آنے والے کچھ دنوں میں کرناٹک سمیت مختلف ریاستوں میں
بجٹ پیش کیاجانے والاہے،اس بجٹ میں جہاں الگ الگ محکمے اور شعبے اپنے اپنے
ترقیاتی منصوبوں کوپیش کرتے ہوئے بجٹ منظور کروانے کی کوشش کرینگے،وہیں
مسلمان روایتی طور پر اپنے قبرستانوں، مزاروں، درگاہوں اور مسجدوں کے
کمپائونڈ کیلئے مخصوص بجٹ منظور کروانے کی کوشش کرینگے۔یہ اس لئے ہم کہہ
رہے ہیںکہ ملک میں آزادی کے بعد سے یہی ہوتاآیاہے۔جہاں دلت وپسماندہ
طبقات اپنی قوموں کی تعلیمی ترقی،سماجی انصاف وروزگارکیلئے مطالبے کرتے رہے
ہیں وہیں ملک کے مسلمان ہمیشہ سے ہی ایسی ہی باتوں پر توجہ دیتے رہے ہیں ،جو
زندوں سے نہیں مردوں سے منسلک ہیں، اگر آزادی کے بعد سے اب تک زندوں کیلئے
کچھ مانگے ہوتے تو یقیناً بھارت کے مسلمان بے بس ولاچارنہیں ہوتے۔کچھ سال
قبل تک مرکزمیں حج سبسڈی کا مطالبہ ہوتا رہا،تو کرناٹک میں حج ہائوز کا
مطالبہ کیاجاتارہا،اسے دیکر مرکزی و ریاستی حکومتیں مسلمانوں کو خوش خوش
کردیتی تھی اور مسلمان خوشی کے مارے نہیں سماتے تھے۔حالانکہ حج پر سبسڈی
اورحج گھر کی ضرورت دونوں ہی چیزیں اجتماعی ضرورت کی نہیں تھی،بلکہ مالدار
مسلمانوں کی ضرورت تھی اور حج گھر سال میں ایک دفعہ استعمال کرنے والامقام
تھا۔درحقیقت ہندوستانی مسلمانوں نے آزادی کے بعد اپنے حقیقی مسائل کیا ہیں
، اس پر ہی توجہ نہیں دی ہے اورنہ ہی توجہ دلوانے والوں کو سمجھنے کی کوشش
کی ہے،ان کے نزدیک جذباتی تقریریں کرنے والے لیڈران ہی حقیقی قائد رہے ہیں
،الیکشن کے موقع پر بریانی و500 روپئے ہی دینے والے لیڈرہیں ،عرس کے موقع
پر چادر چڑھانے والے اور اجتماع کے موقع پر دعامیںشامل ہونے والے لوگ ہی
لیڈران ہیں۔ہمارے پاس اب تک ہماری بنیادی ضروریات کی فہرست نہیں بن پائی
ہے۔آج تک مسلمانوں نے سماجی انصاف حاصل نہیں کیا،آج تک مسلمانوں نے تعلیم
اور روزگارکے شعبے میں طئے شدہ ریزرویشن حاصل نہیں کیابلکہ جو ریزرویشن
2Bکے زمرے میں دیاہے اُسی میں سے مسلم،سکھ عیسائی،بدھسٹ،جین،پارسی قوموں
کیلئے بانٹ چھانٹ کر دیاہے۔اب حالت یہ ہے کہ نئی نئی قوموں کے لوگ گروہ در
گروہ آکر اپنا حصہ مانگ رہے ہیں تو حکومت اقلیتوں کے زمرے کو چھانٹنے کی
تیاری میں ہے۔یقیناً مسلمان لاچار ضرورہیں لیکن ان کی لاچاری کاجس طرح سے
استحصال کیاجارہاہے وہ اسے ریپ ہی کہاجاسکتاہے۔مسلمانوں کو اب مردوںکیلئے
زندوںکیلئے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے،قوم کے پاس اب دفنانے کیلئے قبرستان
بہت ہیں،اگرموجودہ قبرستان بھر گئے ہوں تو اُسے سات بار استعمال کرنے کی
گنجائش ہے،اگر یہ بھی ممکن نہ ہوا توقوم کےمالداروںکےپاس زمینیں ہیں۔کوئی
نہ کوئی خدا کابندہ قبرستان کیلئے اپنے مُردوںکیلئے زمین دے دیگا،لیکن
روزگارکے وسائل نہ ہر مالدار بنا سکتاہےنہ کوئی مالدار سرکاری نوکری
دلاسکتاہے،نہ ہر پیسے والامسلمانوں کو کالج بنا کر دے سکتاہے نہ ہی
مسلمانوں کو پروفیشنل کورسس میں ریزرویشن دلواسکتاہے۔اس صورت میں مسلمان
حکومتوں سے اپنے لئے تعلیمی ،روزگاراور سماجی ترقی کیلئے ریزرویشن کا
مطالبہ کریں توہی مسلمانوں کی ترقی ممکن ہے۔ہمارے درمیان جو سیاسی لیڈران
ہیں وہ ایک طرح سے مسلمانوں کوبندرکی طرح ناچ نچانے والے مداری ہیں،بہت
پہلے ہی قو م کے لیڈران اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اب جو لوگ ہیں وہ
مسلمانوںکے لیڈرنہیں بلکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں عہدے دئیے جارہے
ہیں۔سیاسی جماعتیں اور حکومتیں پہلے کے قائدین کو لیڈرومنسٹر اس لئے بناتے
تھے تاکہ وہ مسلمان لیڈر اپنی قوم کیلئے کچھ کریں۔انہیں قوم کی قیادت اور
مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی تھی۔لیکن اب کے لیڈروں کی شناخت و
ذمہ داری بدل چکی ہے انہیں صرف اورصرف پارٹی کے وفادار ہونے اور اپنے سیاسی
لیڈروں کے چاپلوس ہونے پرہی وزارت دی جاتی ہے۔اس لئے مسلمانوں کی ذمہ داری
یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان اپنی ضرورت کے مطابق اپنے لیڈروں کی تشکیل دیں ،ہر
کوئی ایراغیرا لیڈر نہیں بن سکتانہ ہی وہ مسلمانوں کے مسائل حل کرسکتاہے۔اب
وقت آگیاہے کہ مسلمان قبر کو جانے سے پہلے ہی اپنا حق لے لیں،ورنہ آج
جیسے ہمارے لیڈران ہمارے اجدادکی قبروں پر سیاست کررہے ہیں وہی کل ہماری
قبروں پر بھی کرینگے۔
|