افلاطون نے کہا تھا کہ سرمایہ
دارانہ اور طبقاتی نظام ہی دنیا میں برائی کی پہلی جڑ ہے۔عالم عرب میں
تاریخ ساز انقلابی طوفان کی بھپری ہوئی جن ہواؤں نے تیونس مصر کے حاکمان کے
شاہانہ و ناقابل عبور و ناقابل شکست دکھائی دینے والے قلعوں اور انکے
اکڑفوں تخت نشینوں کو خش و خاک کی طرح بکھیر کر رکھ دیا تھا وہی ہوائیں
آجکل شام یمن میں زوروں پر ہیں۔ یمن کی انقلابی تحریک سے سامراج اور اسکے
یورپی پٹھووں پر شام غریباں چھا گئی ہے۔ حقیقی انقلاب چونکہ سرماداریت کے
لئے موت کا پیغام بن سکتا ہے اسی لئے استعماری ایمپیریل ازم کو بچانے کے
لئے متبادل قیادت کی تجاویز کے حق میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ایسی کوشش لیبیا
اور شام میں بھی کی جارہی ہیں۔ لیبیا میں تو فوجی کاروائی کا سہارا لیا گیا
ہے تاہم اور ناٹو فورسز اصل ہدف سے بہت دور ہیں۔ سامراج کے ہرکارے اور راج
دلارے علی محسن العمر کو یمن کے تخت پر مسلط کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور
لگایا جارہا ہے۔ انقلابی حریت پسند کرپشن کے الزامات میں گوندھی ہوئی
متبادل قیادت کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔یمن اور برطانیہ رقبے کے معاملے
میں یکساں پوزیشن رکھتے ہیں۔ یمن کا اکثر علاقہ ریگستانوں میں گھرا ہوا ہے۔
یمن تیل کی دولت سے مالامال ہے مگر سابق ادوار کی شہنشہانہ پالیسیوں نے آئل
انڈسٹری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔2002 میں تیل کی روزانہ پیداوار60 ہزار
بیرل تھی جو2010 میں2 لاکھ18 ہزار بیرل تک گھٹ گئی۔ورلڈ بنک کے ماہرین کی
خبروں اور پشین گوئیوں کے مطابق2018 تک تیل کی پیدوار کے سامنے صرف انڈہ
دکھائی دے گا۔ یمن کی روائتی سیاسی پارٹیوں نے انقلاب لانے میں خاص کردار
ادا نہیں کیا۔jmp جوائنٹ میٹنگ پارٹی نوجوانوں کی مختلف تنظیموں پر مشتعمل
اپوزیشن کی چھتری ہے جس کی داغ بیل2002 میں ڈالی گئی۔jmpمیں اسلامی گروپ
سوشلسٹ ناصری دھڑوں کے نوجوان شامل ہیں۔ یمن کی سیاسی جماعتوں پر سرسری نظر
ڈالنے سے سیاسی صورتحال اور انقلاب کے متعلق مزید آگاہی مل سکتی ہے۔ جنوبی
یمن میں سوشلسٹ پارٹی کافی مقبول ہے اور سوشلسٹ جنوبی صوبے میں برسراقتدار
بھی رہے مگر1994 کی خانہ جنگی نے سوشلسٹوں کی لٹیاکو زوال کے اندھے کنویں
میں ڈبو دیا۔ ۔ اسلامک پارٹی جسے اصلاح بھی کہا جاتا ہے شمالی حصوں میں
گہری جڑیں رکھتی ہے۔یمن کی حکمران جماعت پیپلز کانگرس کے مقابلے میں اصلاح
پارٹی ہی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔یمن اور سعودیہ کی سرحدیں
اپس میں متصل ہیں۔ سعودی عرب کی آمرانہ اور رجعت پسند بادشاہت انقلابی
خوشبو کو محسوس کرلیا ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہوں نے تیونس سے لیکر مصر تک
