ہم نے سبق نہیں سیکھا

تحریر:مراد مقصود

بڑے بوڑھوں کی نصیحتوں میں زندگی کے بے تحاشہ راز مضمر ہیں۔سمجھ دار قومیں اُن سے حاصل شدہ فیضان سے مستفید ہوکر،ناصرف بھلائی حاصل کرتی ہیں بلکہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کرمشکلات سے بچتے ہوئے کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتی ہیں۔ عقلمند بزرگوںنے کہا ہے کہ بادشاہوں کی طبیعت سے ڈرتے رہنا چاہیے۔کبھی تو سلام کرنے سے ناراض ہو جاتے ہیں او رکبھی گالی دینے پر انعام دے دیتے ہیں۔اس نصیحت کاحاصل سبق یہ ہے کہ دوست نما دشمن کی چالوں سے ہر وقت محتاط رہنا چاہیے۔قرآن میں ہے کہ” بڑے لوگوں کی طبیعت میںلمحہ لمحہ تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ان کے تیور بھی پرکھتے رہنا ضروری ہے اور قرب سلطان کے لمحات بہت عقل مندی سے گزارنے چاہئیں۔“

امریکہ بلاشبہ دنیا کا سلطان وسردار (طاقتورترین)ملک ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم اس کے اہم اتحادی بھی ہیں ۔ اس جنگ میں 36,000ہزار شہری،5,000فوجی جانوں کا نذرانہ اور43بلین ڈالرزکے معاشی نقصانات برداشت کرنے کے باوجود امریکی میڈیا میں ہماری مسلح ا فواج،خفیہ اداروں اورجوہری اثاثوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔حکومتِ پاکستان کے مثبت اقدامات کا محدود اعتراف تو کیا جاتا ہے مگر ڈومور کا تقاضا آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ جبکہ امریکی سیاسی و فوجی قیادت کا مستقبل میں بھی پاکستان میں بغیر اطلاع کے کمانڈو آپریشن کا اعادہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم نے قرآن وحدیث، بڑے بوڑھوں کی نصیحتوں اور تاریخ کی روشن مثالوں سے سبق حاصل نہیں کیا۔قارئین !سابقہ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہاتھاکہ”امریکہ کی دشمنی خطرناک ہو سکتی ہے مگر اس کی دوستی جان لیوا ثابت ہوتی ہے“کومرکوز کرتے تاریخ سے امریکی دوستی کے چندحقائق پیش کیے جا رہے ہیں۔ یادرہے کہ یہ کسی کی ذاتی رائے نہیںبلکہ تاریخ سے ثابت شدہ واقعات و حقائق ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے جن حکمرانوں کو امریکی دوستی اور حمایت پر فخر رہااور امریکہ کی خوشنودی کے لیے یہ اپنی عوام کی خواہشات کا گلا گھونٹتے رہے، امریکہ نے کبھی بھی اپنے ان دوست حکمرانوں کے دور اقتدار کے مشکل اور آخری ایام میں مدد نہیں کی،بلکہ ان کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواست تک رد کر دی گئی۔ آخر کار ایسے حکمرانوں کوامریکہ دوستی کی قیمت عوامی غیض وغضب اور بھیانک انجام کی صورت میں اداکرنا پڑی۔شاہ ایران امریکہ کا سب سے قریبی ساتھی تصور کیا جاتا تھا۔اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر ملک کو روشن خیالی کی راہ پر ڈالا۔اسلامی اقدار کو بزور طاقت ختم کیا، لیکن جیسے ہی ایران میں خمینی انقلاب کا سورج طلوع ہوا ،امریکہ شاہ ایران کو بھول گیا۔اس قریبی دوست کو سیاسی پناہ تک دینے سے انکار کردیا گیا۔ اس طرح امریکہ کا یہ اتحادی 1980ءمیں جلاوطنی کے دوران مصر میں فوت ہوا،اور دنیاکے لیے نشانِ عبرت بنا۔ چلی کا جنرل اگستوپنسوشے،فلپائین کا فرڈی ننڈمارکس، یوگوسلاویہ کا آمر میلازووچ،نکارا گوا کا باغی لیڈراناس تاسو، انگولا کا جوناس سیومبی اور پانامہ کاجنرل نوریگا کا شمار بھی ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے امریکی مفادات کی جنگ لڑی لیکن جب ان لیڈروں پر مشکل وقت آیاتو امریکہ نے انہیںیکسر بھلا دیا ۔جنرل پرویز مشرف کو سابق صدر بش نے اپنا ذاتی دوست اور ان کی آمرانہ حکومت کو بھرپور تعاون فراہم کیا۔لیکن جیسے ہی مشرف سابق صدر ہوئے تو امریکہ نے ان سے نظریں چرالیں اور یہ موقف اپنایا کہ وہ اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں،انہیں سزا دینا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔گو کہ امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ اپنے دوست ہونے کا دم بھرا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکہ دوستی کے تانے بانے ہمیشہ امریکی ترجیحات اور مفادات کے گرد گھومتے رہے ہیں۔جب امریکہ کا مطلب اور مفاد ہوا،اس نے پاکستان کو اپنی دوستی کا جھانسہ دے کر یا دھونس اور بدمعاشی سے استعمال کیا اور جب اس کا کام نکل گیا تو کسی طوطا چشم کی طرح آنکھیں پھیرلیں۔

