مولانا فضل الرحمن ہمارے ملک کے جید عالم دین اور ذہین
سیاستداں ہیں،علماء کے خاندان سے تعلق ہے ،آپ کے والد محترم جناب مولانا
مفتی محمود بھی علم و دانش کا پیکر اور ایک زیرک سیاستداں تھے ،مولانا مفتی
محمود نے 1970کے عام انتخاب میں بھٹو صاحب کو شکست دی تھی۔یہ 1973میں صوبہ
سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تھے ۔لیکن ایک سال بعد ہی بھٹو صاحب نے ان کی
صوبائی حکومت ختم کردی تھی ۔1970کے عام انتخاب میں جمعیت علمائے اسلام نے
جس کے سربراہ مولانا غلام غوث ہزاروی تھے 7نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ،بھٹو
صاحب نے جے یو آئی کے سات ممبران قومی اسمبلی میں سے چار ممبران کو اپنا
ہمنوا بنالیا تھا ،بھٹو صاحب کی حمایت کرنے والوں میں مولانا غلام غوث
ہزاروی اور ان کے تین دیگر ساتھی تھے مولانا مفتی محمود اپنے دو ساتھیوں کے
ساتھ حزب اختلاف میں رہے اور قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر اور باہر حکومت
کی بھر پور مخالفت کرتے تھے ،بھٹو حکومت کے خلاف جب 1977میں تحریک چلی توآپ
پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ تھے ان ہی قیادت میں پوری تحریک چلائی گئی
اور بھٹو سے جو مذاکرات ہوئے اس میں پی این اے کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ
بھی تھے ۔اس وقت جے یو آئی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی ایک جمعیت علمائے
اسلام ہزاروی گروپ اور دوسرا دھڑا جے یو آئی مفتی محمود گروپ ہوگیا اور اسی
نام سے اخبارات میں ان دونوں جماعتوں بیانات آتے تھے ۔
مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد پوری جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل
الرحمن کو وراثت میں مل گئی جبکہ ہزاروی گروپ مولانا غلام غوث ہزاروی کی
وفات کے بعد ختم ہو گیا ۔مولانا فضل الرحمن بھی جے یو آئی کو ایک نہ رکھ
سکے اور مولانا سمیع الحق ان سے الگ ہو گئے اس طرح ایک جمیت علمائے اسلام (ف)یعنی
فضل الرحمن گروپ اور دوسرا گروپ جمعیت علمائے اسلام (س)یعنی سمیع الحق گروپ
بن گیا ۔مولانا فضل الرحمن چونکہ بہت دیر تک اپنے موقف پر قائم نہیں رہتے
کبھی لیفٹ کبھی رائٹ اور کبھی پورا یو ٹرن لے لیتے ہیں ایسی ہی کوئی بات
ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک کو اپنا راستہ ان سے
الگ کرنا پڑا ۔1988سے 1999تک دو مرتبہ بینظیئر صاحبہ اور دو مرتبہ نواز
شریف صاحب کی حکومت رہی مولانا ہر حکومت کے ساتھ رہے بہت اچھی سودے بازی کی
صلاحیت کے باعث مولانا نے اپنے قد سے زیادہ ہی مراعات حاصل کی ہیں ۔کشمیر
کمیٹی کے چیرمین تو یہ خود مستقل رہے ،اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کی
سربراہی بھی کافی عرصے تک ان کی جماعت کے پاس رہی ہے اور جو وزارتیں ان کو
ملی وہ الگ سے ہیں ۔1999میں جب پرویز مشرف صاحب برسر اقتدار آئے مولانا فضل
الرحمن ان کی حکومت کے ساتھ بھی ہو گئے اوراپنی پچھلی تمام مراعات کا تسلسل
برقرار رکھا ۔
جماعت اسلامی کے ساابق امیرجناب قاضی حسین احمد مرحوم جب جماعت کے امیر
منتخب ہوئے تو ان کی اول روز سے یہ کوشش تھی ملک کی تمام دینی جماعتیں ایک
پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائیں اس کے لئے انھوں نے دن رات ایک کردیا بالآخر
قاضی صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے اور 6دینی جماعتوں پر مشتمل اتحاد
متحدہ مجلس عمل کے نام سے وجود میں آگیا اس اتحاد میں جماعت اسلامی جمعیت
علمائے اسلام ف (فضل الرحمن گروپ)جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ)جمعیت
علمائے پاکستان جمعیت اہلحدیث فقہ جعفریہ ،جے یو پی کے مولانا شاہ احمد
نورانی متحدہ مجلس کے عمل کے صدر اور مولانا فضل الرحمن جنرل سکریٹری اور
قاضی حسین احمد نائب صدر بنائے گئے ان کے علاوہ مولانا سمیع الحق،اہلحدیث