انقلابی ریلوں کو روکنے کی درجنوں کاوشیں کیں۔ جزیرہ نما بحرین میں عوام
سڑکوں پر آئی تو سعودی عرب نے اپنی فورس بھجوادی مگر وہ یمن میں کچھ کرنے
سے قاصر ہے۔ یمن میں انقلابی تحریک کا اغاز صنعا یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے
خون سے کیا۔ طلبہ کا ہجوم امر صالح کے استعفی کا مطالبہ کررہا تھا۔ پولیس
نے طلبہ کو روکنے کی خاطر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے 52 ہلاکتیں ہوئیں۔
امر صالح نے خبردار کیا ہے کہ اگر شاہی تخت کو تختہ بنانے کی سازش کی گئی
تو پورے ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ ایسی بھڑک تو مصر کے حسنی مبارک
نے بھی ماری تھی مگر اب وہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ مصر اور تیونس کے بعد تیسرا نمبر یمن کا ہوگا مگر اہم
سو۳ال تو یہ ہے کہ کیا اقتدار کی منتقلی پر امن ہوگی؟ کس فارمولے کے تحت
مستقبل میں اقتدار کی بندر بانٹ ہوگی؟ ان سوالات کا فیصلہ تو مستقبل میں
ہوگا مگر امر صالح کی گو شمالی نوشتہ دیوار ہے؟ امر صالح 2 کروڑ30 لاکھ
آبادی والے یمن پر بادشاہت مسلط کئے بیٹھے ہ۰یں۔وہ کئی مرتبہ مستعفی ہونے
کا وعدہ کرچکے ہیں مگر لگتا یوں ہے جیسے ایفائے عہد کے جرثومے اسکے خون میں
شامل نہیں۔یمنی لوگ آمریت قبائلیت فسطائیت سے تنگ آچکے ہیں۔غربت بے روزگاری
نے لاکھوں کو ادھ موا کررکھا ہے۔40 فیصد آبادی بے روزگاری کے تندور میں گل
سڑ رہی ہے۔ یمن کی معیشتimf کے پاس ہے۔ امر صالح کی حکومت ایک طرف ہر سال
نئے ٹیکس لاگو کرکے خزانے بھر لیتی ہے تو دوسری جانب توانائی کے شعبے میں75
فیصد کی سبسیڈیز واپس لے لی.2009 میں یمن کو ملنے والی امدادی رقم 67 ملین
ڈالرکو2010 میں150 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔جنوب میں سوشلسٹ دور میں خوب ترقی
ہوئی۔ جبوتی صوبے کی تین لاکھ آبادی کی اسی فیصد اکثریت جہالت کے اندھیرے
میں رہنے پر مجبور تھی۔سوشلسٹوں نے اپنے دورانئیے میں جہالت کو ناپید کردیا
تھا۔جاگیرداری کا خاتمہ ہوگیا۔سامراجی بھیڑیوں سے چھٹکارہ حاصل کرکے قومی
صنعتوں کو دوبارہ قومیا لیا۔یمن میں سوشلسٹ نظام رائج نہیں تھا مگر سوویت
یونین طرز کی انسٹالی ریاست جو فوج اور نوکر شاہی کے ریاستی جبر کی حکومت
تھی۔بعد ازاں یمنی سوشلسٹ میں انتشار پیدا ہوا جس نے پارٹی کا شیرازہ دھڑوں
میں بانٹ دیا اور اس ٹیلنٹ کیمونسٹ پارٹی اف یمن کے ایک دھڑے نے حکومتی
مخالفت کی مچان سنبھال لی۔ صدر ناصر اور سوشلسٹ پارٹی نے رد عمل میں
مخالفین کا قتل عام کروایا۔بعد ازاں ایک سمجھوتے کے تحت جنوب کو شمالی
حکومت میں ضم کردیا۔ مارننگ سٹار نے سوشلسٹ پارٹی کی تشریح یوں کی تھی
سوشلسٹ پارٹی کے۷ نظریات سائنسی سوشلزم ہیں اور پرولتاری بین الاقوامیت کے
اصولوں سے لگا کھاتے ہیں اور یہ عوام سے درخواست کرتی ہے کہ وہ پارٹی پر
