مس کالیں اور دھمالیں

image
 
ہر گُزرتا دن کم مائیگی اور بے یقینی میں اضافہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ تمام استعارے، تشبیہات اور مماثلتیں بے معنی، تمام دلیلیں رائیگاں اور تمام شبیہیں ایک سی محسوس ہوتی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ منزل گُم اور راستے بے اماں، تعبیریں بے خواب اور نشان بے نشان ہو رہے ہیں۔

صاحب کردار، کردار سے ماورا، صاحب اخلاق، اخلاق سے بے پروا، صاحب علم تعلیم سے نا آشنا۔۔۔ قانون ضابطے سے، ضابطے تنظیم سے، قاعدے کتابوں سے بے بہرہ ہو رہے ہیں۔

جس کا جو کام ہے وہی اُس کا تابع نہیں۔ پارلیمان قانون سازی سے، عدالت تشریح سے، انتظامیہ کارکردگی سے تغافل برت رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاست سے کوسوں دور اور غیر سیاسی کردار سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

قصور کس کا ہے؟ نظام کا جو ناکام ہو رہا ہے؟ عوام کا جو کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں؟ سیاستدانوں کا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اعتبار کھو رہے ہیں یا ریاست کا کہ جو غبار اور دھول کے پیچھے کھڑی ہے اور منتظر ہے کہ اُڑتی دھول میں سب چہرے میلے ہو جائیں، نہ جانتے ہوئے کہ جب سب دھندلا جائے گا تو اُن کا چہرہ بھی شفاف کہاں نظر آئے گا۔

مُردہ معاشرے کی دلیل ہے کہ انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں بے توقیر ہو جاتی ہیں۔ بگاڑ یہاں تک ہو چکا ہے کہ قانون کے پاسبان ہی قانون پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔

کبھی تصور نہیں تھا کہ عدلیہ بحالی تحریک کی ایک علامت اطہر من اللہ کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ وکیلوں کے غیر قانونی چیمبر گرانے کا غصہ چیف جسٹس پر کیسے نکالا گیا؟ یہ کالی واردات کالے ہاتھوں نے کیوں کی؟ قانون تاحال حرکت میں کیوں نہ آیا؟

منصف کے اعلیٰ عہدے پر بیٹھی انتہائی معتبر شخصیت کو بے توقیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ کیا کسی ریاست میں کوئی ایسا تصور موجود ہے کہ قاضی کے وقار کو ٹھیس پہنچائی جائے اور قانون حرکت میں نہ آئے؟

ایک جانب عدلیہ پر حملہ تو دوسری جانب پارلیمانی نظام کو چیلنج کیا جا چکا ہے۔ پارلیمان کی موجودگی میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی آرڈیننس ایک سوالیہ نشان ہے۔

آرڈیننس کے اجرا سے سینیٹ انتخابات کو مشکوک اور اداروں کو متنازع بنانے کی کوششش صاف نظر آرہی ہے تاہم حکومت اس معاملے میں اس قدر سنجیدگی سے غیر سنجیدہ ہے کہ حیرت کے لیے بھی مقام حیرت۔

حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں بظاہر ’شفافیت‘ کے نام پر جو غیر شفاف طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اپوزیشن آنے والے دنوں میں مزید خدشوں کا اظہار کر رہی ہے۔ قضیہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ چکا ہے۔ اُمید ہے عدلیہ مقننہ کے اختیارات اپنے ہاتھ نہیں لے گی ورنہ سیاسی جمہوری تاریخ اسے ایک اور ’نظریہ ضرورت‘ قرار دے سکتی ہے۔

آئے دن یہ وضاحت دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اپوزیشن سے کوئی ’بیک چینل رابطہ‘ موجود نہیں، ادارے کا کسی ’مس کال‘ سے کوئی تعلق نہیں، اب کوئی یہ تو بتائے کہ یہ کیوں بتانے کی ضرورت پیش آئے کہ ہم نہیں ہیں جناب۔۔۔

اس سارے ماحول میں اگر کوئی بے غم ہے تو وہ جس کے ہاتھ انتظام تھمایا گیا ہے۔ حال ہی میں مولانا فضل الرحمن نے اس صورت حال کی وضاحت یوں کی کہ حکومت نظر آتی ہے نہ وہ جن کے ہاتھ حکومت ہے۔

مگر اب سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کس طرف جائیں گے؟

پہلی بار سب تبصرہ نگار اور تجزیہ کار خالی الذہن دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن 26 مارچ کے لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔ صحافتی تنظیمیں، سرکاری ملازمین، لیبر یونینیں اپنے اپنے الگ لانگ مارچ ترتیب دے رہی ہیں مگر سب کا رُخ اسلام آباد کے جانب ہو گا۔

متحدہ اپوزیشن جماعتیں فیض آباد پر پہلا دھرنا، دوسرا زیرو پوائنٹ اور تیسرا ڈی چوک پر دینے کی تجویز پر غور کر رہی ہیں۔

ذرا سوچیے کہ دھرنوں یا لانگ مارچ کا موضوع کیا ہو گا، نعرے کیا لگیں گے، تقریریں کیا ہوں گی؟

فیض آباد سے کچھ فیض نہ بھی ملا تو بھی کوئی بات چیت تو ہو گی، کسی کو تو بات کرنا پڑے گی۔۔۔ معاملہ مس کالوں سے ٹرنک کالوں اور ہلکی پھلکی موسیقی سے دھمالوں تک جا سکتا ہے۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
عاصمہ شیرازی
About the Author: عاصمہ شیرازی Read More Articles by عاصمہ شیرازی: 20 Articles with 38210 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.