باطل کو زوال ہی ہے

تحریر: نبیلہ شہزاد
میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں فروری 2021ء کا آغاز سیاسی ہلچل سے ہوا۔ میانمار کی فوج نے برسراقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔میانمار پر ہمیشہ آمرانہ تسلط ہی قائم رہا لیکن من آنگ سان سوچی کی جمہوریت کے لیے جہدِ مسلسل نے اس آمرانہ تسلط کو ٹوٹنے پر مجبور کر دیا یوں 66 سالہ پرانا آمرانہ قانون ٹوٹا جو 2011ء تک قائم تھا۔میانمار ایک خود مختار ریاست ہے۔جو جنوبی ایشیا کی سرحد بنگلادیش، بھارت، چین، لاؤس اور تھائی لینڈ کے ساتھ واقع ہے۔ اس کی 2014 ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی صرف 51 ملین ہے۔ ملکی حجم676،578 مربع کلومیٹر ہے۔ برما کا دارالحکومت نیپیداو اور بڑا شہر یانگون ہے۔سرکاری زبان برمی ہے۔

آنگ سان سوچی جسے خود بھی بچپن میں مختلف کرائسز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی عمر ابھی صرف دو سال تھی کہ اس کے باپ کو قتل کر دیا گیا۔جب آمریت کے خلاف کھڑی ہوئی تو اسے مسلسل 15 سال نظر بند کیا گیا۔یہ عورت دنیا کے سامنے انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر متعارف کروائی گی۔اسے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ نوبل انعام جو ہمیشہ کفار نے اپنے پٹھووں کو ہی دیا۔ان لوگوں کے لئے لیے جب مسلم دشمنی کی بات آئے تو یہ ہمیشہ یکجان ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آنگ سان سوچی نے نہ صرف خود روہنگیائی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے بلکہ اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف فوج پر کئے گئے مقدمے میں فوج کا پورا پورا دفاع کیا۔اس معاملے میں یہ اپنے ساتھ فوج کی مخالفت کو بھی بھول گئی۔اسے پھر نہ تو کوئی انسانیت یاد رہی اور نہ ہی کوئی انسانوں کے حقوق۔ یا پھر یہ شاید مسلمانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی تھی۔یوں انسانیت سے ہمدردی والا اس کی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا اس کے قول و فعل کا تضاد پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس پر گونگے بہرے اور اندھے ہی بنے رہے۔

میانمار میں عرصہ دراز سے ظلم کی چکی میں پسنے والے روہنگیائی مسلمانوں کی مختصر تاریخ اس طرح سے ہے کہ میانمار کے صوبہ اراکان اور بنگلہ دیش کے علاقے چٹاکانگ میں بسنے والے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں۔ اراکان میں خلیفہ ہارون رشید کے دور میں اسلام پہنچا اور 1430ء میں شاہ سلیمان کے ہاتھوں اسلامی حکومت تشکیل دی گئی۔ ساڑھے تین سو سال یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی اور بلا آخر 1784ء میں برما نے اراکان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرلیا اور مسلمان پر اس قدر کیا کہ اس ظلم کو دیکھ کر چنگیز اور ہلاکو خاں کی روحیں بھی شرما گئی ہوں گی۔ برما کے بادشاہ بودھ پایا نے مسلمان علماء کو زبردستی سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر سب کو شہید کردیا۔ برطانوی فوج کے خلاف لڑائی میں برمی بودھ گولیوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے۔ یہ سلسلہ یہاں تک نہ رکا بلکہ برطانیہ سے آزادی کے بعد برما نے مسلمانوں کے خلاف آپریشن میں ایک لاکھ مسلمان شہید کر دیے جبکہ بیس لاکھ مسلمانوں نے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کی۔اس کے بعد بھی یہاں مسلمانوں پر ظلم کے دور چلتے رہے 1997ء میں پھر بدھ مت کے غنڈوں نے مسلمانوں پر حملیکرکے ان کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ پھر 2001ء میں دوبارہ مسلمانوں پر حملے کرکے کشت و خون کا بازار گرم کیا گیا اور 2012 میں ایک بار پھر مسلمانوں پر تشدد اور ان کے قتل عام میں شدت آئی جو وقفے وقفے سے تاحال جاری ہے۔

میانمار کسی بھی مسلمان کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ پولیس اور فوج کی نگرانی میں بدھ مت کے غنڈوں نے ان کا قتل عام کیا۔ مسلمان خواتین کا ریپ سرعام ہوا۔ مسلمانوں کی بستیاں جلائی گئیں۔ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے اور اذیت دینے کے لیے ان کے لیے یہ قانون بنا دیا گیا کہ عورت پچیس سال سے پہلے اور مرد تیس سال سے پہلے شادی نہیں کرسکتا۔حاملہ خواتین کو مار مار کر ان کے حمل گرائے گئے۔مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کا کوئی راستہ نہ چھوڑا گیا۔ ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ زندہ بچوں کو آگ میں جلایا گیا۔مسلمانوں کو اتنا ستایا گیا کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے یہ مسلمان تھے ناں اس لیے ہمسایہ ممالک میں انڈیا نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ جہاں اقوام متحدہ اور مہذب روشن خیال دنیا نے ان کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ وہاں مسلمان ہمسایہ ممالک کا رویہ بھی کوئی خاص مددگار نہ رہا۔ بلکہ جو 7،8 لاکھ روہنگیا مسلمان مہاجر ہوئے ان کے لئے 57 اسلامی ممالک بھی سرد رویہ ہی اپنائے رکھا۔ سوائے ترک صدر رجب طیب اردوان کے۔

اور یہ آنگ سان سوچی، امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی، جس کی پشت پناہی پر مسلمانوں پر جانوروں سے بھی بدتر، خوفناک ودردناک ظلم و ستم ہوا۔ جو مسلمانوں سے دشمنی میں فوج کے ساتھ اپنی مخالفت کو بھی بھول گئی۔آج اسی فوج نے اسے دوبارہ پٹخ کر مارا ہے۔باطل کو ہمیشہ زوال ہی ہے چاہے کہیں سے بھی آئے۔ لیکن روہنگیائی مسلمانوں کے بارے میں عالم اسلام کو اس حدیث مبارکہ کے تناظر میں سوچنا ہوگا کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں۔ اپنے جسم کا درد محسوس کر کے اسے دور کرنے کے فرض سے رو گردانی کر کے کہیں ہم بھی فنا ہونے والے باطل کا حصہ نہ بن جائیں۔ ذرا سوچئے گا ضرور۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.