یوم یکجہتی پاکستان منانے کی اشد ضرورت

یوم یکجہتی کشمیر قومی تعطیل ہے جو پاکستان میں سالانہ 5 فروری کو منائی جاتی ہے۔ اس کا انعقاد بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی ہندوستان سے علیحدگی کی کوششوں اور تنازعہ میں شہید ہونے والے کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پاکستان کی حمایت اور اتحاد کے طور پر منایا جاتا ہے۔

یوم یکجہتی پہلی بار جماعت اسلامی پاکستان کے قاضی حسین احمد نے 1990 میں تجویز کیا تھا۔ 1991 میں، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے '' یوم یکجہتی کشمیر ہڑتال کے طور پرمنایا '' موجودہ 'یوم یکجہتی کشمیر' کی باقاعدگی سے منانے کی شروعات پاکستانی وزارت برائے امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات نے 2004 میں کی تھی۔ درج بالا سطور میں اس دن کو منانے کا مقصد بیان کردیا گیا۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یوم یکجہتی کشمیر کے موضوع کے حوالہ سے ہر مکاتب فکر، سیاسی، سماجی مذہبی اور سیاسی پارٹیوں نے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا، کہیں پر جلوس نکالے گئے تو کہیں پر ہاتھوں کی زنجیریں بنا کر پاکستانیوں نے اپنے کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ جو اس دن کے حوالہ سے انتہائی مثبت پہلوہے، مگر دوسری طرف جہاں پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی میں مصروف نظر آئے وہی پر پاکستان کی اعلی سیاسی قیادت کے یو م کشمیر کے حوالہ سے منعقدہ تقریبات سے خطابات سن کر دل انتہائی دکھی بھی ہوا۔پاکستان کی اعلی حکومتی و سیاسی قیادت کے درج ذیل بیانات سن کر سر چکرانے لگ پڑا کہ ہم بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی وادی میں محصور اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کیساتھ تو کھل کر اظہار یکجہتی کررہے ہیں مگر کیا پاکستانیوں کے اپنے درمیان بھی یکجہتی نام کی کوئی چیز موجود بھی ہے یا نہیں۔یوم یکجہتی کشمیر کے حوالہ سے چند نمایاں منعقدہ تقریبات میں دئے گئے بیانات ملاحظہ فرمائیں:۔

وزیراعظم پاکستان کا کوٹلی آزاد کشمیر میں خطاب:
پی ڈی ایم جہاں چاہے لانگ مارچ کرے، ہم مدد کریں گے لیکن اپوزیشن اگر اُلٹا بھی لٹک جائے NRO نہیں ملے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ بڑے ڈاکو ملک سے باہر چلے جائیں اور چھوٹے جیلوں میں رہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ ہر قسم کی سوچ اور نظریے کے ساتھ بات کرنے کے لئے تیار ہیں تاہم بڑے بڑے ڈاکوؤں کو این آر او نہیں دیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقتور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ قانون ہو، اگر ان چوروں نے لانگ مارچ کرنا ہے تو کریں میں انکی مدد کروں گا۔

وزیر داخلہ کا راولپنڈی میں خطاب:
ہمیں یوٹرن کا طعنہ دینے والے خود about turn کے عادی ہوچکے ہیں، مولانا فضل الرحمان اب کبھی راولپنڈی کا نام نہیں لیں گے، 26 مارچ کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اپوزیشن نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو وہ حشر کریں گے کہ تاریخ یاد رکھے گی، تحریک لبیک والے بھی 17 فروری کو دانشمندی کا مظاہرہ کریں، آصف علی زردای PDM کے گرو ہیں، جنہوں نے پی ڈی ایم کی آر میں اپنی ضمانت کنفرم کرالی اور اب اپنا کیس کراچی منتقل کروانے کے چکر میں ہیں، کراچی منتقل ہونے کے بعد اس کیس میں کوئی گواہ پیش ہی نہیں ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت رخصت ہونے والی ہے یہ محض نالائق اپوزیشن، کم عقل لیڈروں، ذہنی پستی کے حامل سیاستدانوں اور لیڈرشپ سے عاری PDM کی خام خیالی ہے۔اگر مریم نواز کو بھی باہر جانے کی اجازت دی جائے تو پی ڈی ایم ختم ہوجائے گی۔

پی ڈی ایم لیڈران (فضل الرحمان، مریم نواز، بلاول بھٹو) کا مظفرآبا د آزاد کشمیر میں خطاب:
جب بھی کشمیر کا نام آئے گا عمران خان مجرم کے طور پر کھڑے ہونگے۔مودی اور عمران ایک پیج پر، نااہل حکمرانوں کو کشمیریوں کے فیصلے کا حق نہیں۔کسی کٹھ پتلی کو کشمیریوں کی آزادی کا سودا کرنے نہیں دیں گے۔آزاد کشمیر انتخابات سے پہلے عمران حکومت نہیں رہے گی۔کشمیریوں کو پاکستان سے الگ کرنیکی کوشش کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عمران خان آج کس منہ سے کشمیریوں کے پاس آئیں گے، جب بھی سقوط کشمیر کا ذکر ہوگا عمران خان کٹہرے میں کھڑا نظر آئے گا۔ عمران خان کشمیریوں کو کیا بتاؤ گے؟ کہ کشمیر کا سودا کرکے آیا ہوں۔ آزاد کشمیر پولیس کو تاکید کی گئی کہ مخالف سیاسی جماعت کا کوئی بندہ کوٹلی جلسہ میں نہ آنے پائے۔کیونکہ جعلی وزیراعظم کو ڈر ہے کہ کوئی اسکا گریبان نہ پکڑ لے۔کشمیری بھی آج یک زبان ہوکر کر کہ رہے ہیں کہ گو عمران گو۔سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان مودی کو جواب نہیں دے سکتا۔ہمارے وزیراعظم کلبوشن یادیو کے وکیل بننے کی کوشش کررہے ہیں۔نااہل، نالائق اور سلیکٹڈ حکومت کو ہم پر مسلط کیا گیا۔26 مارچ کو مہنگائی مارچ ہوگا۔مودی کو ہرانا ہے تو جمہوریت قائم کرنا ہوگی۔عمران خان نے کہا تھا کہ مودی الیکشن جیت کر مسئلہ کشمیر حل کرے،نااہل اور ناجائز حکومت کو کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔پاکستان میں عوام کی نمائندہ حکومت کے ہوتے مودی کو مقبوضہ کشمیرکو بھارت کا صوبہ بنانے کی جرات نہ ہوسکی۔

یوم یکجہتی کشمیر کے نام پر منعقدہ تقریبات میں درج بالا بیانات دے کر ہم اپنے ازلی دشمن انڈیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یہ بیانات دے کر مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کیساتھ کس قسم کی یکجہتی کی گئی ہے؟

پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کے ساتھ ساتھ ”یوم یکجہتی پاکستان“ منانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کاش کوئی دن ایسا بھی آئے کہ پاکستان کی تمام قیادت اک سٹیج پر بیٹھ کرملکی مسائل کے حل کے لئے مل جل کر کام کرنے کا عہد کریں۔کیونکہ اتفاق میں برکت ہے۔

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115802 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.