انڈین کسان آندولن اور پاکستانی سینیٹ
(Wusat Ullah Khan, Karachi)
|
|
انڈین کسان آندولن اور پاکستانی سینیٹ کے مجوزہ انتخابات میں کیا قدرِ
مشترک ہے ۔یہ جاننے سے پہلے دوطرفہ نفسیات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مودی حکومت زرعی شعبے میں نجی سرمایہ کاری بڑھانا چاہتی ہے اور زرعی اشیا
کو کھلی منڈی کے طلب و رسد کے اصول پر خوبخود ریگولیٹ ہونے کی آزادی دینا
چاہتی ہے۔
اس بابت جو تین قوانین نافذ کیے گئے ہیں ان کے بارے میں حکومت کہتی ہے کہ
اب کسان اپنی مرضی سے حکومت اور نجی خریداروں سمیت جسے چاہیں اپنی پیداوار
فروخت کر کے خوشحال ہو جائیں گے۔
مگر کسان چونکہ سرکار جتنے ’عقل مند‘ نہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان
قوانین کا مقصد صحت مند اصلاحات سے زیادہ زراعت کو نجی کارپوریٹ سیکٹر اور
کارٹیل کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔
کسان خوشحال تو خیر کیا ہوں گے ان کی موجودہ حالت بھی ساہوکار کے رحم و کرم
پر ہو جائے گی اور سرمایہ دار اس محتاجی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا جیسے
بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں مکھیا، بنیا اور زمیندار اٹھاتا تھا یعنی کسان
جدید جاگیرداری نظام کے غلام بنا دیے جائیں گے۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر گڑبڑ تب شروع ہوتی ہے جب حکومت کسانوں کی سنے بغیر
پہلے قوانین مسلط کر دے اور پھر بضد ہو جائے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم
تمہیں ان قوانین کے تحت خوشحال بنا کر ہی دم لیں گے، تم نادان پینڈو ہو
اپنا اچھا برا نہیں سمجھتے، ریاست تمہاری مائی باپ ہے، وہ تمہارے لیے کیسے
برا سوچ سکتی ہے۔
اگر یہ کسان میری نسل کے سعادت مند بچے ہوتے تو مائی باپ انھیں مار پیٹ کر
کب کا سیدھا کر دیتے مگر یہ نئی نسل کے منہ پھٹ بچے ہیں جو مار پیٹ کے
بجائے دلیل اور مباحثے سے قائل ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ مزید بدظن ہو جاتے ہیں اگر والدین کے دائیں ہاتھ میں دودھ کا پیالا اور
بائیں ہاتھ میں ڈنڈا ہو۔ ان بچوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سے کیوں کہا
جا رہا ہے کہ اگر دودھ نہ پیا تو تشریف لال کر دی جائے گی، بچہ فوراً سوچتا
ہے کہ دودھ میں کہیں نیند کی دوا تو نہیں ملا دی گئی؟
چونکہ ہمارے جیسے سماجوں میں ریاست بالخصوص بنا مطلب کے کبھی جنتا پر
مہربان نہیں ہوتی۔ اس لئے جب ریاست کسی خاص معاملے میں ماں سے زیادہ چاہت
دکھاتی ہے تو پھاپا کٹنی کہلاتی ہے۔ اسی لئے اس طرح کے فلمی جملے کروڑوں
لوگوں کو یاد رہ جاتے ہیں کہ ’تھپڑ سے نہیں پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب۔‘
اور اسی لیے اس طرح کے شعر بھی مقبول ہوتے ہیں:
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ( عبید اللہ علیم )
جتنی فکر مودی حکومت کو کسانوں کا مستقبل روشن کرنے کی ہے، لگ بھگ اتنی ہی
فکر عمران حکومت کو سینیٹ کی ووٹنگ شفاف کرنے کی ہے۔
اصولی طور پر کسان کی خوشحالی کی طرح جمہوری شفافیت کا بھی کوئی مخالف نہیں
مگر بات تب بگڑتی ہے جب معیشت و خارجہ پالیسی سمیت دیگر کلیدی معاملات کو
سلٹانے میں اتنی عجلت نظر نہیں آتی جتنی پھرتیاں سینیٹ کا قبلہ درست کرنے
کے لیے دکھائی جاتی ہیں اور وہ بھی پولنگ سے چند روز پہلے۔
اس سرکاری بھاگ دوڑ کے نتیجے میں فرقہ ِشکیہ کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ
ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ سرکار ایک جانب تو سینیٹ میں کھلی ووٹنگ کا
آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں لے آئی۔ حالانکہ حکومت اچھے سے جانتی ہے
کہ اس وقت حزبِ اختلاف سے اس کے تعلقات جس پاتال میں ہیں اس کے ہوتے آئینی
ترمیم کے لئے مطلوبہ دو تہائی اکثریت کا انتظام تقریباً ناممکن ہے۔
ساتھ ہی ساتھ سرکار نے اس معاملے پر رولنگ مانگنے کے لیے سپریم کورٹ کا
دروازہ بھی کھٹکھٹا دیا۔ بے صبری کی انتہا یہ کہ عدالتی رائے کا انتظار کئے
بغیر راتوں رات ایک صدارتی آرڈیننس کے زریعے کھلی ووٹنگ کا ہدف حاصل کرنے
کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گویا ایک شفاف اصلاحی عمل کو عمران حکومت نے اپنی مثالی ’فہم و فراست‘ سے
جلیبی کی طرح سیدھا کر دیا۔ تو کیا واقعی حکومت سینیٹ کو انتخابی منڈی بننے
سے روکنا چاہتی ہے؟
اس کا جواب بھی حکومتی وزرا نے خود ہی دے دیا کہ ہم دراصل قوم کو یہ دکھانا
چاہتے ہیں کہ کون سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا حامی ہے
اور کون اس روایت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ گویا اس مشق کا مطلب اصلاح سے
زیادہ مدِ مقابل کو ذلیل و رسوا کرنا ہے۔
مورل آف دی سٹوری: جس طرح مودی سرکار زراعت کو نجی شعبے کے لئے کھول کر
کسان کو بالجبر خوشحال بنانا چاہ رہی ہے اسی طرح عمران حکومت حزبِ اختلاف
کی ناک انتخابی عمل کے شیشے پر رگڑوا کر اسے چمکانا چاہ رہی ہے۔
پشتو کی ضرب المثل ہے ’نرمی سے تم مجھے جہنم میں دھکیل سکتے ہو مگر زبردستی
جنت میں بھی نہیں لے جا سکتے۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |
|