ایوان ِ پارلیمان کے بجٹ اجلاس میں کسانوں کے مسئلہ خوب
بحث ہوئی ۔ ارکان پارلیمان نے اپنے اپنے انداز میں حکومت کو اس کی غلطی
سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن اس بے حس سرکار پر اس کا کوئی اثر
نہیں ہوا بالآخر وہی ہواکہ پرنالہ وہیں گرے گا۔ وزیر اعظم نے ہٹ دھرمی
دکھاتے ہوئے بحث کے جواب میں کہا کہ ’’ کورونا دور میں تین زرعی قوانین
لائے گئے۔ یہ زرعی اصلاحات کا سلسلہ انتہائی ضروری ہے، بہت ہی اہم ہے اور
برسوں سے جو ہمارا زرعی شعبہ چیلنج محسوس کر رہا ہے، اس کو باہر لانے کی
کوشش ہے۔ ہم نے ایمانداری سے اس جانب قدم بڑھایا ۔زرعی سیکٹر کے ان چیلنجز
کو ہمیں ابھی سے ڈیل کرنا پڑے گا‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تحریک
کے باوجود سرکار ان قوانین کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ایسے میں
کسانوں کے اتحاد سنیوکت کسان مورچہ کا یہ بیان درست معلوم ہوتا ہے کہ سرکار
کا اڑیل رویہ تحریک کو بڑھاوا دینے کا سبب بنا ہوا ہے۔مورچہ نے وزیراعظم کی
مذمت کرنے کے بعد اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ حکومت اگر کسانوں کے جائز
مطالبات کو تسلیم کرلے تو انہیں اپنے کھیت میں واپس جاکر کاشتکاری کرنے میں
خوشی ہوگی۔
وزیر اعظم نے چونکہ تحریک چلانے والوں کا تمسخر بھی اڑایا اس لیے کسان
رہنماوں نے الٹا پی ایم کو یاد دلایاکہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو تحریک
کے ذریعہ ہی آزادی ملی ہےاس لیے انہیں تحریک چلانے پر ناز ہے۔ مورچہ نے
کہا آزادی پر جب بھی آنچ آئے گی اس کے خلاف تحریک چلائی جائے گی ۔ کسان
مورچہ نے کہا کہ بی جے پی اور اس کے آباو اجداد نے برطانوی سامراج کے خلاف
آزادی کی جدوجہد میں کبھی بھی حصہ نہیں لیا اور وہ اب بھی عوامی تحریک سے
خوفزدہ ہے۔ یہ بالکل درست مشاہدہ ہے ۔ جب بھی ملک میں آزادی کی بات کی
جاتی ہے یہ لوگ چونک پڑتے ہیں ۔ ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ملک کےعوام جب
’ہم لے کہ رہیں گے آزادی‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کو سنتے ہی ان کے تن
بدن میں اسی طرح آگ لگ جاتی ہے جیسے انگریزوں کو لگتی تھی اور اس کو کچلنے
کے لیےیہ اسی طرح کے جبرو استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے انگریزی سامراج
کیا کرتا تھا ۔ فسطائی طاقتیں آزادی کے نعرے کو کشمیر کی خود مختاری سے
جوڑ کر علٰحٰیدگی پسندی قرار دے دیتی ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔
سنگھ پریوار کی تاریخ کا یہ سیاہ ترین باب ہے کہ وہ اور ہندو مہا سبھا
انگریزوں کے خوف سے برطانوی سامراج کے وفادار بن گئے تھے ۔ ان کے پاس ایک
بھی ایسا رہنما نہیں ہے جس کو وہ مجاہدِ آزادی کے طور پر پیش کرسکیں ۔ اسی
لیے وہ کانگریس پارٹی کے رہنماوں مثلاً سردار ولبھ بھائی پٹیل یا سبھاش
چندر بوس کو وراثت پر قبضہ کرنے کے لیے ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں اور پنڈت
نہرو کوان سب کو مخالف بتا کر اپنا ہمنوا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی
راجیہ سبھا کی تقریر میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا حوالہ دے کر وزیر اعظم
نے کہا کہ پٹیل ملک کے غریب کسانوں سے متعلق کہاکرتے تھے آزادی حاصل
ہوجانے کے بعد بھی اگر غلامی کی بو آتی رہے تو آزادی کی خوشبو نہیں پھیل
سکتی ۔ یہ درست بات ہے لیکن ایک سوال یہ ہے مودی جی اپنے سو سال پرانے سنگھ
کے کسی رہنما کا اس طرح کا بیان پیش کرنے سے کیوں قاصر ہیں ؟ حد تو یہ ہے
کہ مودی جی نے اپنی حالیہ راجیہ سبھا کی تقریر میں کسانوں کے تعلق سے چار
سابق وزرائے اعظم کا حوالہ دیا ۔ ان میں سے دو یعنی لال بہادر شاستری اور
منموہن سنگھ تو کانگریسی تھے اور چودھری چرن سنگھ وایچ ڈی دیوے گوڑا کا
تعلق لوک دل اور جنتا دل سے تھا ۔ اس ملک میں اٹل بہاری واجپائی کو ۶ سال
حکومت کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی مودی جی کی مانند فن خطابت کے ماہر تھے
۔ آخر ان کی بے شمار تقاریر میں مودی جی کو کسانوں کی حمایت کرنے والاایک
بھی قابلِ ذکر جملہ کیوں نہیں مل سکا؟
کسان رہنماؤں کو بدنام کرنے کے لیے جب پیشہ ور اور طفیلی جیسے القاب سے بات
نہیں بنی تو وزیر اعظم نے ایف ڈی آئی کی ایک نئی اصطلاح پیش فرمادی ۔ایف
ڈی آئی عام طور پر(Foreign direct Investment ) یعنی غیر ملکی سرمایہ کاری
