کچھ لفظ گراں تصویر بتاں کے نام

ڈئیر ---------

تصویر ملی ،بعد از شکوہ دل افروز مٹا بھی دی گئ یقین کرو بہت کچھ لکھنا تھا مگر باعث حیرت و صدمہ سوچتا ہی رہ گیا استعجابی کیفیت میں انگلیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا حالت دل غیر ہوئ قلم کا سہارا لیا کہ قلم کی نوک ہمیشہ سچ بولتی ہے

بول کہ لب آزاد ہیں ترے
فیصلہ کیا کہ سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ بھی نہیں گو کہ سچ کڑوا ہوتا ہے شائد تم سے ذرا کم اور مجھ سے جُدا

سمجھ میں نہیں آتا شروع کہاں سے کروں عارض و رخسار دلکش و حسیں ، لب شیریں یا گیسوئے دراز ، ا بروئے کماں نین نازنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سب ہیں شاعر کا خواب مگر شائد ایسا کچھ بھی نہیں

شروع کرتا ہوں تمھارے سر سے یقین کرو ایسا لگا کہ با لوں میں گویا بم پھٹا ہو شُکر ہے شب دیجور سے لمبی زلفیں ،ناگن جیسی ہرگز نہیں بلاوجہ کسی کو ڈس لیتیں تو تمھارے اوپر اقدام قتل کا پرچہ کٹ جانا تھا ویسے بھی آج کل سانپ کے کاٹے کی ویکسین پاکستان میں نایاب ہے کوئ کتنا ہی لمبی زُلفوں کو خوبصورتی کا معیار قرار دے تم نے صرف حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لمبی زلفیں ،جوؤں کے میٹرینٹی ہوم کے سوا کچھ بھی نہیں

متوالے نیناں کے ایک دوسرے سے نا ملنے پر چنداں پریشاں ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان کے آپس میں ملنے سے زیادہ کسی دوسرے کے ساتھ ملنا زیادہ خوش آئند ہے بھینگی آنکھوں کی افادیت کوئ بھینگا ہی جان سکتا ہے
کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ
اور چشمہ لگا کر کسی کو کیا پتہ چلتا ہے ،کیا ہوا جو یہ کالی جھیل سے نہیں خوامخواہ کسی نے ڈوب ہی جانا تھا اب ہر کسی کو تو سوئمنگ آتی بھی نہیں

پنکھڑی گویا گلاب کی سی ہے
یہ شاعر بھی نا بالکل پاگل ہی ہوتے ہیں عشق تو کرتے ہیں شادی نہیں کرتے اگر شادی کرلیتے تو پنکھڑیوں کے درمیاں نکوستے دانتوں ا ور کوئ ڈیڑھ میل سے طویل زباں کو دیکھ کر یہ ادراک بھی کرتے کہ ہر گلاب کے پھول کی جڑ کانٹوں سے ہی پُر ہوتی ہے اور ان کا رنگ چاہے کتنا ہی گلابی کیوں نہ ہو آپ کی طبیعت کو ہرا ہی کرتی ہیں

رہے عارض و رخسار تو ڈینٹینگ پینٹینگ کون نہیں کراتا پُرانی گاڑی بھی ایسے لشکارا مارتی ہے کہ بندہ دل پکڑ کر بیٹھ جائے

اس سے زیادہ دیکھنے کی تاب اس دلِ ناتواں میں کہاں تھی
 

Saleem Ishrat Hashmi
About the Author: Saleem Ishrat Hashmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.