کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کو
لوٹ رہے ہیں ،یا یوں سمجھ لیں کہ جس شاخ پر ہم سب بیٹھے ہیں اسی شاخ کو کاٹ
رہے ہیں ،لیکن یہ کتنا مضبوط ملک ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا ۔اور کبھی یہ
بھی خیال دل میں آتا ہے کہ یہ کتنا مالدار ملک ہے کہ جس محکمے میں کرپشن کا
کوئی کیس پکڑا جائے وہ وہ کرپشن کروڑوں اور اربوں روپئے سے کم کی نہیں ہوتی
۔ملک کو لوٹنے کے نئے نئے انداز ہیں ،آج ہم سرکاری اداروں میں ان ملازمین
کی بات کریں گے جو براہ راست کسی بدعنوانی میں تو مبتلاء نہیں ہیں لیکن وہ
اپنے اداروں سے جہاں وہ ملازم ہیں ہر ماہ اپنی تنخواہ کس طرح وصول کرتے ہیں
کہ وہ دفتر بلکل نہیں جاتے اور ہر ماہ ان کی تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں آتی
رہتی ہے ایسے ملازمین سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس طرح آپ جو
تنخواہ لے رہے ہیں کیا وہ جائز اور حلال ہے ۔اس پر وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں
ہم جب دفتر میں جاتے ہیں تو ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ناجائز آمدنی کا جو
نٹ ورک دفتر میں بنا ہوا ہے آپ اس میں حصہ دار بن جائیں جب ہم اس سے انکار
کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اچھا آپ گھر پر آرام کریں آپ کی تنخواہ آپ کے
اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی رہے گی۔
ہمارے ایک دوست نے ایک ایسے سرکاری ملازم کا بتایا کہ وہ ساری زندگی اپنے
دفتر نہیں گئے تنخواہ ان کو ملتی رہی پھر وہ جب ریٹائر ہوئے تو پنشن کے
معاملات کے سلسلے میں دفتر جانا پڑا تو انھیں لوگوں سے دفتر کا پتا پوچھ کر
اپنے اس دفتر جانا ہوا جہاں وہ پچھلے پچیس برس سے ملازم تھے ۔کچھ لوگ ایسے
بھی ہیں جو دفتر جاتے تو ہیں لیکن ایسے جاتے ہیں کہ جیسے وہ دفتر آکر احسان
کررہے ہوں بظاہر تو وہ کسی کرپشن میں شامل نہیں ہیں لیکن اس ایمانداری کا
بینیفٹ وہ اس طرح لیتے ہیں کہ اپنی مرضی سے جس وقت دل چاہا دفتر آگئے اور
جب چاہا چلے گئے دفتری وقت کی کوئی پابندی ان کے لئے ضروری نہیں اسی طرح وہ
اپنی سیٹ کا کام بھی شاہانہ انداز میں کرتے ہیں گو کہ کسی سائل کی فائل آگے
بڑھانے کی کوئی قیمت یعنی رشوت نہیں لیتے اس لئے اپنے کام کی ترجیحات وہ
خود طے کرتے ہیں چاہے متعلقہ سائل کو کتنی ہی اپنے کام کی جلدی ہو ،پھر وہ
سوچتا ہے کہ وہی لوگ بہتر ہیں جو رشوت کا پہیہ لگا کر فائل تو آگے بڑھا
دیتے ہیں۔اسی طرح کچھ ایسے بھی ایماندار سرکاری ملازم ہیں جو دو دو سرکاری
ملازمت کرتے ہیں جہاں کچھ سختی ہوتی ہے تو وہاں پورا وقت یا زیادہ وقت دیتے
ہیں جہاں پہلے سے ان کی چودھراہٹ قائم ہے وہاں اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں ۔
1985سے پہلے تک تو صورتحال کچھ کم کم تھی لیکن جب سے ایم کیو ایم مقتدر
حلقوں کی سرپرستی اور عوامی تائیدسے اس شہر کے سیاہ سفید کی مالک بنی اس نے
اس بیماری کا علاج کرنے کے بجائے اس بیماری کو اپنے پارٹی مفادات کے لئے
استعمال کیا ۔ایم کیو ایم کی دہشت گردی سے سرکاری افسران ہر وقت خوف کے
سائے میں رہ کر کام کرتے تھے اور بالخصوص وہ افسران جو دوسرے صوبوں سے تعلق
رکھتے تھے وہ اس تنظیم کے ہر حکم کی اطاعت کرتے نظر آتے ۔کراچی کے دوسرکاری
ادارے مثلاَبلدیہ کراچی ،کراچی واٹر بورڈ میں ایم کیو ایم کی تنظیمی
سرگرمیاں بغیر کسی روک ٹوک کے چلتی تھیں بلدیہ اور واٹر بورڈ کے ملازمین
ایک طرح ایم کیو ایم کے زبردستی کے کارکن تھے ۔ایم کیو ایم کا کہیں بھی