کا مخفف سمجھاجاتا ہے۔ موجودہ حکومت چونکہ سرمایہ داروں سے خاص ہمدردی
رکھتی ہے اس کی دیسی اور بدیسی سرمایہ داروں کے لیے مختلف سہولتیں فراہم
کرتی رہتی ہے اور ایف ڈی آئی میں اضافہ پر بغلیں بجاتی ہے۔ اب تو انشورنس
میں بھی سرکار نے ۷۵ فیصد تک غیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے
اور اس کے لیے آئینی ترمیم کی تیاری کررہی ہے مگر وزیر اعظم نے اس کا ایک
نیا مطلب سمجھا دیا ۔ انہوں نے ایف ڈی آئی کو غیر ملکی تباہ کن نظریات
(Foreign destructive Ideology) کی اصطلاح کے طور پر متعارف کرایا اور اس
سے ہوشیارکرتے ہوئےبچ کر رہنے کی تلقین کی ۔
وزیر اعظم اس بابت دو باتیں بھول گئے ۔ سب سے پہلے تو جس سرمایہ داری کی
انہوں نے راجیہ سبھا میں کھل کر وکالت کی ہے وہ بھی ایک غیر ملکی تباہ کن
نظریہ ہی ہے۔ اس لیے ایک طرف تو غیر ملکی نظریات کی مخالفت کرنا اور اس کے
ساتھ انہیں نافذالعمل کرنے کی سعی کرنا منافقت نہیں تو کیا ہے؟ اپنے
پسندیدہ سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر وہ اپنے وقار کو داغدارکرنا اور ان
کی خوشنودی کے لیے ملک کے کسانوں کو کچلنا حماقت نہیں تو کیا ہے۔ یہ تو خیر
عصرِ حاضر کا تضاد ہے لیکن یہ بات کون نہیں جانتا کہ دوسرے سر سنگھ چالک
گرو گولوالکر جرمنی کی نازیت کے بہت بڑے حامی تھے اور اس کے نقشِ قدم ہندو
ستان میں آریہ یا برہمنی نسل کشی کی وکالت کرتے تھے ۔
ہندوتواوادیوں کی تاریخ میں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس کے عظیم مفکر
ڈاکٹر مونجے اطالوی فسطائیت سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے اٹلی کا
سفر کیا اور معروف فاشسٹ رہنما مسولینی سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تاکہ اس
کے افکارو نظریات کو ہندوستان میں در آمد کیا جاسکے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ
سنگھ پریوار کو اطالوی بہو سونیا گاندھی سے تو بڑی نفرت ہے لیکن بدنام
زمانہ فسطائی ڈکٹیٹر بینیتو امیلکارے آندریا مسولینی سے بڑا پیار تھا۔ سنگھ
کے اس منظور نظر نےا قتدار میں آ کر ۵ لاکھ آدمی محض اس لیے موت کی بھینٹ
چڑھا دیے کہ اسے بیسویں صدی کا ’’جولیس سیزر‘‘ کہا جائے۔ یہ ہے تباہ کن غیر
ملکی نظریہ جس ہندوتونوازوں نے ملک میں درآمد کرنے کی کوشش کی تھی ۔ علامہ
اقبال نے مسولینی کے کے من کی بات اپنے الفاظ میں بیان کی ہے اور اس میں وہ
اپنے جبرو استبداد کو اس طرح حق بجانب ٹھہراتا ہے ؎
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم
بے محل بِگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو بُرا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تُو چھلنی میں چھاج
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زُجاج
وزیر اعظم کو چاہیے کہ دوسروں کو ایف ڈی آئی سے متنبہ کرنے کے بجائے خود
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اس لیے کہ غیر ملکی تباہ کن نظریات کو در
آمد کرنے کی پختہ روایت تو سنگھ کی ہے اور موجودہ سرکار غیر اعلانیہ طور
پر اسی راستے پر گامزن ہے۔ سنگھ کے ذہین ترین لوگ آج بھی دنیا بھر سے ایسے
گمراہ کن نظریات و اصطلاحات کو نہ صرف در آمد بلکہ ایجاد کرنے میں مصروف
عمل رہتے ہیں۔ یہ طرز عمل خود ان کے اپنے اور دوسروں کے لیے تباہ کن ہے۔فی
الحال ملک میں یہ صورتحال ہے کہ سنگھ کے بہترین دماغ اپنی نت نئی اختراعات
مثلاً ایف ڈی آئی کو اصطلاحات کا جامہ پہنا کر وزیر اعظم کو تھماتے رہتے
ہیں ۔ پردھان سیوک کی ذمہ داری انہیں اچھالنا یا پھینکنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
سوشیل میڈیا میں جب راہل گاندھی کے لیے’پپو‘ کا لقب ایجاد ہوا تو نریندر
مودی کو پھینکو کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ خیر وزیر اعظم کی اچھالی ہوئی
ہر گیند کو لپکنے کے لیے سعادتمند گودی میڈیا ہمیشہ مستعد رہتا ہے۔ وہ اسے
ہوا میں اس وقت تک اچھالتا رہتا ہے جب تک کہ ناظرین اس کو جھیلتے جھیلتے
تھک نہ جائیں یا وزیر اعظم کوئی نیا شوشہ نہ چھوڑ دیں ۔ ویسے میڈیا بہت
زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا، بہت جلد ان کی من مراد پوری ہوجاتی ہے۔ راہل
گاندھی نے سوٹ بوٹ والی سرکار کے بعد کے ہم دو ہمارے دو کا نعرہ دیا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی والے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا شوشہ
چھوڑتے ہیں؟
|