آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے

آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے..!!ہم کب تک دوسروں کے آلہ کار بنے رہیں گے...؟
حکمرانوں، سیاستدانوں، آرمی چیف اور عوام کے لئے لمحہ فکریہ.....
ایک خبر آہ!عدم تحفظ کے شکار پاکستانی ایک کھرب80ارب روپے سے زائد سرمایہ ملائیشیا منتقل کرچکے ہیں....!!

ہمارے حکمران اگر ملک کی تعمیرو ترقی اور اِس کے استحکام سے متعلق کئے گئے اپنے منصوبوں اور اقدامات کا خود سے جائزہ لیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِنہیں ندامت ہی محسوس ہوگی اور اِن کے سرشرم سے جھک جائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی ہماراخیال یہ ہے کہ اگر یہ خبر اِن کے سامنے سے گزری ہوگی تو ہمارے موجودہ حکمران ، سیاستدان ، آرمی چیف اور عوام اگر واقعی ملک اور قوم کے ساتھ صحیح معنوں میں مخلص ہیں تو ایک لمحے کے لئے یہ سب کے سب یقینا ششدر ہوگئے ہوں کہ ہمارے ملک میں عدم تحفظ کا عنصر اِس قدر غالب آچکاہے کہ اِسی عدم تحفظ کے باعث ملائیشیا سیکنڈ ہوم پروگرام کے تحت گزشتہ 8سالوں کے دوران پاکستانی ایک کھرب 80ارب روپے سے زیادہ کا سرمایہ ملائیشیا منتقل کرچکے ہیں ۔

جبکہ ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عشرے سے بھی کم عرصے کے دوران اتنی بڑی رقم کا محض اپنے یہاں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث ملائیشیامنتقل ہوجانا ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، آرمی چیف اور عوام کے لئے بھی ایک ایسالمحہ فکریہ ہے جس نے اِنہیں جھنجھوڑ دیاہوگا اور اِس کے بعد اِن سب کو باہم متحد اور منظم ہوکر اپنی نوعیت کے اِس اہم مسلے کا جلدازجلد تدارک کرنا ہوگا اور اگر اِنہوں نے ایسانہ کیاتو ممکن ہے کہ آئندہ چند ایک سالوں میں پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے اور ہمارایہ ملک جو لاکھوں قیمتی انسانی جانوں کی قربانیوں کے عوض ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیاتھا اِس کا دیوالیہ نکل جائے اور یہ ایک ناکام ملک کی حیثیت سے اپنی پہنچان بناکر دنیا کے لئے نشان عبرت بن جائے۔

22جنوری 1949ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہونے والی تقریب تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے شہید ملت لیاقت علی خان نے کہاتھاکہ” سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم نے پاکستان کیوں حاصل کیاتھا؟ہم نے پاکستان کے حُصول کی کیوں کوشش کی تھی؟جس صورت میں کہ اِس قدر جانیں قربان کی جاچکی ہیں اور لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو کرب و اذیت کی پر ہول راہوںسے گزرنا پڑاہے یہ سوال اور بھی اہم بن جاتاہے کہ کیااِس کی وجہ یہ تھی کہ بعض افراد قوت و اختیار، دولت و اقتدار کے خواہاں تھے؟ اورکیا اِس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گروہ دوسرے پر غلبہ حاصل کرنااور فائدے اپنے لئے مخصوص کرلیناچاہتاتھا؟یایہ کہ بیچارے عوا م کی زندگی اِسی پرانی مفلسی اور اختیار کا شکار رہے؟اور اِن غریبوں کو حد سے حد تک مکمل ناکامیوں اور نامرادیوں ہی کا سامناکرناپڑے؟اگر ایساہے تو کہنابالکل بجاہے کہ ہم نے تمام قربانیاںبے کار اور عبث کی ہیںلیکن میں دعوے سے کہتاہوں کہ ایساہرگزنہیں ہے۔آزادی کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق بودوباش اور غوروفکر کی آزادی حاصل ہو۔مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی آزادی کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی اور بے مصرف ہے۔