کے ساجد میر فقہ جعفریہ کے ساجد حسین نقوی بھی نائب صدور تھے ،اس اتحاد کو
بہت جلد عوام میں پذیرائی حاصل ہو گئی پرویز مشرف سے اس اتحاد کا مطالبہ
وردی اتارنے کا تھا ،دو وہ بڑی سیاسی جماعتیں جو باری باری ملک میں حکومت
کرتی رہیں ان کی سیاست الگ تھی نواز شریف صاحب گرفتار تھے ان پر غداری کا
مقدمہ قا ئم ہونے والا تھا وہ بڑے پریشان تھے ،بے نظیر صاحبہ جو دبئی میں
جلا وطنی کی زندگی گزاررہی تھیں مشرف کے آنے کے بعد انھوں نے ایک مفاہمتی
بیان بھی دیا تھا لیکن مشرف صاحب نے انھیں بھی کوئی لفٹ نہیں کرائی ،بے
نظیر کو اس کا افسوس تھا ۔ادھر نواز شریف نے طفر علی شاہ کو دبئی میں بے
نظیر کے پاس انھیں منانے کے لئے بھیجا تاکہ میثاق جمہوریت کی منزل کے حصول
کے لئے سفر کا آغاز کیا جائے ۔
ہم موضوع سے کچھ دوسری طرف چلے گئے بات ہو رہی تھی مولانا فضل الرحمن کے یو
ٹرن کی۔جب2002کے انتخابات ہوئے اس میں ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی
63نشستیں حاصل کیں اس وقت ایم ایم کا مطالبہ تھا کہ مشرف صاحب وردی اتار
دیں مشرف صاحب نے ایک ٹائم فریم کے تحت وعدہ کیا تھا وہ وردی اتار دیں گے
متحدہ مجلس عمل نے اپنے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ اگر پرویز مشرف
نے وردی نہیں اتاری تو ایم ایم اے کے ممبران قومی اسمبلی استعفیٰ دے دیں گے
مولانانے بھی کئی بار یہ بات کہی تھی لیکن جب مشرف صاحب نے وردی وعدے کے
مطابق نہیں اتارا تو مولانا فضل الرحمن نے یو ٹرن لے لیا صرف ان کے حافظ
حسین احمد اور قاضی صاحب نے استعفے دیے مولانا فضل الرحمن نے خود استعفا
دیا اور نہ مجلس عمل کے دیگر ممبرن کو استعفا دینے دیا یہ ان کا بہت بڑا یو
ٹرن تھا آج وہ کس منہ سے ن لیگ اور پی پی پی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ
اسمبلیوں سے استعفادیں مجلس عمل کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ کے پی کے میں
جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے ممبران زیادہ ہیں جس میں جماعت کے ممبران کی
تعداد زیادہ تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ دو بڑی جماعتوں جے یو آئی اور دجماعت
اسلامی سے جس جماعت کاکے پی کے میں وزیر اعلیٰ ہو گاا تو دوسری جماعت کے
سربراہ کو قائد حزب اختلاف بنایا جائے گا اس وقت یہ خبریں گرم تھیں کہ کہ
کے پی کے میں جماعت اسلامی کا وزیر اعلیٰ بنے گا اور مولانا فضل الرحمن
قائد حزب اختلاف ہوں گے ۔لیکن یہاں پر بھی مولانا نے بہت بڑا یو ٹرن لیا
اور خاموشی سے جے یو آئی س سے مفاہمت کرکے اپنی جماعت کے اکرم درانی کو
وزیر اعلیٰ نامزد کردیا قاضی صاحب مرحوم نے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا مجلس
عمل کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے قاضی صاحب نے ہر مرحلے پر ایثار و
قربانی سے کام لیا اب جب اکرم درانی صاحب کی وزارت اعلیٰ پر جماعت بھی تیار
ہو گئی تو اصولاَایم ایم اے کے فیصلے کے مطابق قاضی حسین احمد کو قائد حزب
اختلاف بننا تھا لیکن یہاں بھی مولانا نے یو ٹرن لیا مولانا فضل الرحمن اور
حافظ حسین احمد ایک پریس کانفرنس کررہے تھے کہ ایک صحافی سے سوال کیا کہ
قائد حزب اختلاف کون ہو گا توحافظ حسین احمد نے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ
پکڑ کر اوپر اٹھایا اور کہا کہ یہ قائد حزب اختلاف ہو ں گیاس طرح کی اور
بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔2019میں جب مولانا نے لانگ مارچ کیا اسلام آباد
میں دھرنا دیا تو وہ کہتے تھے کہ ہم عمران خان سے استعفا لے کر واپس جائیں
گے لیکن خالی ہاتھ واپس آئے انھوں نے کہا کہ ہم سینٹ کے انتخابات نہیں ہونے
دیں گے وہ تو اب ہونے جارہے ہیں اور دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی
نے سینٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے یہ یو ٹرن نہیں تو اور کیا
ہے۔ |