2019 کے آخر میں مستونگ کے قریب کمشنر مکران, طارق زہری کی گاڑی کا تیل
بردار ایرانی گاڑی زمیاد سے تصادم ہوا جس کے نتیجے میں کمشنر طارق زہری
ڈرائیور سمیت جل کر ہلاک ہوگئے. اس اندوہناک حادثے کے بعد سیکرٹری بلوچستان
کی جانب سے صوبائی شاہراہوں پر تیل اور ڈیزل کی غیر قانونی ترسیل کے خلاف
کاروائی کا فیصلہ کیا گیا اور اسی کی رو سے گزشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان
کی ہدایت کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ نے چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز کو غیر
قانونی ڈیزل اور پٹرول کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہدایات جاری کیں. چیف
سیکریٹریز نے مطلقہ حکومتی ایکزیکٹیو آرڈر کی روشنی میں ایف سی, کسٹم اور
دیگر لا اینڈ انفورسمینٹ ایجینسیز کو مزید احکامات جاری کیے.
درج بالا مذکورہ واقع کے علاوہ بھی بلوچستان کی سڑکوں پر آئے روز ان تیل
بردار گاڑیوں کا تصادم مختلف چھوٹی, بڑی گاڑیوں اور بسوں سے ہوتا رہا ہے.
ان حادثات کے نتیجے میں لوگوں کی اموات اور جلنے کے واقعات ظہور پذیر ہوتے
رہے ہیں. مگر ان حادثات کا ذمہ دار صرف اور صرف ان تیل بردار گاڑیوں اور ان
کے مالکان پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا. اگر ان واقعات کے اصل
وجوہات کا جائزہ لیں تو اس کے پس پردہ مزید ذمہ دار عوامل بھی ہیں. جیسے کے
اس ترقی یافتہ دور میں اتنے بڑے, معدنیات اور سونے کے ذخائر سے مالا مال
صوبے کو دوسرے صوبوں سے ملانے کے لیے صرف ایک سنگل سڑک ہے. حالانکہ یہاں
موٹر وے نہیں تو کم از کم ڈبل روڈ ضرور ہونا چاہیے تھا جو کوئٹہ کو کراچی
اور پنجاب سے ملائے. اس کے علاوہ گاڑیوں کی رفتار کو کنٹرول میں رکھنے کے
لیے کوئی رول, ریگولیشن, چیک اینڈ بیلینس نہ ہونے کی وجہ سے بھی گاڑیوں کا
تصادم ہوتا رہتا ہے. تیررفتاری اور غیر لائسنس یافتہ کم عمر ڈراؤر بھی ان
حادثات کے کئی حد تک ذمہ دار ہیں. کیونکہ مذکورہ بالا فیصلے پر عمل درآمد
کرنے کے باوجود اب بھی ایکسیڈنٹ کے واقعات اسی رفتار سے آئے دن ظہور پذیر
ہو رہے ہیں.
اس ایکزیکٹو آرڈر کے سلسلے میں اگر بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو
زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایرانی تیل کی سمگلنگ پر
پابندی سے ملک کے باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان معاشی طور پر سب سے زیادہ
متاثر ہوا ہے. بلوچستان کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے پر اس کا بلواسطہ یا
بلاواسطہ اثر پڑا ہے. 2017 کی مردم شماری کے لحاظ سے بلوچستان کی کل آبادی
تقریباً 12344408 ہے اورایک محتاط تخمینے کے مطابق تیل کے قانونی یا غیر
قانونی ذریعہ معاش سے براہ راست منسلک لوگ بلوچستان کی آبادی کا دس سے بارہ
فیصد ہیں جو کہ آٹھ سے دس لاکھ کے قریب ہیں. روزانہ سینکڑوں ٹینکرز اور
دیگر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں سے تیل یہاں سے منتقل ہوتا تھا. اس پابندی
سے متعلقہ علاقوں جن میں پنجگور, مند, تمپ, ماشکیل, دالبندین, چاغی, تافتان
وغیرہ شامل ہیں, ایک طرف بے روز گاری عروج پر پہنچ گئی ہے تو دوسری طرف
ملکی معیشت کو بھی تقریباً سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے.