پاکستان اِس لئے وجود میں آیا کہ ہم ایک ایسا نظام معیشت قائم کرناچاہتے تھے جو انصاف ، مساوات اور اُخوت انسانی پر مبنی ہو۔دیگر الفاظ میں ایک ایسا نظام معیشت ہو جس میں کوئی اندورنی مناقشات موجودنہ ہوںجس میں مزدور کو اپنی محنت کا جائز صلہ مل سکے“مگرہمیں ِس موقع پر یہ کہناپڑرہاہے کہ آج شہید ملت لیاقت علی خان کے اُس پاکیزہ پاکستان کی وہی حالت ہوگئی ہے جس سے متعلق اُنہوں نے اپنی اِس تقریر میںبعض افرادکے خدشات کوسوالات کی صورت میں تذکرہ کیاتھا اور ہمیں اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہنے دیجئے کہ ہائے رے افسوس اُن ہی بعض افراد کے خاندانوں کا ٹولہ آج ملک کا مالک بن گیاہے اور ملک کو اپنی وراثت تصور کرتے ہوئے اپنی من مانی کررہاہے اور اِس پر قابض رہ کر اِسے اپنی مرضی سے چلاناچاہتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس ٹولے اور اِس میں شامل ہونے والے ہر ایک فرد نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے خاطر شہید ملت لیاقت علی خان کے اُس پاکیزہ پاکستان کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے جس کا تصور اُنہوں نے اپنی تقریر میں پیش کیاتھا اِس کا اندازہ اِس طرح بھی لگایاجاسکتاہے کہ آج مملکت پاکستان کی آخری سرحد تک ایساکسی بھی چیز کا غلبہ نظر نہیں آرہاہے کہ جسے دیکھ کر یہ احساس شدت سے ہو سکے کہ شہیدملت لیاقت علی خان کی اِس تقریر کا ذرابھی عنصرآج ہمارے پاکستان میں موجود ہے اوراِسی کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے کہ آج ہر پاکستانی یہ بھی سمجھ رہاہے کہ اِس کاآج کاپاکستان شہیدملت لیاقت علی خان کی اِن سُنہرے الفاظ پر پورا نہیں اُتررہاہے۔جس کا اظہار اُنہوں نے 22جنوری 1949ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کیا تھا۔

جبکہ یہاں قرار واقعی امر یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں ماضی میں اِنصاف کا گلاکس قدر گھونٹاگیایہ بھی کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے ہاں البتہ!اِنصاف کے حوالے سے گزشتہ چند ایک سالوں سے اَب قوم میں یہ ذراسی اُمیدضرور پیداہوچلی ہے کہ آج ملک کی عدلیہ( اپنے سول اور ملٹری حکمرانوںسمیت اغیار کے تسلط سے) آزادہوگئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں آج اِنصاف کا بول بالاہورہاہے اور جہاں تک بات ہے ملک میں مساوات کے عنصر کی تو ہمارے یہاں پچھلے 54سالوں (نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد)سے اَب تک مساوات اور ملی یکجہتی کا یہ عالم ہے کہ اَب تو مساوات حکمرانوں کی اپنی کلاس تک محدود ہوکر رہ گیاہے یہ آج تک عوامی سطح تک پہنچ ہی نہیں پایاہے ہاں البتہ! ہمارے مشاہدے میں یہ بات ضرور آئی ہے کہ سوائے قومی اور مذہبی ایام کے مواقعوں پر کبھی کبھی ملی یکجہتی اور مساوات کا یہ انوکھا عنصر اور مرکب ملک کی امیر اورغریب عوام میںملی نغموں اور پبلک مقامات اور اِسی طرح کہیں کہیں سرکاری اور نجی تقریبات میں بھی نظر آجاتاہے ورنہ عام حالات میں تومساوات کے حوالے سے اَپر اور لوئر کلاس طبقے کا واضح فرق ہمارے یہاںپیداہونے والے بچے سے لے کر قبرکی آغوش میں چلے جانے تک موجود رہتاہے آپ ہماری اِس بات کا واضح مشا ہدہ قبرستانوں میں بنی پکی اور اُونچی اور کچی اورنیچی قبروں کی بناوٹ سے بھی کرسکتے ہیں کیوں کہ ہمارے یہاں اُخوت ومساوات کا یہ منظر یہاں بھی صاف اور شفاف طور پر نظر آرہاہوتاہے۔اور اَب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہمارے ملک میں بسنے والے امیر طبقے نے ہمارے یہاں آباد غریبوں سے اپنی علیحدہ پہچان بنانے کے غرض سے اپنی طرززندگی میں ہر لحاظ سے تبدیلی لانے کے لئے اپنی سوسائٹی، اپنے بازار، اسکول ، کالج، یونیورسٹی ،دکان اور اَب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ اپنی مساجدا ور قبرستان بھی علیحدہ بنالئے ہیں جہاں ملک کی آبادی سے اکثریت رکھنے والے غریبوں کا اِن کے اندر گھسنا تو درکنا وہ اِن امیروں کے بنائے گئے اِن مقامات کے قریب سے بھی غریب نہیں گزر سکتے ہیں اوربات یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ اِسی طرح ہمارے یہاں اُخوت اور اتحاد کا یہ عالم بھی جابجا طور پر آج نظر آرہاہے کہ جس کی ایک زندہ مثال موجودہ جمہوری حکومت کے ایک وفاقی وزیر کے اِس بیان میں واضح طور پر دکھائی دے رہاہے کہ جس کا اظہار اِس وزیر نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انتہائی جذباتی بیان میں کچھ یوں کیا جس کا مفہوم یہ نکلتاہے کہ اُخوت اور اتحاد کی کیا بات ہے ہماری ثقافت تو یہ ہے کہ ہم اپنے یہاںپیداہونےوالے بچے کے کان میں اذان دینے سے پہلے اپنی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے اُس کے کان میںپہلے گولی کی گھن گرج کی آوازسُناتے ہیںپھر کسی دین اور مذہب اور ملی یکجہتی ، مساوات اور اتحاد کا اُسے درس دیتے ہیں۔یعنی اِسے سب سے پہلے اپنی روایات کے مطاببق اپنی قوم اور قبیلوں کا فرد بناتے ہیں پھر اِس کی شخصیت پر کسی اور کی چھاپ لگنے دیتے ہیں ۔

