وہ تو مجرم تھا

کراچی میں رینجرز کے ”جوانوں“ نے فوج، پولیس اور ایف سی کی ”شاندار روایات“ کو مزید جلا بخشتے ہوئے ایک نہتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے نوجوان سرفراز کو ساری دنیا اور ٹی وی کیمرے کے سامنے جس طرح اپنی وحشت، بربریت اور خون آشامی کی بھینٹ چڑھایا اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ ہم جنہیں کافر کہتے ہیں اور جن کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں خصوصاً ہماری فوج، اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ، وہاں بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، درندگی کا اس سے بڑا مظاہرہ اور کیا ہوگا کہ ایک نہتا نوجوان جو ان خونی درندوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، جو خالی ہاتھ تھا اسے گولیوں سے بھون دیا گیا اور جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور ہسپتال لیجانے کی فریاد کررہا تھا، اس وقت بھی اس کی ایک نہ سنی گئی اور ہسپتال لیجانے کی درخواست کو بھی اس وقت شرف قبولیت بخشا گیا جب اس کی سانسیں ختم ہوچکی تھیں اور وہ خون میں لت پت، آنکھوں میں التجاء لئے اس دنیا سے کوچ کر گیا، اپنے اللہ کے پاس پہنچ گیا جہاں کسی کی فریاد رائیگاں نہیں جاتی، جہاں ایسے ہی، اتنی ہی جلدی انصاف ہوتا ہے جس طرح رینجرز کے بے غیرتوں اور درندوں نے ظلم کیا۔

بعد از مرگ مقتول پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پارک میں موجود کچھ خواتین کو نقلی پستول کی مدد سے لوٹنے کی کوشش کی تھی، اگر ایک منٹ کے لئے اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو کیا اس کا انجام یہی ہونا چاہئے تھا؟یہ پولیس، عدالتیں اور سارا ریاستی نظام کس لئے قائم کیا گیا ہے، اگر رینجرز، ایف سی، پولیس یا فوج نے ہی انصاف کرنا ہے اور ایسا ہی انصاف کرنا ہے تو جسٹس افتخار چودھری سمیت تمام عدلیہ کو خود ہی گھر بیٹھ جانا چاہئے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک جو دہشت گردی کے ہر واقعہ کو طالبان کے کھاتے میں ڈالنے میں مشہور ہیں اور جن کے متعلق پاکستان کے اکثر لوگ اب جانتے ہیں کہ وہ کہاں کے ہیں اور ان کی ذات کیا ہے، ان کا فرمان ہے کہ مقتول جرائم پیشہ تھا، اب اگر کسی میں ہمت ہو اور وہ جان کی امان پائے تو ان سے پوچھے کہ جناب اگر آپ کے بیان کو سچ مان بھی لیا جائے تو کیا سرفراز کو اس لئے ساری دنیا کے سامنے درندگی اور وحشت ناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ وہ آپ اور آپ کی قماش کے دوسرے سیاستدانوں کی طرح بڑا مجرم نہیں تھا، اس کے ساتھ یہ سلوک اس لئے کیا گیا کہ وہ ایک چھوٹا سا جرم کرنے کی کوشش کررہا تھا، اسکی والدہ کو اس لئے اس کے لخت جگر سے محروم کردیا گیا کہ وہ ایف آئی اے جیسے ادارے میں گھپلے نہیں کرسکتا تھا، اس کے باپ کو ساری عمر کے لئے بلکتا اس لئے چھوڑ دیا گیا کہ سرفراز اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی طرح بڑی بڑی کاروائیاں نہیں ڈال سکتا تھا، اس کے بھائیوں کے دلوں میں اس ملک اور یہاں کی اشرافیہ کے متعلق زہر اس لئے بھر دیا گیا کہ وہ کسی مخدوم کی طرح اپنے اکاﺅنٹ میں کروڑوں روپے جمع نہیں کرسکتا تھا،اس کو اس لئے ظالمانہ طریقے سے مار دیا گیا کیونکہ وہ اس ملک کے جرنیلوں کی طرح نہ تو پاکستان کو لوٹ کھسوٹ سکا اور نہ ہی اپنے سر پر شراب کی بوتل رکھ کر اس کا جشن منا سکا، اس کو اس لئے تڑپا کر جہان فانی سے رخصت کیا گیا کہ وہ اس ملک کے ارکان پارلیمنٹ (چند ایک کو چھوڑ کر)کی طرح بے غیرت اور بے حمیت نہیں تھا، اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی طرح بڑا لٹیرا اور ڈاکو نہیں تھا، اور سب سے بڑھ کر اس نے ایک ایسا جرم کیا تھا کہ اس کو معافی مل ہی نہیں سکتی تھی کہ وہ ایک عام گھر کا فرد تھا، ایک عام پاکستانی تھا....!

سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو تین دن میں ہٹانے کا حکم جاری کیا ہے جس کے خلاف سندھ حکومت نے اپیل میں جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت بھی شائد رینجرز سے خوفزدہ ہے خصوصاً لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ تو زیادہ ہی خوفزدہ ہیں، اگر وہ سپریم کورٹ کا حکم مان لیتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا اور شائد مقتول کے لواحقین اور عوام میں بھی ان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا ہوجاتا۔ عوام اب یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ کیسی حکومت، کیسی فوج، کیسی رینجرز اور کیسی ایجنسیاں ہیں جو ملک کے دشمنوں کو تو کسی بات سے روک نہیں سکتیں، امریکی جب چاہیں ہماری خودمختاری کی دھجیاں بکھیر دیں، را، سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ جب چاہیں جی ایچ کیو اور بحریہ پر حملہ آور ہوجائیں اور ہماری فوج اور دوسرے ادارے منہ دیکھتے رہ جائیں، دوسری طرف یہ ادارے بار بار اپنے لوگوں اور نہتے لوگوں پر خونی بلاﺅں اور عفریتوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں، کبھی ایف سی کے ”بہادر جوان“ کوئٹہ میں نہتے غیر ملکیوں کو بھون ڈالتے ہیں اور کبھی رینجرز کے ”شیر جوان“ کراچی میں سرعام ایک عام نوجوان کو مار ڈالتے ہیں۔ کیا یہ فوج، ایف سی اور رینجرز ہمارے ملک کی ہیں؟ اگر وہ ہمارے ہی ملک کے ادارے ہیں تو کیا پوری قوم مجرموں پر مشتمل ہے؟سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ایک مہینے میں کیس کا فیصلہ سنانے کا بھی پابند کیا ہے، اب ہوگا کیا، کیس چلے گا، پولیس روائتی ہتھکنڈے استعمال کرے گی، کیس میں کم سے کم جان ڈالی جائے گی، مقتول کے لواحقین کو پریشان کیا جائے گا، دھمکیاں دی جائیں گی، اگر دھونس اور دھمکیوں سے بات بن گئی تب بھی ٹھیک اور اگر لواحقین ڈٹے رہے تو ریمنڈ ڈیوس کیس کی طرح اس بار بھی خون بہا دے دیا جائے گا، اگر غریبوں کو ایک جانب ان کے بدترین انجام سے ڈرایا جائے، بچوں تک کو مارنے کی دھمکیاں دیں جائیں اور دوسری طرف بڑی رقم رکھ دی جائے تو سب جانتے ہیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر ایک نہتے انسان کو اتنی بے دردی سے قتل کیا جاسکتا ہے تو اس کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے عدالت کا سہارا کیوں؟ جب میڈیا نے سارا بھانڈا بیچ بازار پھوڑ دیا ہے تو اب کاہے کی تفتیش اور کاہے کا ٹرائل، ان مجرموں کو بھی عین اسی جگہ، اسی طریقے سے گولیوں سے بھوننا ہی عین انصاف ہے۔

اگر سرفراز ایک مجرم تھا اور اس کی سزا یہی ملنی چاہئے تھی تو مجھے کہنے دیجئے کہ اس ملک کی اشرافیہ کو اس سے بھی کڑی سزا ملنی چاہئے، ان فوجی جرنیلوں، ان سیاستدانوں، ان بیوروکریسی کے کرتا دھرتاﺅں کو مزار قائد، مینار پاکستان، پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر، کوئٹہ اور پشاور میں بھی ایسی ہی سزائیں ملنا چاہئیں، بلکہ ان کے لئے تو گولی بھی ضائع نہیں ہونی چاہئے، ان کو تو جوتوں سے مار مار کر ہی مار دینا چاہئے۔ اسی طرح کی سزا کا مستحق پاکستان کا کم و بیش ہر فرد ہے کہ جس نے بے حسی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے، جو اپنی جان ، اپنے مال اور اپنے بچوں کی وجہ سے خاموش ہے، جس نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا رکھے ہیں اور جو نہ تو اللہ سے ڈرتا ہے نہ اس کے عذاب سے۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207438 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.