جو لوگ براہ راست اس پیشے سے منسلک ہیں ان کے ذریعہ معاش کو دھچکا لگنے کے
ساتھ ان افراد کا بھی روز گار متاثر ہوا ہے جن کا گزر بسر اس کاروبار کے
مرہون منت ہے جیسا کہ گاڑی چلانے والے ڈرائیور, کلینڈر, ٹائر اور پنکچر
والے دکاندار, گاڑی خریدنے اور بیچنے والے شوروم کے مالکان,کھانے پینے کے
اور رہائشی ہوٹل کے مالکان وغیرہ. ان سب کے علاوہ اس فیصلے سے عام عوام بھی
بہت حد تک متاثر ہوئی ہے. ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت, ایک علاقے سے دوسرے
علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل, ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں
بوجہ ضرورت یا علاج معالجہ اور خریداری کے لیے آنا جانا. مختلف علاقے کے
لوگوں کا آپس میں نزدیکی رشتہ داریاں ہونے کی وجہ سے اچھے برے دنوں میں آپس
میں ایک دوسرے سے روابط کے لیے آنا جانا وغیرہ, یہ سب معمولات بھی بہت حد
تک متاثر ہوئے ہیں. اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان آبادی کے لحاظ سے
پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے مگر رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا
صوبہ ہے. یہ تقریباً 347190 مربع کلو میٹر رقبے پر محیط ہے جو کہ پاکستان
کے کل رقبے کا تقریباً ترتالیس اعشاریہ چھ فیصد بنتا ہے. بلوچستان کے آبادی
والے علاقے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر ہیں. جنہیں ایک دوسرے سے ملانے
کے لیے کچے راستے ہیں. تین لاکھ سینتالیس ہزار کلو میٹر رقبہ کے چوالیس
ہزار میں سے صرف چھ ہزار کلو میٹر کے روڈ کم و نا کم پختہ ہیں. باقی سارے
روڈ کچے ہیں. یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری یا پھر ایران اور
افغانستان سے قانونی اور غیر قانونی تجارت ہے جس میں اشیائے خوردونوش کے
علاوہ پٹرولیم اور ڈیزل کا کارو بار بھی ہے. اس صوبے کی ایران کے ساتھ
تقریباً 400 کلومیٹر اور افغانستان کے ساتھ تقریباً 1150 کلومیٹر طویل
سرحدیں ہیں.انفرا سٹرکچر اور سڑکوں سے ماورا تینتیس اضلاع کے لوگوں کا ایک
علاقے سے دوسرے علاقے کا سفر زیادہ تر انہی کچے راستوں سے ہوتا ہے جہاں دور
دور تک کوئی ذریعہ معاش, آبادی, یا تیل کے رجسٹرڈ کمپنیوں کے پٹرول پمپ
کوئٹہ کے علاوہ باقی ضلعوں میں دستیاب نہیں ہیں, جہاں قانونی تیل کی فراہمی
ممکن ہو سکے.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر
کرنا بغیر تیل یا ڈیزل کے کیسے ممکن ہوتا ہے. یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش
زیادہ تر زرعی فصلوں اور ان کی ترسیل سے وابستہ ہے جو کہ تیل کی فراہمی کے
بغیر بالکل ممکن نہیں.
جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان ایشیاء کا قدرتی وسائل سے مالا مال امیر ترین
خطہ ہے مگر بدقسمتی سے یہاں کی مقامی آبادی پسماندگی میں دنیا بھر میں پہلے
نمبر پر ہیں.
عالمی بینک کے گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 30
فیصد ہے. جبکہ بلوچستان میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے 42.2 فیصد ہے اور اگر
دیہی آبادی کے حساب سے اس رپورٹ کو دیکھا جائے تو یہ بلوچستان کے دیہی
علاقوں میں 62 فیصد بنتی ہے. بھوک اور افلاس سے مرتے لوگوں نے مجبوراً یہ
غیر قانونی کاروبار شروع کیا مگر حکومت نے بجائے اسی درست سمت دینے کے
دوبارہ ان بارہ لاکھ افراد کو بھوک اور افلاس کی جانب دھکیل دیا.
