کسی مخالف اوردشمن سے جان چھڑانے کیلئے عقلمندوں کاایک
جگہ یاکسی ایک پلیٹ فارم پرجمع ومتحدہونایہ کوئی نئی بات نہیں۔۔کہاجاتاہے
کہ گزرے زمانے میں ایک بلی نے جب بے چارے چوہوں کاجینادوبھرکیاتواس سے جان
چھڑانے کے لئے شہربھرکے سارے عقلمندچوہے بھی ایک جگہ جمع ہوگئے۔چوہوں کی اس
اے پی سی کاون پوائنٹ ایجنڈایہ تھاکہ بلی اچانک چوہوں پرحملہ آورہوجاتی ہے
اس کاتدارک اورراستہ کیسے روکاجائے۔۔؟مختلف سیانے اورعقلمندچوہوں نے اس
سلسلے میں جومشورے دیئے وہ تکنیکی بنیادوں پرمستردکردیئے گئے۔۔آخرکارایک
نوجوان چوہے نے تجویزپیش کی کہ بلی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دی جائے
کیونکہ گھنٹی باندھنے کے بعدبلی پھرجونہی چلنے پھرنے کی کوئی کوشش یاحرکت
کرے گی توگھنٹی کی آوازسے فوراًچوہے خبردارہوجایاکریں گے اوریوں بلی چوہوں
کوکوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گی۔۔اے پی سی میں شریک سارے عقلمندچوہوں نے
نوجوان چوہے کی اس تجویزکانہ صرف خیرمقدم کیابلکہ اس پربھرپورتالیاں بھی
بجائیں۔بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی یہ تجویزمناسب بھی تھی۔۔اچھی بھی
۔۔قابل قبول ۔۔اورسب کوپسندبھی۔۔لیکن مسئلہ پھریہ درپیش آیاکہ بلی کے گلے
میں یہ گھنٹی باندھے گاکون۔۔؟شہرہویاگاؤں۔۔قصبے ہوں یادیہات۔۔وہ عقلمندچوہے
آج بھی صرف اورصرف اس وجہ سے جگہ جگہ مارے پھررہے ہیں کہ بلی کے گلے میں
گھنٹی باندھنے والاان کے آباؤاجداد کاوہ دیرینہ مسئلہ آج تک حل نہیں
ہوسکا۔۔ہم آج جب چوہوں کی یہ کہانی پڑھتے ہیں یابے چارے چوہوں کوبلی کے گلے
میں گھنٹی باندھنے کے لئے مارے مارے پھرتے دیکھتے ہیں توہمیں فوراًحکومت
وعمران خان مخالف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے عقلمندسیاسی چوہے نظرآنے
لگتے ہیں۔۔بلی کیخلاف ہونے والی اس پہلی تاریخی اے پی سی میں جس طرح سارے
عقلمندچوہے ون پوائنٹ ایجنڈے کولیکربلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے پرمتفق
ہوگئے تھے اسی طرح آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل یہ سارے عقلمندبھی
اس بات اورایجنڈے پرمتحدومتفق ہیں کہ وزیراعظم کے گلے میں اقتدارسے رخصتی
کی گھنٹی باندھ کراس سے جان چھڑادی جائے مگرمسئلہ وہی چوہوں والایہاں بھی
درپیش ہے کہ عمران خان کے گلے میں رخصتی والایہ ہار ڈالے کون۔۔؟مسلم لیگ
ن۔۔پیپلزپارٹی۔۔جے یوآئی۔۔اے این پی اور قومی وطن پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں
شامل تمام جماعتوں اورپارٹیوں کااس بات پرنہ صرف مکمل اتحادبلکہ اتفاق بھی
ہے کہ عمران خان سے جان چھڑادی جائے بلکہ ہرایک جماعت اورلیڈر کی یہ خواہش
