ ہنسائی یا معاملات کے مزید بگاڑ کا موجب بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش ہے کہ ٹرمپ سے جان چھڑائی جائے اور باگ ڈور جو بائیڈن جیسے اپنے گھاگ اور ”مہذب“ نمائندے کو سونپی جائے۔ لیکن نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے محنت کش اور محکوم عوام کے لئے یہ انتخاب ایسے ہی ہے کہ جیسے پیپسی یا کوکا کولا میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن‘ دونوں کے اقتدار میں امریکی سامراج کی براہِ راست یا بالواسطہ جارحیت، قتل و غارت، مداخلت اور داخلی و خارجی جبر و استحصال جاری و ساری رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اوباما، جسے مظلوم سیاہ فاموں کا نمائندہ اور ”تبدیلی“ کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا رہا، کے دور میں بھی امریکی سامراج اوسطاً تین بم فی گھنٹہ کے حساب سے دنیا کے مختلف خطوں میں گرا رہا تھا۔ جو بائیڈن اسی اوباما کا نائب صدر تھا۔

حالیہ انتخابات کے بعد سماجی انتشاراور بے چینی میں اضافہ ہی ہوگا۔ حالات کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتے ہیں جس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔ امریکی سماج میں شدید پولرائزیشن کے پیش نظر فسادات پھوٹ سکتے ہیں۔ ہار کی صورت میں نتائج کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے ٹرمپ ضد پر اڑ سکتا ہے اور معاملات کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دنوں یا ہفتوں کے انتشار اور تنازعے کے بعد جو بائیڈن مسند اقتدار پر براجمان ہو جائے۔ لیکن اِن حالات میں وہ آبادی کے بڑے حصے کی نظر میں روزِ اول سے ہی متنازعہ بن چکا ہو گا۔ حالات کوئی بھی رخ اختیار کریں‘ یہ طے ہے کہ امریکی محنت کشوں کے لئے حکمران طبقے کے مفادات کے نمائندہ دو امیدواروں کے درمیان چناؤ کا حق درحقیقت انتخاب کا فریب ہے۔ اپنے طبقاتی مفادات کی پاسبانی کے لئے انہیں ملکی سطح پر اپنی سیاسی قوت تعمیر کرنا ہو گی جو آج سرمایہ داری کے شدید بحران کے عہد میں انقلابی سوشلزم کے نظریات کی بنیاد پر ہی تشکیل پا سکتی ہے۔ نہ صرف اپنے فوری مطالبات کے حصول بلکہ عالمی سطح پر سامراج کی مسلسل بربریت کے خاتمے اور سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں امریکی محنت کشوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے جس کی ادائیگی ایک تاریخی فریضے کا درجہ رکھتی ہے۔

 

Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 173287 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.