عوامی دباؤ ڈالیں تاکہ ریاست کی سلامتی اور خود مختیاری کے لئے لڑائی لڑی
جائے۔ رجعتی جماعتوں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے غلبے سے چھٹکارہ حاصل
کئے بغیر یمن کے آمروں سے چھٹکارے بہتری اور جمہوریت کی امید کرنا اپنے عقل
و خرد کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ امر صالح نے دہشت گردی کے خلاف امریکی
جنگ کے سلسلے میں ڈالروں کی بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا اور یہی رقم
مخالفین اور انقلابی رہنماؤں کا مکو ٹھپنے پر غرق کردی۔ شمال کے باغی
گروپوں اور حرکت ال جنوبیہ کو رگڑا لگانے کے لئے امر صالح نے گاجر اور ڈنڈے
کا تابڑ توڑ استعمال کیا۔قبائلی علاقوں سے ہزاروں انقلابی صنعا کی جانب
شاداں و فرحاں رواں دواں ہیں۔ کیپٹل صنعا میں روز بروز مظاہرے ہورہے ہیں
جنکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔مظاہرین اور پولیس و فوج کے درمیان
مسلح جھڑپیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں اور پورے جوبن کے ساتھ جاری
ہیں۔پچھلے جمعرات کو پولیس کی کتربیونیت نے 15 مظاہرین کو موت کے سفر پر
روانہ کردیا۔ جھڑپوں میں مجموعی طور پر سینکڑوں مظاہرین القمہ اجل بن چکے
زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انقلابیوں نے چند روز قبل صدارتی محل پر
راکٹ برسایا جس کی زد میں شاہ اور نورتن زخمی ہوگئے۔ زخمیوں امر صالح وزیر
اعظم نائب وزیراعظم اور سپیکر کو فوری طور پر سعودی عرب منتقل کردیا۔ امر
صالح شدید زخمی ہوئے انکے جسم سے بم کے ٹکڑے نکالے گئے۔ امر صالح اور قریبی
رفقا کی سعودی عرب روانگی کے بعد صنعا میں جشن کا سماں ہے۔ یمن کے
انقلابیوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انقلاب کو ہائی
جیک نہ ہونے دیں۔دوسری طرف جہاں تک امر صالح کا تعلق ہے تو انہیں جان لینا
چاہیے کہ بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی آمرانہ حکومتوں کا مستقبل تاریک ہوا
کرتا ہے۔ امر صالح علاج کے بعد سعودی عرب میں اپنے جلاوطن بادشاہوں کے ساتھ
گالف کھیل کر زندگی گزارنی چاہیے انکی بادشاہت کا چراغ بجھنے کو ہے معمولی
سی لو کسی وقت بجھ سکتی ہے۔ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ آمریت کا سورج طلوع
تو بڑی آن بان سے ہوتا ہے مگر اسکا غروب سبق آموز اور تازیانہ ہوا کرتا ہے۔
آمریت کا سورج ماضی کی اندھیری اور گمنام کھائیوں میں جب غروب ہوتا ہے تو
پھر کبھی طلوع نہیں ہوتا۔ امر صالح کی امریت کا سورج غروب کے تمام مدارج طے
کرچکا ہے اور کسی لمحے اسکا غروب نوشتہ دیوار ہے۔ مڈل ایسٹ کے بدصورت
شہنشاہوں کو چاہیے کہ اگر وہ زلالت سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ افلاطون کے
محولہ بالا جملے کی روشنی میں سکہ رائج الوقت طبقاتی و شہنشاہی نظام کا
خاتمہ کریں۔ |