بھی ہے کہ کل نہیں آج ہی اس حکومت کاکام تمام کردیاجائے تاکہ ہمیں مزیدکوئی
نقصان نہ ہو۔۔ مگراب مسئلہ وہی ہے کہ یہ کام کرے کون۔۔؟پی ڈی ایم کی پہلی
اے پی سی کے بعدسے ہی وزیراعظم عمران خان کی رخصتی کے لئے ہارتوان سب
عقلمندوں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ہیں لیکن خان کی رخصتی کے خواب
کوشرمندہ تعبیرکرنے کے لئے یہ سارے عقلمنداورغیرت مندآج بھی ایک دوسرے کی
طرف دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ والوں کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی والے کچھ کرلیں۔
۔پیپلزپارٹی والے چاہتے ہیں کہ مولاناکاکوئی جلال اورکمال کام
آئے۔۔مولاناکی تمناہے کہ سب ہاتھ میں گھنٹیاں لیکر ،،حکومت،،کے گلے تک
جائیں مطلب گھنٹی باندھنے کیلئے یہاں بھی ہرکوئی دوسرے کی طرف دیکھ
رہاہے۔۔گھنٹی باندھنے یابجانے کایہ رسک اکیلے میں اپنے سرپر لینے کیلئے
کوئی تیارنہیں۔بلی کے گلے میں گھنٹی باندھناعقل مندچوہوں کیلئے جس طرح
ناممکن تھااسی طرح پی ڈی ایم یاموجودہ اپوزیشن کیلئے وزیراعظم عمران خان
اوران کی حکومت سے جان چھڑانابھی اتناہی مشکل بلکہ مشکل ترہے۔۔تجویزنوجوان
اورعقل مندچوہے نے بھی مناسب اوراچھی دی تھی۔۔تجاویز۔۔پلان۔۔منصوبے
اورمشورے پی ڈی ایم کے عقل مندوں نے بھی مناسب اوراچھے دیئے ہیں۔۔لیکن اب
سوال یہ ہے کہ حکومت کوچلتاکرنے کے لئے ان تجاویز۔۔پلان۔۔منصوبوں اورمشوروں
پرعملدرآمدکب ۔۔کیسے اورکون کرے ۔۔؟تحریک عدم اعتماد۔۔اجتماعی استعفے
اورلانگ مارچ جوحکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن یاپی ڈی ایم کے پاس اس وقت تین
بڑے آپشنزہیں۔۔ان تینوں آپشنزپراتفاق سب کوہے اوریہ سمجھتے بھی ہیں کہ ان
تینوں آپشنزمیں سے ہرایک آپشن ان کے لئے حکومت کے خلاف بلی کے گلے میں
گھنٹی باندھنے جیسی اہمیت اورطاقت رکھتی ہے۔۔لیکن ان آپشنزیاآپریشنزکی
سوفیصدکامیابی کامسلم لیگ ن۔۔پیپلزپارٹی اوراے این پی سے لیکرمولانافضل
الرحمن تک کسی کویقین نہیں۔۔بلکہ پی ڈی ایم میں شامل ہرایک فرد کولگتاہے کہ
عین موقع اوروقت پراگریہ گھنٹی حکومت کے گلے میں باندھنے کی بجائے
خدانخواستہ ہاتھ سے سلپ کرگئی توپھرکیاہوگا۔۔؟یہی وہ خوف اورڈرہے جس کی وجہ
سے عقل مندچوہوں کی طرح بے چارے پی ڈی ایم والے بھی پچھلے کئی مہینوں سے
ہاتھوں میں گھنٹیاں لئے مارے مارے پھررہے ہیں۔۔اجتماعی استعفے۔۔لانگ مارچ
اوراب تحریک عدم اعتمادکے ڈرامے۔۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یوٹرن پریوٹرن
اورہرروز نت نئے ڈراموں کودیکھ کرلگتاہے کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتیں
