نام رام مندر کا کام آرایس ایس کا

1924 میں آرایس ایس کی بنیاد پڑی،اس وقت آرایس ایس کے بانیوں نے اس بات کا فیصلہ کیا تھاکہ ہندوستان کو ہندوراشٹربنانے کیلئے پہل کی جائیگی اوریہ ہندوراشٹر ایسا نہیں کہ تمام کے تمام ہندو ہوجائیں ، بلکہ آرایس ایس کی یہ سوچ ہے کہ ہندوستان کے ہندوؤں کے علاوہ ہر مذہب کو ماننے والا، ماتھے پر تلک لگاکر مورتیوں کی پوجا نہ سہی بلکہ ملک میں بسنے والے ہندؤں کے عقائد کو مانیں ، ہندوؤں کی ضرورتوں کو پورا کریں اور یہاں کے دیوی دیوتاؤں کو اپنے مذہب کا ایک حصہ مانیں اورجیسا ہندو پروہت شاہی طبقہ ،دلتوں اورپسماندہ طبقات کو اپنے ماتحت رہنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اسی طرح سے دوسرے مذاہب کیلوگ بھی انکی بات کو مانیں۔ یہی سوچ اوریہی فکر کولیکر آرایس ایس کے بانیوں نے سنگ پریوار کو ایک گہری سازش کا معمہ بنایا اورآہستہ آہستہ اس معمہ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے جارہے ہیں۔ اس دوران سنگ پریوار نے جو طریقہ کار اپنی تنظیم کو پھیلانے کیلئے استعمال کیا ہے وہ یقیناً خطرناک ہے لیکن اس خطرناک سازش کو ہندوستانی مسلمانوں نے سمجھنے کو ترجیح نہیں دی۔ جب ہیگڑوار ، گوالکر ،ساورکر جیسے لوگوں نے آرایس ایس کی بنیاد رکھی تو پورے ملک نے یہ کہا تھاکہ ان دو لوگوں سے کیا ہوگا۔پھر ان دولوگوں نے محنت شروع کی اورچند ہی مہینوں میں ا?رایس ایس ایک مشہور تنظیم بن کر ابھرنے لگی۔ جب آزادی کے بعد ملک کی پالیسیوں کو بنایا جارہا تھا اسوقت اسی تین افراد کی تنظیم نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اسکے بعد انکی بنائی گئی سیاسی جماعت جنتا پارٹی سے ایک تین اشخاص نے پارلیمنٹ میں نمائند گی حاصل کی۔ اس دوران ہی اس چھوٹی سی تنظیم نے ملک کے انتظامیہ، عدلیہ، سیاست اور پریس اورمیڈیامیں اپنے لوگوں کا اسطرح سے نیٹروک کرکے چھوڑا کہ وہ لوگ ہر حال میں ایک دوسرے کے معاون اورملک کوہندوراشٹر بنانے کے تئیں پابند رہے۔ نسلیں گذرگئی لیکن نیٹ ورکنگ کا سسٹم نہیں بدلا، یہی وجہ ہیکہ آج بھارت کیمختلف مقامات میں یہ لوگ منظم طریقے سے کام کررہے ہیں۔1989 میں جب بابری مسجد کی جگہ پر رام مندربنانے کا حلف لیاگیا اوراسکے لئے بی جے پی کے تمام لیڈران متحد ہوگئے، اڈوانی کی قیادت میں ملک بھر میں ریالی نکالی گئی اورجہاں جہاں اڈوانی گئے وہاں وہاں فسادات ہوئے۔ اسطرح سے بی جے پی نے اپنا لوہا منوایا اورآرایس ایس کے اشاروں پر ملک کو نچایا جارہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے لیکن اس سازش کو مسلمان سمجھ کربھی نہ سمجھ ہونیکاناٹک کررہے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر کے تعلق سے ، رام مندرتعمیر کرنے کیلئے 1989 سے ہی تیاریاں شروع کی گئی تھی، اسی وقت سے رام مندر ٹرسٹ کے لیڈروں نے چندہ اصول کرنا شروع کردیا تھا۔ 1992میں جب بابری مسجد توڑی گئی تو اسکے بعد سے مسلسل چندہ وصولی کا دھندہ شروع ہوا۔ جب 2019میں عدالت نے رام مندربنانے کا راستہ صاف کردیا تو اس کے بعد سے چندے کے وصولی کا دھندہ تیز ہوچکا ہے، اس وقت رام مندر بنانے کیلئے ماہرین اور انجینئروں کی تجویزسے یہ بات ثابت ہوتی ہیکہ رام مندرکیلئے محض 400 کروڑروپئے درکار ہیں اورپورے حصارمیں مختلف تعمیراتی کام کیلئے 11سوکروڑ روپئے درکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پورے ہی منصوبے کیلئے 1100 کروڑ روپئے درکار ہیں تو ملک بھر میں رام مندر کی تعمیر کیلئے چندہ وصول کرنے کی ضرورت کیا ہوئی۔ رام مندر تعمیراتی کام کی کمیٹی نے کبھی اس بات کا اعلان نہیں کیا تھاکہ وہ ملک بھر میں چندہ وصول کریگی۔ لیکن پچھلے دنوں بی جے پی، ا?رایس ایس اور وی ایچ پی نے اچانک اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ ملک کے 65 کروڑ لوگوں سے رابطہ کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کیلئے چندہ وصول کریگی۔ اس کیلئے انہوں نے الگ الگ مرحلوں میں چندہ وصول کرنے کی بات کہی ہے۔ 100 روپئیسے شروعات ہوگی۔ اگر چہ اوسطاًاندازہ لگایا جائیتو 65 کروڑ لوگوں سے ایک ہزار کے حساب سے چندہ وصول کیا جائیگا تو 65ہزارکروڑروپئے محض ایک ماہ میں اکھٹا ہوجائیں گے ، تو سوچئے کہ یہ رقم ا?خر کہاں جائیگی۔ سیدھی بات ہے کہ یہ رقم سنگ پریوار اپنے لئے استعمال کریگا، اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے ، مستقبل میں حکومتیں بنانیاور حکومتیں خریدینے کیلئے اس رقم کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اقلیتوں ، پسماندہ طبقات کو دبانے کیلئے اتنی بڑی رقم کو لیا جاسکتا ہے۔ غرض کے رام کے نام پر وصول کئے جانے والے چندے کو ملک کا کام تمام کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ 65 کروڑ ہندؤں سے یہ رقم وصول کرنے کی بات کی گئی لیکن ملک کے مختلف مقامات پر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ مسلمانوں سے بھی رام مندر کی تعمیر کیلئے پیسے وصولے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ پیسے اس 65 ہزارکروڑ روپئے کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں ، پھر بھی مسلمانوں کے ذہینوں کو غلام بنایا جارہا ہے کہ تم اب ہندوؤں کو چندے بھی دوگے اورآنے والے دنوں میں ہندوؤں کے مندروں میں گنگا جمنا تہذیب کے نام پر ماتھے بھی جھکائیں گے۔ یہی ہندؤ راشٹرکا کانسیپٹ ہے۔ جسے مسلمان سمجھنے میں لاپرواہی برت رہے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں مسلمانوں کی جہاں پر رام مندر بنایا جارہا ہے وہیں پراس زمین سے متصل جگہ پر بابری مسجد بھی تعمیر ہورہی ہے۔اس کیلئے بھی کروڑو ں روپیوں کا خرچ آرہا ہے۔ خرچ نہ سہی مسلمان اپنے مستقبل کو مضبوط کرنے کیلئے اگر اپنے اپنے علاقوں میں چندہ وصول کرکے منظم طریقے سے مقامی مسائل کو حل کرنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں تویقیناً کچھ نہ کچھ راحت تو ملے گی۔ جس طرح سے سکھوں میں سنٹرالائز ڈ کمیٹی ہے اورجس طرح سے یہ لوگ متحد ہوکر کام کرتے ہیں اسی طرز پر کم ازکم 50فیصد بھی کام کرنے کیلئے مسلم دانشوران اقدامات اٹھاتے ہیں تو اس سے مسلمانوں کا فائدہ ہوگا۔ یقیناً آج مسلمانوں کے ایک طبقہ مالدار ہے اوریہ مالدار طبقہ گنگا، جمنا تہذیب کے نام پر اپنے ایمان کا سودہ کررہا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس سودے بازی میں عام مسلمانوں کا صفایہ ہوجائے، مسلمانوں کے مفکرین ودانشوروں کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ سوچئے کہ کس طرح سے 3 افراد نے مل کر ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے وہی تنظیم آج پورے ملک کو تباہی وبربادی کی طرف لے جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک میں مسلمانوں کا وجود ہی ختم ہوجائے ان حساس معاملات پر ردعمل کرنے کی ضرورت ہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.