زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
وطن عزیز میں کئی فلمیں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری
ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ دن بھر انہیں پارلیمنٹ ہاوس تک جانے سے روکنے کے
لئے شدید لاٹھی چارج کیا جاتا رہا۔ اتنی آنسو گیس برسائی گئی کہ ریڈ زون کا
پورا علاقہ بادلوں تلے چھپ گیا۔ ادھر سے پتھر برسائے جاتے رہے۔ گیس کے شیل
اٹھا اٹھا کر پولیس کی طرف پھینکے جاتے رہے۔ ٹیلی ویژن چینلز دن بھر یہ
مناظر دکھاتے رہے۔ اپوزیشن رہنماوں نے ہمدردی میں بیانات جاری کئے۔ وزراء
نے بتایا کہ معاملات طے ہو گئے تھے لیکن سرکاری ملازمین طے شدہ معاہدے سے
منحرف ہو گئے ہیں اور نئے مطالبات لے آئے ہیں۔ مظاہرین کو سب سے اچھا اور
قابل عمل مشورہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب
ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاوس کے خرچے کم ہو گئے ہیں تو سرکاری ملازمین بھی
تنخواہوں میں اضافے کے بجائے اپنے خرچے کم کریں۔ یہ کالم لکھتے وقت بھی
سینکڑوں سرکاری ملازمین اسلام آباد ریڈ زون میں جمع ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ
معاملات طے پا گئے ہیں لیکن ملازمین نوٹی فیکیشن کے اجراء تک احتجاج ترک
کرنے پر آمادہ نہیں۔ نہایت ہی افسوس ناک خبر ہے کہ پولیس کا ایک اہلکار
آنسو گیس سے شدید متاثر ہوا۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زندگی کی بازی
ہار گیا۔ اب اس غریب اہلکار کے اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے؟ وہ کس طرح کے
مسائل سے دوچار ہوتے ہیں؟کسی کو کچھ خبر نہیں ہو گی۔ چند دنوں بعد اسے بھلا
دیا جائے گا۔
احتجاج دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔ احتجاج کا مقصد کچھ بھی ہو، اس کی
نوعیت جیسی بھی ہو، انتظامیہ پہلے سے اس کی تیاری کرتی اور احتجاج کرنے
والوں سے مل کر حکمت عملی بنا لیتی ہے۔ اسلام آباد احتجاج سے یوں لگتا ہے
کہ پہلے سے معلوم ہونے کے باو جود اس سلسلے میں موثر منصوبہ بندی نہیں کی
گئی۔ راتوں رات مظاہرین کے درجن بھر رہنماوں کو گرفتار کر لیا گیا جس کی
وجہ سے اشتعال پھیلا۔ جگہ جگہ کنٹینر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔
تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیجئے کہ مظاہرین نظم و ضبط کے ساتھ، پارلیمنٹ
ہاوس کے سامنے تک چلے جاتے، نعرے لگاتے یا وہاں دھرنا دے دیتے تو اس سے کیا
فرق پڑتا؟ طاقت آزمائی کی وجہ سے جو تماشا لگا اس نے ایک طرف حکومت کے بارے
میں بے حکمتی کا تاثر قائم کیا اور دوسری طرف سرکاری ملازمین سے ہمدردی میں
اضافہ ہوا۔ یہ بات تو اب سمجھ لینی چاہیے کہ آنسو گیس، لاٹھی چارج یا
گولیاں برسانے اور گرفتاریاں کرنے کے حربے پرانے ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)
ابھی تک ماڈل ٹاون سانحے کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ وہ جتنی بھی کوشش کرلے، اس
بوجھ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی۔ مشرف دور آمریت میں چیف جسٹس افتخار
محمد چوہدری کا دورہ ناکام بنانے کے لئے کراچی میں جو قتل و غارت ہوئی، اسے
آج بھی لوگ نہیں بھولے۔ نہ مشرف اس ناحق خون سے نجات حاصل کر سکے، نہ ایم ۔کیو۔
ایم۔ دنیا میں بڑے بڑے احتجاج امن و سکون سے گزر جاتے ہیں۔ اور جب کسی
احتجاج کی نوعیت کلی طور پر غیر سیاسی ہو تو اس کے بارے میں اچھی حکمت عملی
تیار کرنا کوئی ذیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا حکومت کو سرکاری ملازمین کی حالت
زار کا اندازہ نہیں؟۔ کیا یہ جاننا مشکل ہے کہ موجودہ دور حکومت میں
تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے باعث ان ملازمین پر کیا گزر رہی ہے؟ مہنگائی
آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دو وقت کی دال روٹی مشکل ہو گئی ہے۔ اوپر سے گیس
اور بجلی کے بلوں نے ایسی قیامت ڈھائی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پھر پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اوپر سے دوائیں
لوگوں کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ گھر میں پڑے مستقل مریضوں اور بڑے
بوڑھوں کے لئے دوائیں لانے کے لئے سوچنا پڑتا ہے کہ کیا کیا جائے۔ پھر بچوں
کی فیسیں ، کتابیں، تعلیم کے اخراجات۔ موت ، شادی بیاہ اور جانے کیا کیا
کچھ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری ملازم اپنی لگی بندھی آمدنی میں کیا کرئے؟
دو سال پہلے والی تنخواہ آج کی مہنگائی کے دور میں نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔
اس دور میں یہ ہوا کہ بجٹ میں حکومت نے سرکاری ملازمین کو یکسر نظر انداز
کر دیا اور ان کی تنخواہوں میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں کیا۔ دوسری طرف
ڈالر کی قدر میں تقریبا چالیس فی صد اضافہ ہونے سے ملازمین کی جیب میں آنے
والا ایک روپیہ صرف ساٹھ پیسے کا رہ گیا۔ ان سرکاری ملازمین میں دفتروں ،
سرکاری اداروں، مختلف محکموں میں کام کرنے والوں، طبی عملے کے افراد اور
اساتذہ بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ایسی جائزہ رپورٹیں بھی شائع ہوئی ہیں جن
میں بتایا گیا ہے کہ معاشرے کے کم آمدنی والے گھرانوں کو اپنے گھریلو اثاثے
بیچ کر گھر کے خرچے چلانا پڑے۔
پھر جب یہ خبریں چھپتی ہیں کہ اسی پاکستان میں ایسے افراد بھی ہیں جن کی
ماہانہ تنخواہیں بیس ، پچیس لاکھ سے بھی ذیادہ ہیں۔ انہیں بے تحاشا مراعات
بھی حاصل ہیں۔ بعض اداروں کی تو پنشنیں بھی دس دس، پندرہ پندرہ لاکھ روپے
ماہانہ تک ہیں۔ تو ان خبروں سے کم آمدنی والے ملازمین کی ذہنی اور جذباتی
کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد کے مظاہرے میں لیڈی ہیلتھ
ورکرز بھی شامل تھیں، جو پتہ نہیں کتنے عرصے سے احتجاج کر رہی ہیں لیکن
شنوائی نہیں ہو رہی۔ بلوچستان کی تمام کنٹرکٹ نرسز نے بھی تین ماہ سے
تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی بنا پر احتجاج کا علان کر دیا ہے۔ ایسا ہی
مظاہرہ اساتذہ بھی کر چکے ہیں۔ ڈاکٹرز بھی کسی نہ کسی جواز پر احتجاج کرتے
رہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ان تمام معاملات اور مسائل کو یکجا کر کے
کسی حکومتی کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے جو ایک ماہ کے اندراندر ان کا جامع
حل تجویز کرئے۔
سرکاری ملازمین ہی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب وہ ریٹائرڈ ہو کر
گھروں کو چلے جاتے ہیں تو ان کی پنشن بھی برائے نام ہی ہوتی ہے۔ گریڈ سترہ
تک کی پنشن سے تو آج بجلی کا بل ادا کرنا بھی ممکن نہیں۔ ماضی میں جب
ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا تھا تو پنشن بھی کسی قدر بڑھ جاتی تھی۔
اس دور حکومت کے بجٹ میں جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں جامد رہیں وہاں
پنشنروں کی پنشن میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔ نہایت ہی محدود اور برائے نام
پنشن پانے والے لوگ کس حال میں ہیں ، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں غربت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ نادار لوگوں کی تعداد
ایک چوتھائی کو چھو رہی ہے جسے نہایت افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔
بے شمار مسائل میں الجھی حکومت کے پاس ان مسائل کے بارے میں سوچنے کا کچھ
تو وقت ہونا چاہیے۔
|