تحریر : راؤ عمر فاروق
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جیسے انسان کی زندگی و موت کا وقت مقرر ہے اسی طرح
انسان کے رزق کا وقت و جگہ اور ذریعہ معاش و مصریات زندگی بھی طے شدہ ہیں
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ رب العزت کی طرف سے اس گئے گزرے دور کے
اندربھی اپنے دین متین کی محبت کے لئے شب و روز لگانے کی توفیق عطاء فرمائی
جاتی ہے، جن کا اوڑھنا بچھونا دینی مشاغل ہوں جن کو قرآن پاک کی تلاوت، ذکر
و اذکار پر بھی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں رب کائنات کی طرف سے اجر دیا
جاتا ہو، مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ دین کا کام قابلیت نہیں بلکہ قبولیت کی
بنیاد پر کیا جاتا ہے یہ کام انسان اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی
عطاء سے ہی کر پاتا ہے یہ وہ کام ہے جس کے لئے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ
وسلم میں سے بھی ایسے لوگوں کو چنا جاتا ہے جیسے دیگر امتوں میں سے امت
محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا گیا ہے یہ وہ کام ہے جسے کیا نہیں جاتا
بلکہ اللہ رب العزت کی طرف سے کروایا جاتا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان خود
نہیں لگتا بلکہ لگایا جاتا ہے، اسی خوش نصیب جماعت کا حصہ اللہ رب العزت کی
طرف سے ہمیں بھی بننے کا شرف حاصل ہوا جس میں یقینا میرا کوئی کمال نہیں
بلکہ یہ ایک خاص عنایت عظمی ہے جو رب کریم کی طرف سے عطاء کی گئی ہے۔
کیونکہ درس نظامی سے فراغت کے بعد میں نے ایم فل صرف اس غرض سے کیا کہ کسی
سکول و کالج میں جا کر اپنا کردار ادا کیا جائے اور اس بے حیائی و پر فتن
دور میں اس قوم و نسل کے بچوں کی دنیا کے ساتھ دین کو بھی سنوارا جائے۔
اگرچہ یہ تنزلی کا سیلاب میری اس ننھی سی کاوش سے رک تو نا پائے گا ہاں
اتنا ضرور ہے انشاءاللہ اس سیلاب کی روانی میں کمی ضرور پیدا ہو گی اور کل
قیامت کے دن شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے منہ دکھانے کی شائد یہ
سبیل کارگر ثابت ہو، کیونکہ بندہ کا شروع سے یہ نظریہ رہا ہے کہ دورحاضرہ
میں امت کے مستقبل کی حفاظت سکول و کالج کے راستے سے ایک منظم طریقے سے کی
جا سکتی ہے جس کے لئے علماء کو اس میدان میں اتر کراپنا کردار ادا کرنے کی
ضرورت ہے، لیکن ایک میری تدبیر تھی ایک تدبیر اللہ تعالی فرما رہے تھے میں
نےکبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اللہ رب العزت اس ناکارہ و گناہوں سے مارے سے اس
قدر بڑا کام لیں گے، ایم فل کے ریسرچ ورک کے دوران ہی استاذی و مرشدی شیخ
الحدیث پروفیسر حضرت مولانا یوسف خان صاحب کے حکم پر مکتب تعلیم القرآن
الکریم جامعہ اشرفیہ لاہور میں معاونت کے لئے خود کو پیش کیا جس میں اول
وقت میں ہی دس سے پندرہ ناظرہ قرآن پاک پڑھانے والے استاذہ کرام کی نگرانی
بندہ کو سونپی گئی اور ایم فل کے مکمل ہوتے ہی بندہ کو مکتب تعلیم القرآن
الکریم کی شوری کی طرف سے مکتب کے شعبہ سکول ( کریکٹر بلڈنگ آف سکول چلڈرن)
کے لئے نائب ذمہ دار کی حیثیت سے منتخب کیا گیا، یہ کام چونکہ سکولوں میں
ہی کردار کرنے کا تھا تو میں نے بھی اسے منشاء خداوندی سمجھتے ہوئے یہاں پر
اپنی استعداد کو لگانا ضروری سمجھا، الحمد اللہ اس وقت تک اسّی سے زائد
سکولوں میں بچوں کی تربیت کے لئے کردار ادا کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے،
جو یقینا ایک لیکچرار بننے سے بڑا کام ہے، مکتب تعلیم القرآن الکریم کی طرف
سے اپنے ساتھیوں کی اصلاح کے لئے وقتا فوقتا نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے
تاکہ معاشرے میں تربیت نمائندگان مکتب اپنے عمل سے بھی کر کے دکھا سکیں،
اسی سلسلہ میں دو فروری بروز منگل کو استاذی و مرشدی شیخ الحدیث پروفیسر
حضرت مولانا یوسف خان صاحب کی تشریف آوری ہوئی استاذ محترم نے امانت کی
ادائیگی اور وقت کی قدر کے متعلق چند قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں جو میں
اپنے الفاظ میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، شاید کسی کے عمل کا
ذریعہ بن جائیں اور ہمیں بھی اس کار خیر میں سے کچھ حصہ مل جائے،
سب سے پہلے استاذ محترم نے امانت کی تعریف قرآن پاک کے حوالے سے بیان
فرمائی کہ ذمہ داریوں کی سپردگی کو قرآن پاک نے امانت کہا ہے چنانچہ قرآن
پاک میں ارشاد ہے:
"انا عرضنا الامانت علی السماوات والارض والجبال۔۔۔الخ"