کوئی جلسہ ہوتا یا ایسی کوئی سرگرمی ہوتی جس میں افرادی قوت کی ضرورت پڑتی
تو ان اداروں کے ملازمین کو بسوں میں بھر بھر کے لے جایاجاتا پھر ان اداروں
میں ایم کیو ایم اپنے جن کارکنوں کو ملازمت دلاتی تو وہ تنخواہ تو یہاں سے
لیتے لیکن کام نائن زیرو پر کرتے یا کوئی اور تنظیمی خدمات ان سے لی جاتیں
اکثر ایسے نوجوانوں کو جب ایک دن ملازمت کا تقرر نامہ دیا جاتا تو دوسرے دن
ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا دی جاتی پھر تیسرے چوتھے دن انھیں کسی پرانے
گروپ کے ساتھ کار میں بٹھا کر کہا جاتا کہ جاؤ فلاں جگہ پر فائرنگ کر کے آؤ
اب وہ بیچارہ لڑکا جس نے ساری زندگی کلاشنکوف کا نام ہی سنا تھا دیکھا تک
نہیں تھا اب وہ اس کو چلانے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے ۔
ایم کیو ایم ایسے نئے لڑکوں سے کوئی دہشت گردی والی کارروائی کروانا چاہتی
تو پہلے ان کی ملازمت والی جگہ پر حاضری لگوائی جاتی پھر ان سے وارداتیں
کروائی جاتیں اگر یہ پکڑے جاتے تو دفتر میں حاضری کا ریکارڈ دکھا کر ان کو
مقدمے سے بچالیا جاتا اور اگر کسی کارکن کو کوئی جھٹکا دینا مقصود ہوتا تو
تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروادیا جاتا ،یہ وہ صورتحال ہے جو کراچی
میں پچھلے تیس سال سے جاری و ساری تھی لیکن 2016کے بعد اس میں کچھ کمی آئی
ہے اب بلدیہ اور واٹر بورڈ میں گھوسٹ ملازمین کی چھان بین کرکے انھیں
اداروں سے فارغ کیا جارہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومت اور
وفاقی حکومتوں نے اس خلاف ضابطہ کام پر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی ایم کیو
ایم کی دہشت گردی سے بڑے بڑے لوگ بھی پناہ مانگتے تھے۔
اب ایک اور اہم مسئلہ جس کی وجہ سے ہمارے خزانے پر اربوں روپوں کا بوجھ
پڑرہا ہے ۔ابھی کچھ دن قبل ملک کے معروف صحافی جناب انصار عباسی نے ایک
رپورٹ شائع کی ہے کہ ہماری عدلیہ کے ججز حضرات اور فوج کے جنرل حضرات جب
ریٹائر ہوتے ہیں تو انھیں کسی جگہ دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھ لیا جاتا ہے اکثر
تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سینئر حضرا ت دوران ملازمت ہی اپنے اثر و رسوخ
سے اپنی سیٹنگ کر لیتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ لاکھوں روپئے تنخواہ پر
ملازم ہوجاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاکھوں روپئے پنشن الگ سے لے رہے
ہوتے ہیں ․ اس رپورٹ میں ایک صاحب کی مثال بھی دی گئی ہے کہ وہ کنٹریکت پر
24لاکھ روپئے ماہلانہ تنخواہ لے رہے ہیں اور لاکھوں روپئے پنشن بھی الگ سے
لے رہے ہیں اس طرح قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑرہا ہے ۔ 12فروری کے
اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے پر غور و
خوض کیا گیا لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ اجلاس میں یہ کہا گیا یہ
بڑا حساس موضوع ہے اس پر غور فی الحال ملتوی کردیا جائے یہ تجویز دی گئی
تھی جو ریٹائرڈ ملازمین کنٹریکٹ پر ملازمت کریں ان کی پنشن ان کی ملازمت کی
مدت تک روک لی جائے اور جب ان کا کنٹریکٹ ختم ہو جائے ان کی پنشن جاری کردی
جائے لیکن کابینہ کے اجلاس میں اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ایسا لگتا ہے
ان سینئر حضرات یعنی ججز اور جنرلوں کے معاملات پر کوئی فیصلہ کرتے ہوئے
وزیر اعظم کے بھی پر جلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔
|