سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان سخاوت

اللہ رب العزت نے جس ہستی کو اپنے محبو ب کا سب سے قریبی رفیق اور یار غار بنانا تھا اسے تمام اوصاف حسنہ کا جامع بنایا۔اللہ رب العزت نےسیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوجہاں دیگر اوصاف میں نمایاں مقام عطا فرمایا وہاں وصف سخاوت میں بھی اعلیٰ وارفع مرتبے سے نوازا۔سیدنا ابو بکر صدیق ؓنے اسلام کے دامن سے وابستہ ہوتے ساتھ ہی اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنا شروع کردیا۔آپ ؓایک مال دار تاجرتھے۔جس وقت آپ ؓنے اسلام قبول کیا اس وقت آپ ؓکے پاس چالیس ہزار درہم تھے جبکہ ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار درہم باقی رہ گئے۔پانچ ہزار درہم کےعلاوہ باقی سارے پیسے آپ ؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں صرف کردیے۔

آپ ؓنے اسلام قبول کرنے کے بعد سات ایسے غلاموں کوخرید کوآزاد کیاجنھیں صرف ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ان غلاموں میں حضرت بلال حبشی ؓبھی شامل تھے۔آپ ؓنے حضرت بلال حبشی ؓکو ایک بھاری رقم پانچ اوقیہ(تقریبا 32 تولہ) سونےکےبدلے میں خریدا۔جب آپ ؓنے حضرت بلال حبشی ؓ کو اتنی بھاری رقم کے بدلے خرید کر آزاد کیا تو کفار آپ ؓ کی اس سخاوت پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ شایہ آپ ؓ پر حضرت بلال حبشی ؓ کا پہلے کوئی احسان ہے جس کا بدلہ آپ ؓنےانھیں آزاد کرکےچکا یا ہے۔جب کفار نے یہ اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نےآپ کے اخلاص کی گواہی میں قرآن کی آیات نازل فرمادیں۔ارشاد فرمایا:
‘‘اورجو سب سے بڑا متقی ہے وہ اس (جہنم)سے دور رکھا جائے گا۔جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اتارتا ہوبلکہ وہ تواپنے بلند رب کی رضا کے حصول کے لیےدیتا ہے اور عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔’’(الیل :17 تا 21)

ان آیات سے واضح ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کارب کی راہ میں مال خرچ کرنا اورجود سخا کا مظاہرہ کرنارب کو کتنا پسند ہے۔ آپ کی للٰہیت اور خلوص پر اعتراض کفار نے کیا اور آپ کی طرف سے جواب خود رب کریم نے دیا اور واضح فرما دیا کہ آپ ؓپر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا آپ ؓ نے بدلہ اتارا ہو بلکہ یہ ساری سخاوت تو آپ ؓحصول رضائے الٰہی کے لیے کرتے ہیں۔اس ہستی کی عظمت و مقام کا اندازہ کون لگا سکتا ہے کہ خالق کائنات جس کے اخلاص کی گواہی بھی دےاور اس کی طرف سے کفار کوجواب بھی دے۔
جب غزوۂ تبوک کےموقع پر نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام کو راہ خدا میں مال پیش کرنے کاحکم دیا تو تمام صحابہ نے حسب توفیق اسلامی لشکر کی مالی معاونت کی۔اس موقع سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے جس طرح سے سخاوت وفیاضی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔آئیے سخاوت صدیقی کا واقعہ حضرت عمر فاروق ؓ کی زبانی سنتے ہیں۔حضرت عمر فاروق ؓسے مروی ہےکہ ایک دن نبی اکرم ﷺنے صدقہ دینے کا حکم دیا۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس کافی مال تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہاکہ اگر میں ابوبکر صدیق سےکبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج کا دن ہی وہ دن ہے جس میں میں سبقت لے جاسکتا ہوں۔ حضرت عمرفاروق ؓ کہتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرخدمت ہوا۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : ‘‘اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟’’ میں نے عرض کی :‘‘جتنا لے آیا ہوں اتنا ہی ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔’’اتنے میں یار غار رسول حضرت ابوبکرصدیق ؓجو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرخدمت ہوئے۔آپﷺنے فرمایا۔ ‘‘اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟’’انہوں نے عرض کیا :‘‘میں ان کے لیے اﷲاوراُس کا رسول ﷺچھوڑ آیا ہوں۔’’حضرت عمر ؓکہتے ہیں میں نے اس دن خود سے کہاکہ میں ابوبکر صدیق ؓسےکسی معاملے میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔( ترمذی ، حدیث : 3675)