یعنی ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی۔
مفسرین فرماتے ہیں یہاں امانت سے مراد اپنی آزاد مرضی سے اللہ تعالی کے
احکامات کی اطاعت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔
اور انسان اگر امانت کا خیال رکھے گا تو اسے امین کہاجاۓ گا اسی طرح ذمہ
داریوں کو پورا نہ کرنا خیانت کہلاتی ہے انسان اگر ذمہ داریوں کو پورا نہیں
کرتا تو وہ خائن کہلائے گا، اس لئے جو وقت ہم کسی ادارے کو دیتے ہیں اس وقت
کو ذمہ داری سے پورا کرنا امانت داری کہلاتا ہے، ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ
وقت بھی پورا دیا جائے اور وقت کو ادارے کے کام میں ہی صرف جائے اگر ہم وقت
تو پورا دیں لیکن وہاں بیٹھ کر اپنے کاموں میں لگے رہیں تب بھی اس کی پوچھ
ہو گی، یہاں پر استاذ محترم نے ارشاد فرمایا ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا
آسان حل ترجیحات اور سنجیدگی ہے، یعنی ذمہ داریوں کو وقت کی مینجمنٹ کے
ساتھ پورا کیا جائے گا تو تمام کام وقت پر مکمل ہو جائیں گے۔ اور اگر
مینجمنٹ نہیں ہو گی تو کام الجھ جائیں گے ذہنی پریشانی بھی ہو گی اور کام
مکمل بھی نہیں ہو پائیں گے، کاموں کی مینجمنٹ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ
ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے کاموں کی منصوبہ بندی کی جائے، استاذ محترم نے
فرض، واجب، سنت اورمستحب کی مثال سے سمجھایا، یعنی جو سب سے اہم اور ضروری
کام ہوں سب سے پہلے وہ سر انجام دئیے جائیں جو زیادہ اہم اور ایمرجنسی کام
نہ ہوں ان کو دوسرے نمبر پر رکھا جائے۔ سنجیدگی کے متعلق ارشاد فرمایا کہ
کام کے وقت میں کام کی بات ہی کی جائے، یہاں استاذ محترم نے حکیم الامت
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا معمول بھی بتلایا کہ حضرت کے پاس
جب کوئی مہمان آتا تو حضرت اس سے تین سوال پوچھا کرتے تھے، کب آئے؟ کیسے
آئے؟ کب تک رہنا ہے؟ استاذ محترم ترغیب دلانے کے لیے تحدیث بالنعمت کے طور
پر ارشاد فرمایا کہ میں نے تیس سال اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کی
جاب کی ہے،اس دورانیے میں کبھی چائے کے وقت کے علاوہ چائے نہیں پی، ہمیشہ
کام کے وقت میں صرف کام ہی کیا ہے اور حال کا معمول بتلاتے ہوئے ارشاد
فرمایا کہ اب بھی جب میں جامعہ کے اوقات میں آفس میں ہوتا ہوں تو اپنا کوئی
ذاتی کام نہیں کرتا اور نہ ہی ذاتی ملاقات کرتا ہوں، جامعہ کے اوقات میں
صرف جامعہ کے کام ہی انجام دئیے جاتے ہیں، مزید ارشاد فرمایا کہ کاموں کی
منصوبہ بندی کو ڈائری کے ذریعے منظم کیا جائے یعنی جس دن جو کام کرنا ہو اس
دن کی تاریخ میں وہ کام لکھ لیا جائے، اس موقع پر استاذ محترم نے ترغیب
دلانے کے اپنی جیبی ڈائری بھی نکال کر دکھائی اور مزید اہمیت دلانے کے لئے
تحدیث بالنعمت کے طور پر ارشاد فرمایا کہ میں چھیالیس سال سے استاذ محترم
مہتمم جامعہ اشرفیہ حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی صاحب کے خدمت میں ہوں ان
چھیالیس سالوں میں ایک مرتبہ بھی استاذ محترم کو شکایت کا موقع نہیں دیا،
اس کی وجہ یہ ڈائری ہی ہے کہ جب بھی استاذ محترم کی کال آتی ہے تو کال
اٹینڈ کرتے ہی فورا ڈائری نکال کے سامنے رکھ لی جاتی ہے اور جو کام بتایا
جائے وہ لکھ لیا جاتا ہے۔ اور ارشاد فرمایا کہ آج کے کام کو کل پر نہ چھوڑا
جائے آج کے کام کو اگر کل پر چھوڑیں گے تو وہ کل نہیں بلکہ "کلّا" ہو گا، "
کلّا" عربی میں کبھی نہیں کو کہا جاتا ہے، یعنی وہ کام کبھی نہیں ہو گا، اس
لئے آج کے کام کو آج ہی مکمل کر نے کا نظم بنا جائے اور یہی چیز اپنے
ماتحتوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
آخر میں ارشاد فرمایا اپنے آپ کو سچ کا خوگر بنائیں جو کام کیا ہو وہی لکھا
اور بتایا جائے، اگر قول و فعل میں تضاد ہو گا تو یہ خیانت ہو گی کرپشن ہو
گی، اور یہاں پر استاذ محترم نے ایک حدیث مبارکہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا
کہ یہ وہ خیانت ہے جسے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بڑی خیانت بتایا ہے
چنانچہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
" بڑی خیانت یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی سے کوئی بات کریں وہ آپ کو سچا سمجھ
رہا ہو آپ اس کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہوں."
اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور خیانت سے بچنے کی توفیق
عطاء فرمائے۔ آمین!
|