پاک امریکہ تعلقات کا آغاز 1950ءمیں پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہوا۔ 1953ءمیں پاکستان ،امریکہ کے دفاعی معاہدوں سیٹو، سینٹو،بغداد پیکٹ کا رکن اور سرد جنگ میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف بنا۔1965ءمیں ہندوستان نے جب اپنی فوجی قوت کے زعم میں پاکستان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا تو امریکہ نے اپنے حلیف پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے اس کی فوجی امداد روک لی۔امریکہ کے لیے چین تک رسائی کی خدمات انجام دینے والے پاکستان سے امریکہ نے ایک بار پھر 1971ءکے نازک لمحات میں بے وفائی کی جب ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی۔امریکہ کا یہ طرز عمل اس کی خارجہ پالیسی کا عکاس ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”گو کہ پاکستان سے ہماری دوستی اور معاہدات ہیں مگر ہمارے مفادات کا تقاضہ ہے کہ ہم ہندوستان کو پاکستان پر ترجیح دیں۔“پاک امریکہ تعلقات کا سب سے مشکل دور اس وقت شروع ہوا جب امریکہ نے ہماری نیوکلیئر پالیسی پر کھلی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ امریکی صدر جمی کارٹر نے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔یہ تو افغانستان پر روس کا حملہ تھا جس کے خلاف افغان مجاہدین اور پاکستان کا ڈٹ جانا تھاکہ جس کی وجہ سے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی۔لیکن جیسے ہی افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے امکانات پیدا ہوئے امریکہ نے پاکستان سے اگلی ضرورت سانحہ نو گیارہ تک ایک بار پھر اپنی نظریں پھیرلیں۔لہٰذا ،ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ کی دوستی نہایت ناقابل اعتماد اور ناقابل بھروسہ ہے۔اور کام نکل جانے کے بعد اپنے دوستوں سے آنکھیں پھیر لینا امریکہ کا معمول ہے۔خود امریکی پالیسی ساز اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ ان کی حقیقی پالیسی ہے، اگر دوسرے نہیں سمجھتے تو یہ ان کی کور چشمی ہے،امریکہ کا دوغلاپن نہیں۔“دنیا کے معاملات میں اپنے عزائم کی تکمیل اورکردار کو زیادہ موثر بنانے کے لیے امریکہ کی یہ مربوط حکمت عملی ہے جس پر اب وہ گامزن ہو چکا ہے۔

پاکستان نے افغانستان پر امریکہ کی قیادت میں ہونے والی دہشتگردی کی جنگ میں فعال کردار کرتے ہوئے بھاری قیمت اداکی اور اب یہ بلانہ صرف افغانستان کے ساتھ لگنے والے قبائلی علاقوں بلکہ پاکستان کے اہم بڑے شہروں میں بھی پھیل چکی ہے۔جہاں اس نے پہلے سے دگرگوں اقتصادی حالات پر ناقابل برداشت دباؤ ڈال دیاہے۔زمانہ حال اور ماضی میں نشانِ عبرت بننے کے باوجود قصر ِسفید کی غلامی اور امریکی پالیسیاں اب بھی پاکستان میں موجودہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ کی یہ بات یقینا ہم بھول چکے ہیں کہ امریکہ کی دوستی ہمیشہ تباہی کا پیغام لاتی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے مزے لوٹنے اور مقروض قوم کے خرچ پر نیویارک کے مہنگے ہوٹلوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آیا کرتی۔

پاکستانی عوام یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے۔وہ پاکستان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اور اسے اپنا فرنٹ لائن اتحادی بھی قرار دیتا ہے،مگراس کی نوازشات اور عنایتوں کا رخ ہمارے دیرینہ دشمن ہندوستان کی طرف ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں جاری دہشتگردی کے پے در پے واقعات کو امریکہ اپنے اور ہندوستان کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ساتھ ہی ہمارے جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کا سب سے خطرناک ترین دورکا آغاز ہو چکا ہے ،اورموجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ پوری دیانتداری،حقیقت پسندی اور ملک و ملت سے وفاداری کے ساتھ امریکہ سے اپنے تعلقات کا از سرِنو جائزہ لیں۔زمینی حقائق کے مطابق حکومتِ پاکستان اپنے نظریاتی، سیاسی،معاشی اور قومی مفادات کے تحفظ اورحصول کے لیے جاندار، واضح اور دیرپا حکمت عملی وضع کرے ۔دوست نما دشمنوں کی سازشوں سے محتاط رہنے کے لیے ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ متحد و منظم ہو کراپنے اعمال کو برداشت، رواداری اور حُسن اخلاق سے مذین کریں اور ماضی کی کوتاہیوں کے ازالے کے لئے کمر بستہ ہوجائیںتاکہ ہمارا ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن کر دنیا میں اُبھرے ۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 17 Articles with 18256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.