دنیا میں بڑے بڑے سخی گزرے ہیں لیکن تاریخ عالم میں حضرت ابو بکر صدیق جیسا سخی نہیں ملے گا جس نے اپنےمحبوب کے ایک حکم پر اپنامتاع کل محبوب کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔جب زندگی کا مقصدومنشا ہی محبوب کی رضا ہو تو پھر محب صادق اپنا تن من دھن سب کچھ اپنےمحبوب پر قربان کرنا اپنی بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی سمجھتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓکے بارے میں اسی لیے کہا تھا:
پروانے کو چراغ ہے اور بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کارسول بس

آپ ؓ نے اپنے مال سے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکی اتنی خدمت کی کہ خود پیغمبر اسلام ﷺنےآپ کےمال کواپنے لیے سب سے زیادہ منفعت بخش قراد دیا اورارشاد فرمایا : ‘‘ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا ابوبکر ؓ کے مال نے دیاہے۔(ترمذی : 3661)اس حدیث میں نبی اکرمﷺ نے صدیق اکبر ؓکے مال کو اپنے لیے سب سے زیادہ منفعت بخش قراردے کرصدیق اکبر کی بے مثل سخاوت اور فیاضی پر مہراستناد لگادی۔

ایک موقع پر نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ‘‘تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے، مال کا بھی اور رفاقت کا بھی۔’’ (بخاري :3454) بھلا اس سے بڑا سخی کون ہوسکتا ہےجس کا نبی اکرم ﷺپر سب سے زیادہ مالی احسان ہے ۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓکے لیے یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ ان کے مال میں رسول اللہ ﷺاپنے مال کی طرح تصرف فرمایا کرتے تھے۔الریاض النضرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺحضرت ابو بکر ؓکے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں فرماتے تھے۔ ( الرياض النضره:ج2،ص17)

سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی سخاوت اور مالی قربانیاں رب کریم کی بارگاہ میں کتنی مقبول اور پسندیدہ ہیں اس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ رب کریم خود آپ ؓکے نام سلام بھیجتا ہے اور استفسار فرماتاہے کہ آپ ؓرب سے راضی ہیں یا نہیں۔حضرت عبد اﷲبن عمر ؓسے مروی ہے کہ ایک دن حضور ﷺکی بارگاہ میں ابوبکر صدیق ؓ ٹاٹ کا لباس پہنے ہوئے بیٹھے تھے ۔ اتنے میں جبرئیل امین ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے:‘‘اےاللہ کے رسول ﷺ!ابوبکر نے ایسا لباس کیوں پہنا ہواہوا ہے؟’’ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : ‘‘اے جبرئیل ؑ!اس نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔’’ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ‘‘اﷲ رب العزت آپﷺ پرسلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتاہےکہ ابوبکر سے کہیں کہ کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟’’اس پر نبی اکرم ﷺنے حضرت ابوبکر ؓسےفرمایا :‘‘اے ابوبکر!اﷲ رب العزت تم پر سلام بھیجتا ہے اور تم سے پوچھتا ہےکہ کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہویا ناراض؟’’حضرت ابوبکر ؓیہ سن کر عرض گزار ہوئے:‘‘بھلامیں اپنے رب کریم سےکیسے ناراض ہوسکتا ہوں؟ میں تو اپنے رب سے ہر حال میں راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔’’ ( الرياض النضره: ج2،ص20)

الغرض اپنے مال سے اسلام ،پیغمبر اسلامﷺاور مسلمانوں کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والی ہستی اور امت مسلمہ میں سب سے بڑھ کر جودوسخا کامظاہرہ کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق ؓہی ہیں ۔


 

Allama Hafiz Mohsin Qadri
About the Author: Allama Hafiz Mohsin Qadri Read More Articles by Allama Hafiz Mohsin Qadri: 7 Articles with 10424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.