تحریر: نبیلہ شہزاد
آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب کے
دورے پر آیا۔ وہ لوگ وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا، سعودی عرب کی صورت حال کا جائزہ
لینے کے دوران انہیں لگا کہ یہ جو سعودی عرب میں جرائم کی شرعی سزائیں سر
عام دی جاتیں ہیں۔ یہ سرا سر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف
ہیں، امریکا میں تو ایسی سزاؤں کا تصور بھی نہیں۔
وفد کی ملاقات اس وقت کے شاہ سعودی عرب، شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے
دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاؤں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ
نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔ یہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جب صحافی
اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل کچھ دیر خاموش رہے۔ صحافی سمجھا کہ اس نے
شاہ کو لاجواب کر دیا ہے۔ شاہ فیصل بولے۔ کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو ساتھ
لے کر آئے ہیں؟ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلایا۔
شاہ فیصل نے کہا۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے
جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی
خریداری کریں۔ زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ پھر وہ زیورات
پہن کر سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان
زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہ پائے گا۔ اس کے بعد آپ کی
امریکا واپسی ہوگی۔ کیا وہ زیورات پہنے آپ اور آپ کی خواتین بلا خوف وخطر
امریکا کے بازاروں میں گھوم پھر سکیں گے ؟
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ سوال پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا
ہونقوں کی طرح منہ تکنے لگے۔ شاہ فیصل نے دوبار ہ پوچھا تو چند صحافیوں نے
کہا۔ بلا خوف وخطر بازاروں میں گھومنا تو درکنار ہم قیمتی زیورات پہن کر
ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔ شاہ فیصل نے جواب دیا، سعودی عرب
میں اتنی سخت سزاؤں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے، آپ نے اپنے سوال
کا جواب خود ہی دے دیا۔ یہ تو تھا شاہ فیصل کے سعودی عرب میں امن و امان کا
راز۔۔۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف،پاکستان کے معرض وجود سے لے کر اب تک جس لیڈر کے
دور میں سب سے کم جرائم رہے وہ جنرل ضیاء الحق کا دور ہے اور اس کی بڑی وجہ
تھی سر عام سزائیں دینا۔ جب باغبانپورہ لاہور کی ایک چھوٹی بچی کو اغوا
،زیادتی اور پھر قتل کیا گیا تو کچھ ہی دنوں میں مجرموں کو تلاش کر کے
سرعام پھانسی دی گئی پھر کئی سال گزرنے کے بعد بھی اس علاقے میں کسی کو
ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ میانوالی میں ایک قاتل کو اسٹیڈیم
میں تقریباً 30 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دی گئی تو لوگ دوسروں کی جان
لینے سے پہلے بھی سو بار سوچنے لگے۔
آج پاکستان میں ہر طرف عجیب انارکی پھیل چکی ہے۔ جگہ جگہ چوریاں، ڈاکے،
فراڈ بازیاں، ملاوٹیں، دو نمبریاں۔۔۔ یہ سب چیزیں بے سکونی خوف واضطراب تو
پیدا کرتیں ہیں لیکن ایک چیز جو ان سب سے بڑھ کر ہے جسے نہ غیرت برداشت
کرتی ہے اور نہ ضمیر برداشت کرنے کی اجازت دیتا ہے وہ ہے معصوم بچوں اور
خواتین کی عصمت دری۔۔۔۔ پھر اکثر کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔
جب ملک کے کئی اطراف سے ایسے دلسوز واقعات کی خبریں آ رہی ہیں۔ ہر درد مند
دل دکھی ہے۔ تو ایسے میں ہمیں ریاست مدینہ کے خواب دیکھانے والی کابینہ میں
سے ہی، وزارت قانون کا قلمدان سنبھالنے والا نااہل وزیر بڑے دھڑلے سے بیان
دیتا ہے کہ مجرم کو سر عام پھانسی دینا انسانیت کی خلاف ورزی ہے۔
اس شخص کی عیار و بیمار عقل اﷲ تعالیٰ کے حکم سے بڑھ کر ہے کیا؟ جس نے ایسے
مجرموں کے لیے سزائیں بھی نافذ کیں اور ساتھ ایمان والے ہونے کے لیے یہ شرط
بھی رکھ دی کہ اگر تم اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو سزا دیتے وقت
وہاں مومنین کی ایک جماعت ضرور موجود ہونی چاہیے۔ (سورہ نور آیت 2)
یعنی اﷲ تعالیٰ نے لازم کر دیا ہے کہ مجرموں کو سزا سر عام دی جائے تاکہ
دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ پاکستان اسلام کی تعمیل کے لیے حاصل کردہ
ملک ہے لیکن یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں نہ مال محفوظ ہے نہ عزتیں نہ
جانیں۔
اور اس کی سب سے بڑی وجہ شرعی سزاؤں کا نافذ نہ ہونا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کے
حکم کے مطابق چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، شرابی کو کوڑے مارے جائیں گے،
زانی کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی، پاک دامن پر تہمت لگانے والوں کی
سخت سرزنش کی جائے گی، عصمت دری کرنے والوں کو سرِ عام لٹکایا جائے گا، تو
انشاﷲ ایسے جرائم دور دور تک نظر نہیں آئیں گے۔ ملک میں شرعی سزاؤں کے نفاذ
کے لیے ہم سب کو مل کر ایک تحریک چلانی ہو گی۔ کیونکہ ان کے نفاذ میں ہی
انسانیت کی بقاء ہے۔ سب سے بڑھ کر میرے رب نے ان احکامات کے لیے زور دے کر
فرمایا۔’’اور ہم نے اسے فرض کر دیا۔‘‘(سورۃ النور)
جب ایسے مجرم کو سر عام سزا دینا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے تو گنجائش کس
بات کی۔۔۔
|