کیا الیکشن 2011ﺀ کے فیصلے ہوچکے ہیں؟

امام جلال الدین ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک یہودی ایک عیسائی اورایک مسلمان ہم سفر ہوئے سفر ایک مجبوری ہے اور اس میں ہم مزاج ہونا ضروری نہیں ہے جب سفریا قیدختم ہوجاتی ہے تو مسافر اور پرندے اپنے ہم نشینوں کے پاس چلے جاتے ہیں مگر سفر اور قید کی حد تک ایسے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو آپ کی طبیعت پر بارہوں مسلمان روزہ دار تھا جبکہ یہودی اور عیسائی پہلے سے پیٹ بھرے بیٹھے تھے راستے میں ان تینوں کو کسی نے ثواب اور مسافروں کی مہمان نوازی کی خاطر کھانا ،حلوہ،روٹیاں اور ثرید دیا تاکہ مسافر اس سے اپنی بھوک کا سامان کرلیں یہودی اور عیسائی نے کہا کہ یہ کھانا رکھ لیتے ہیں اور کل کھا لیں گے مسلمان چونکہ روزہ سے تھا اس لیے اس نے کہا کہ آج ہی یہ کھانا کھا لیتے ہیں اور کل مل گیا تو کھالیں گے ورنہ صبر کرلیں گے لیکن یہودی اور عیسائی نہ مانے مسلمان اکیلا تھا وہ دونو ں ایک طرف تھے اس لیے مجبوراً ان سے اتفاق کیا صبح کو تینوں اٹھے ہاتھ منہ دھویا عبادت سے فارغ ہوئے تو تینوں سے سوچا کہ اب کھانا تناول کرلیں تینوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی ایک ایک بات کرے جس کی بات عمدہ ہوگی وہ یہ کھانا کھا لے اور باقی دونوں صبر کرلیں یہودی نے اپنے خواب کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ حضرت موسیٰ ؑ کی معیت میں کوہ طور پر گیا کیا کیا نظارے دیکھے اس نے اپنی اور موسیٰ ؑ کی ملاقات اور کوہ طور کا قصہ تفصیل کے ساتھ بیان کردیا اس کے بعد عیسائی نے اپنا قصہ بیان کیا کہ وہ چوتھے آسمان پر تھا عیسیٰ ؑ کی زیارت کی وہاں فرشتوں اور حوروں اور جنت کے نظارے کیے مسلمان کی باری آئی تو اس نے کہا کہ میں نے رات کو اپنی بزرگ شخصیت کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمایا کہ تو یہودی اور عیسائی کے انتظار میں بھوکا بیٹھا ہے ان میں ایک کوہ طور پر موسیؑ کے ساتھ اور دوسرا چوتھے آسمان پر عیسی ؑ کے ساتھ ہے تو ان کا انتظار نہ کر اور یہ حلوہ اور کھانا تناول کر لے مسلمان نے کہا کہ میں یہ حکم کیسے ٹال سکتا تھا اگر آپ کو موسیٰ ؑ اور عیسٰیؑ ایسا حکم دیتے تو آپ بھی نہ ٹالتے لہٰذا میں نے وہ تمام کھانا اور حلوہ کھا لیا ۔۔۔

قارئین 26جون 2011ءالیکشن کی تاریخ مقرر ہوئے چند دن گزر چکے ہیں لیکن ایک عجیب وغریب بات ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ ز اور مشاورتی اجلاس ایک تسلسل کے ساتھ ہوتو رہے ہیں لیکن تعمیروتخریب کے عمل سے بننے اور بگڑنے کی تکلیف کا شکار پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس ابھی تک اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کرنے سے قاصر ہے اور اسی وجہ سے دوطرح کے تاثر عوام الناس میں شک کی جڑیں مضبوط کررہے ہیں ۔

1۔کچھ مقتدر قوتیں الیکشن 2011ءکے نتائج کا فیصلہ کرچکی ہیں اور اُن فیصلوں اور خیالوں کو زمینی حقیقت کی شکل دینے کیلئے یہ تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان فیصلوں کو آسانی کے ساتھ عملی شکل دینے کیلئے مخمصے کی یہ صورت حال جان بوجھ کرپیدا کی جارہی ہے ۔