اَب یہاں ایسے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے ہی ملک میں اپنے ہی اکابرین کے پاکیزہ افکار اور اذکار کی دھجیاں بکھیری جائیں تو پھرہم کسی سے اپنے لئے لحاظ اور مروت کی بھلاکیسے اُمیدرکھ سکتے ہیں...؟جب ہم خود ناسمجھ بن کر اپنے اکابرین کے بتائے ہوئے رستے سے بھٹک کر خود سے اپنی راہیں متعین کرنے لگ گئے ہیں یعنی کہ ایسے راستے جو سب کی سب ایک ایسی گہری کھائی میں جاتے ہیں جہاں سے ہماری واپسی ممکن ہی نہیں ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر گاؤں ہر شہراور ہر گلی کوچے میں بسنے والے ہر فرد کا وجود اپنے انفرادی مفادات کے خول میں جکڑاجاچکاہے اِس کے دل و دماغ سے ملک اور قوم کے اجتماعی فائدے کا دائمی رجحان ختم ہوکر رہ گیاہے اور اِس کی سوچ اپنی ذات تک محدود ہوکرلالچ اور خودغرضی کے دلدل میں غرق ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعصبات اور فروعی اختلافات سے لبریز ایک ایسی ثقافت اَب جنم لے چکی ہے جس میں رنگ کر ہم ہر قدم پر اپنے ہی مسلمان اور پاکستانی بھائیوں کا اپنے ہی ہاتھوں بےدردی سے خون بہارہے ہیں۔اور خوش ہورہے ہیں۔کہ ہم نے جیسے کوئی انوکھاکارنامہ انجام دے ڈالاہے۔

جبکہ اِس کے برعکس اصل حقیقت یہ ہے اِن پرآشوب دور میں آج بھی کچھ مٹھی بھر محب وطن پاکستانی ایسے بھی ضرور موجود ہیں جوآج وقت اور حالت کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود سے یہ سوالا ت کرنے لگے ہیں کہ ہمارے ملک میں گزشتہ 64سالوں کے دوران ہی اعلی ٰ انسانی اقدار کا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے ....؟ اور آخر ایساکیوں ہورہاہے....؟اور ہم کب تک ایساکرتے رہیں گے....؟دوسروں کی دہشت گردی کی جنگ کہتے کہتے اَب ہم نے اِسے اپنی جنگ کیوں بنالی ہے.....؟اور ہمارے حکمران دوسرے کے لئے آخر کب تک سوچتے رہیں گے ...؟اور دوسری کے مفادات کو مقدم جان کر اپنے ملکی مفادات کا سوداکرتے ہوئے ملک کی بقاو سا لمیت اور اِس کی خود مختاری کو کیوں داؤ پر لگاتے رہیں گے....؟ اور اِس کے ساتھ ہی اَب آخر میں ہم اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں، آرمی چیف اور اپنے ہم وطنوں سے ایک سوال یہ کرتے ہوئے اجازت چاہیں گے کہ کیا آپ میں سے کسی کے پاس مندرجہ بالا سوالات کے تسلی بخش جوابات موجود ہیں ......؟اگر ہیں تو اِن سوالات کے جوابات فوراََ دی جئے اِس سے قبل کہ محب وطن پاکستانیوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور یہ ملک کو بچانے اور سنوارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں تویہ اُن تمام دیواروں اور رکاوٹوں کو نیست ونابود کردیں جو اِن کی راہ میں حائل ہوکر اِن کے ملک بچانے کے عزم کے سامنے مشکلات پیداکررہی ہوں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893512 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.