اورلیڈرنمالوگ حکومت سے جان چھڑانے میں سنجیدہ نہیں یاپھران میں حکومتی
گھوڑے کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی واقعی اہلیت وطاقت نہیں ۔۔ورنہ چارکے
ہندسے پرقائم حکومت کوچلتاکرناکیامشکل ہے۔۔ ؟عمرانی حکومت کوگھربھیجناپی ڈی
ایم کیلئے واقعی آسان نہیں ۔۔جولوگ سال پہلے سینیٹ انتخابات میں اپنی عددی
اکثریت کواقلیت میں تبدیل کرنے سے نہیں روک سکے تھے وہ اب حکومت کوچارسے
لاچاراورشکست سے دوچارکیسے کرسکتے ہیں۔۔؟ماناکہ پی ڈی ایم کی اگلی صفوں میں
مولاناجیسے کئی بڑے بڑے قدآورسیاسی پہلوان۔۔آصف علی زرداری جیسے جوڑتوڑکے
ماہرکئی استاد۔۔شریفوں جیسے کئی تجربہ کارسیاستدان اوربے شمارعقل مندکھڑے
ہیں لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ سینیٹ کے سابقہ انتخابی نتائج
کوسامنے رکھتے ہوئے کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتاکہ تحریک عدم
اعتمادیااجتماعی استعفوں کے معاملے میں ان کی یہ پہلوانیاں۔۔استادیاں
یاتجربے اورعقلیں کچھ زیادہ کامیاب ہونگی۔۔ہمیں معلوم ہے کہ سیاست کے سینے
میں کوئی دل اورسیاستدانوں کاکوئی قبلہ نہیں ہوتالیکن حالات وواقعات بتارہے
ہیں کہ ان تلوں میں وہ تیل نہیں جس کی خوشبوسونگھ کرحکومت آرام وسکون سے
اقتدارکوبائے بائے کہہ دے۔۔شائدنہیں بلکہ یقینناًیہی وہ بنیادی وجوہات میں
سے ایک اہم وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل
اکثربڑی جماعتوں اورپارٹیوں کے لیڈرحکومت کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے سے
مسلسل گریزیاراہ فراراختیارکررہی ہیں ۔۔سچ تویہ ہے کہ ان سب کوآج بھی اپنے
بازوؤں پراعتمادویقین اوربھروسہ نہیں۔۔ان کواگرذرہ بھی کوئی یقین ہوتاتویہ
کب کے تحریک عدم اعتماداوراستعفے حکومت کے منہ پرمارآتے۔۔ خواہش اوردلی
تمناتومولاناسے لیکرنوازاورزرداری تک سب کی یہ ہے کہ کل نہیں آج ہی اس
حکومتی نامی جنجال اورمصیبت سے ان کی جان چھوٹ جائے مگرجان چھوٹے
کیسے۔۔؟یاچھڑائے کون۔۔؟اس کے بارے میں ان سب میں سے کسی کوکوئی علم اورکوئی
پتہ نہیں۔۔اس لئے پی ڈی ایم میں شامل ہرلیڈرالگ بولی بولتاجارہاہے ۔۔ایسی
بات اگرنہ ہوتی توان سب کی آوازآج ایک ہوتی۔۔اندرسے یہ سارے حکومت کے خلاف
واقعی ایک ہیں۔۔عمران خان سے نجات بارے ان کی خواہشیں۔۔آرزواورارمان بھی
تقریباًملتے جلتے ہیں۔۔لیکن باہر۔۔باہروالامعاملہ ان سب کامختلف بہت ہی
مختلف ہے۔۔اسی وجہ سے تویہ گیارہ جماعتی اتحاداوربھرپورسیاسی طاقت کے
باوجودیہ گھنٹیاں ہاتھوں میں اٹھائے کئی مہینوں سے اس ملک کی گلیوں
اورمحلوں میں یہ پوچھتے پھررہے ہیں کہ ،،حکومت کے گلے ،،میں گھنٹی باندھے
کون۔۔۔۔؟
|