2۔اور دوسرا نظریہ یا تاثریہ ہے کہ حقیقی طور پر نت نئی شخصیات اور پرانے کھلاڑیوں کا نئی سیاسی صف بندیوں میں شامل ہونے کی وجہ سے عملی طور پر ایک بوکھلاہٹ کی کیفیت تینوں سیاسی جماعتوں پر طاری ہے اور کسی بھی ایک درست فیصلے پر پہنچنے سے قاصر ہیں اگر یہ دوسرا نظریہ درست ہے تو ہمیں اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ الیکشن 2011ءمیں واضع طور پر طاقت ورترین جماعت کی حیثیت اختیار کرنے کے باوجود پاکستا ن پیپلزپارٹی کو بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ 41حلقوں میں براہ راست حق رائے دہی سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی بننے کے متمنی جیالے کئی حلقوں میں آپس میں دست وگریباں ہوسکتے ہیں اور اس کی واضع مثال حلقہ ایل اے ون ڈڈیال میں سامنے آنے والی صورت حال ہے جہاں افسر شاہد ایڈووکیٹ ،مسعود خالد ایڈووکیٹ اور شفیق رٹوی ایڈووکیٹ کے درمیان کھلم کھلا سامنے آنے والے اختلافات ہیں ۔

قارئین اگر پہلے نظریہ کو درست سمجھ لیاجائے تو یہ ایک بدقسمتی اور بدنصیبی کا مقام ہوگا کہ کشمیری قوم کے فیصلے بیلٹ کی بجائے چند پالیسی میکر ز بیٹھ کر کریں گے اور یہ فیصلے ممکنہ طورآئندہ پانچ سالوں میں کشمیری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے اور اندرونی باخبر حلقے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آزادی کشمیر کے حوالے سے آنے والی حکومت کلیدی کردار اداکرے گی اور بین الاقوامی بادشاہ گر بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کی جڑ ”مسئلہ کشمیر “کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے فیصلہ صادر کرچکے ہیں اور اب صر ف ضابطے کی ایک کاروائی ہونا باقی ہے ۔۔۔
بقول اقبالؒ اب ہمارے ایک ہی سبق ہے

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جوانمرد
جاتاہے جدھر بندہ حق توبھی ادھر جا!
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بنگاہ قلندرسے گزر جا!
میں کشتی وملاح کا محتاج نہ ہونگا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اُتر جا !
توڑا نہیں جادو میری تکبیر نے تیر ا؟
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرات تو مکر جا !

کشمیری قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ ایک ربڑ سٹمپ ہے کہ جسے جو چاہے جہاں چاہے لگا کر مستقبل کے فیصلے اور ان کی آرزوﺅں کا تعین ان کی مرضی کے برعکس کرتا رہے یا وہ رائے رکھنے والے ایسے باشعورلوگ ہیں جو دنیا کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قومی فیصلے کرنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔

قارئین یہ سب باتیں اپنی جگہ جذباتی حقیقت ضرور رکھتی ہیں لیکن کشمیر ی قوم کے مستقبل کے فیصلوں کا تعلق براہ راست تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کے ساتھ جڑا ہے اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے فیصلے ضمیر سے تعلق رکھتے ہیں یا کسی اور بات سے ۔

آخر میں حسب روایت ایک لطیفہ پیش خدمت ہے
دوآدمی ایک باغ میں ایک عجیب کھیل کھیل رہے تھے ایک آدمی ایک جگہ گڑھا کھودتا اور دوسرا گڑھا کھودنے کیلئے آگے جاتا تو دوسرا آدمی آگے بڑھ کر پہلے گڑھے کو مٹی ڈال کر بند کردیتا ۔۔

کسی نے حیران ہوکر پوچھا کہ بھائی یہ کیا کررہے ہو ؟

اس پر جوا ب ملا

دراصل یہ کھیل تین آدمیوں کاہے ایک گڑھا کھودتا ہے ،دوسرا بیج ڈالتا ہے اور تیسرا مٹی سے گڑھے کو پر کردیتا ہے آج دوسرا آدمی چھٹی پر ہے ہم دو ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔

قارئین آپ خود باشعورہیں خود ہی فیصلہ کردیں کہ الیکشن 2011ءکی شجرکاری کی اس مہم میں ڈیوٹی دینے والے تین لوگوں میں سے چھٹی پر کون ہے ۔۔۔؟
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339029 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More