صوفی غلام مصطفے تبسم برصغیر پاک وہند کے ایسے
ممتاز شاعر ، ادیب اور استاد ہیں جن کا نام ہر اس بچے کے ذہن میں ہمیشہ کے
لیے محفوظ ہے جو اپنی ابتدائی عمر میں سکول پڑھنے گیا ۔جب ہم بھی سکول کے
ٹاٹوں پر درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اس وقت ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر
پکائی ، خالہ اس کی لکڑی لائی والی نظم اس لیے ہمیں بے حد پسند تھی کہ کھیر
ہماری پسندیدہ ڈش تھی جو غربت کی وجہ سے سال میں ایک یا دو بار ہی کھانے کو
ہمیں ملا کرتی تھی ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر صوفی غلام مصطفے
تبسم کا نام نہ بھی لیاجائے تب بھی ہر چھوٹے بڑے کا ذہن صوفی تبسم تک ہی
پہنچے گا۔ بہرکیف صوفی تبسم 4اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے ۔والد کا
نام صوفی غلام رسول تھا ۔پیشے کے اعتبار سے وہ شال بافی تھے ۔صوفی تبسم نے
ابتدائی تعلیم چرچ مشن ہائی سکول امرتسر سے حاصل کی ۔مارچ 1911ء میں
پرائمری جماعت کے امتحان میں ضلع بھر میں اول آئے ۔1917ء میں میٹرک کا
امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیااور خالصہ کالج امرتسر سے ایف اے کرنے کے بعد
ایف سی کالج لاہور میں داخل ہوگئے ۔بی اے آنر کے بعد ایم اے فارسی کے
امتحان میں کامیاب رہے ۔1929ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا
امتحان پاس کرکے تعلیمی سلسلہ مکمل کیا۔بعد ازاں آپ کا تقررگورنمنٹ ہائی
سکول امرتسر میں بطور انگلش ٹیچر ہوا ۔کچھ عرصے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج
لاہور میں السنہ شرقیہ کے لیکچرار بن کر لاہور تشریف لے آئے ۔ستمبر 1931ء
میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج لاہورمیں ہوگیا ۔1937ء میں جب ریڈیو اسٹیشن
کا قیام عمل میں آیا تو صوفی صاحب اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ ریڈیو
سے بھی منسلک رہے ۔وہاں متعدد فیچر ،ڈرامے، تقاریر،مکالمے غرضیکہ نظم و نثر
میں بہت کچھ لکھا۔فارسی، انگریزی ،اردو اور پنجابی زبانوں میں طبع آزمائی
کی ۔ریڈیو پرمشاعرے کی داغ بیل بھی صوفی صاحب نے ہی ڈالی۔1943ء میں صدر
شعبہ فارسی ہوگئے ۔آپ نے کالج میگزین "راوی" کے لیے اردو اور پنجابی میں
متعدد مضامین ، ڈرامے اور نظمیں بھی لکھیں۔اٹھائیس سال ملازمت کے بعد آپ
3اگست 1950ء کو ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ خانہ فرہنگ
ایران سے منسلک ہوگئے اور 1961ء تک فارسی کی تدریس کا سلسلہ جاری
رکھا۔1962ء میں ہفت روزہ "لیل و نہار"کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔اس دوران "حرف و
سخن "کے نام سے باقاعدہ کالم بھی لکھتے رہے۔اس کے علاوہ بیشمار تحقیقی و
تنقیدی مضامین اور بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور نظمیں مختلف رسائل و
جرائد میں شائع ہوتی رہیں۔ 14جولائی 1964ء کو آپ نے ریڈیو پاکستان میں
بحیثیت سٹاف آرٹسٹ پیش کش قبول کرلی اور30 جون 1966ء تک اس عہدے پر فائز
رہے۔اس کے بعد بطورسکرپٹ رائٹر 30جون 1970ء تک فرائض انجام دیتے رہے ۔آپ نے
بطورخاص بچوں اور بڑوں کے لیے بیشمار فیچر ،ڈرامے ، کہانیاں اور
تقاریرلکھیں ۔صوفی غلام مصطفے تبسم کی سب سے بڑی خدمت 1965ء کی پاک بھارت
جنگ کے دوران پنجابی زبان میں جنگی ترانے لکھنے کی صورت میں سامنے آئی جسے
ملکہ ترنم نورجہاں کی مدھر آواز نے چار چاند لگا دیئے ۔اس کے باوجودکہ
1965ء کی پاک بھارت جنگ کو ختم ہوئے 55سال گزرے چکے ہیں لیکن آج بھی بچے
بچے کی زبان پر صوفی صاحب کے لکھے ہوئے جنگی ترانے ہیں جن کے بول تھے
۔"میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں "، "میرا ماہی چھیل چھبیلا ہے نی
کرنیل نی جرنیل نی"اور "اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے، کی لبھ دی پھریں بزارکڑے
"۔ ۔ریڈیو پاکستان سے 1970ء میں فراغت کے بعد آپ دو سال تک پنجاب یونیورسٹی
کے ماتحت ادارے اورینٹل کالج لاہورمیں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔کچھ
عرصہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کے رسالے "سکھی گھر " کے اعزازی چیف ایڈیٹر
بھی رہے۔1975ء میں پاکستان آرٹس کونسل لاہور کے پریذیڈیٹ بنا دیئے گئے اور
زندگی کے آخری سانس تک اس عہدے پر فائز رہے۔اقبال اکیڈمی پاکستان کے وائس
پریذیڈیٹ کے عہدے پرآپ کا تقرر 1976ء میں ہوا اور اپنی رحلت تک اس عہدے پر
فائز رہے ۔علامہ محمد اقبال ؒ کے حوالے سے ان کی تین کتابیں "انتخاب کلام
اقبال ، نقش اقبال،اور سراپردہ افلاک " بھی اقبال اکیڈمی میں قیام کے دوران
ہی اشاعت پذیر ہوئیں ۔صوفی صاحب کی مشہور ادبی شاہکار نظم "ٹوٹ بٹوٹ "تھی
جو تقریبا سکول جانے والے ہر بچے کے ذہن میں نقش ہے اور عمر بھرذہن سے محو
نہیں ہوتی ۔صوفی غلام مصطفے تبسم 7فروری 1978ء کو لاہور میں انتقال کرگئے
جنہیں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔آپ کے قابل ذکرشاگردوں میں اشفاق
احمد،ن م راشد، بانوقدسیہ ،ڈاکٹر آفتاب احمد ، جگن ناتھ آزاد اور کنہیالال
کپور وغیرہ شامل تھے۔
|