اصول اور ضوابط انسانوں کے لیے بنتے ہیں. انسانوں کو ان کی وجہ سے در بدر
نہیں کیا جاسکتا ہے. اس طرح کی اصطلاحات لانا اور غیر قانونی کاروبار کو
ختم کرنا بلاشبہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہم سب کو اس فیصلے کو
سراہنا بھی چاہیے مگر ریاست کی ایک اہم اور اولین ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے
کہ کسی بھی علاقے کے لوگوں کو غیر قانونی کاروبار سے پاک کرنے کے لیے وہاں
کے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کا کوئی نہ کوئی متبادل انتظام ضرور پیدا کرے
تاکہ اس علاقے کے لوگ بھوک اور افلاس سے نہ مریں کیونکہ کاروبار غیر قانونی
ہو سکتا ہے مگر زندہ رہنے کے لیے تگ و دو کرنا اور دو وقت کی روٹی کمانا ہر
گز غیر قانونی نہیں. کسی ریاست کا اصل مقصد اس علاقے کے رہنے والوں کی
زندگیوں کو آسان بنانا ہے نہ کہ مزید مشکلات کی جانب دھکیلنا اور غریب سے
اس کے جینے کا حق بھی چھیننا ہے. حکومت کے اس فیصلے سے یہاں کے لوگوں کی
معاشی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یہ بے روز گاری مایوسی کو جنم دے چکی ہے. اس طرح
لوگ تنگ آکر منفی سرگرمیوں کی جانب بڑھ سکتے ہیں. جس میں چوری, ڈاکہ زنی
اور دشمن ملک کا آلہ کار بننا بھی شامل ہے. غربت, بے روز گاری, علاقوں کا
ایک دوسروں سے دور ہونا, سڑکوں کی عدم موجودگی بجلی, گیس اور بنیادی
ضروریات زندگی کی عدم دستیابی یہاں کے دیگر سنگین مسائل میں سے کچھ مسائل
ہیں جن سے نپٹنے کے لیے یہاں قانون میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے. قانون
لوگوں کے لیے بننے چاہیں نہ کہ لوگوں کو قانوں پر قربان کرنا چاہیے جہاں
بات لوگوں کے مفاد عامہ کی آجائے وہاں قانوں میں ترمیم کی گنجائش موجود
ہونی چاہیے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے جمہوری اداروں کا عمل میں لانا
ناگزیر ہوجاتا ہے. وفاقی اور صوبائی حکومت ملک دوستی اور عوام دوستی کا
ثبوت دیتے ہوئے اس خطے میں اتنا کام کریں کہ ترقی کا معیار فائلوں سے باہر
بھی نظر آئے اور لوگوں کو غیر قانونی ذریعہ معاش کی جانب نہ جانا پڑے. یا
پھر حکومت لوگوں کو ان کے جینے کا حق دیتے ہوئے کم سے کم اس کاروبار کو جس
سے لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش وابستہ ہے, ریگولائز کرے. یہاں کے عوام کو
بے روز گاری سے بچانے کے لیے خصوصی پالیسی مرتب کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت
ہے. اس سلسلے میں تیل بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لیے اسپیشل ڈرائیوئنگ
لائسینس کا اجرا ہونا چاہیے جو ہر خاص و عام کو نہ ملے. تیل کی ترسیل کے
لیے مخصوص روٹس مقرر کرنے چاہئیں, قومی شاہراؤں پر ان گاڑیوں کے گزرنے کا
وقت مقرر ہونا چاہیے.گاڑیوں کا حجم, سائز اور وزن کا معیار مقرر کرنا
چاہیے. تیل برآمد کرنے والی سرحدوں کے مخصوں پوائنٹس پر ریونیو ڈیپارٹمنٹ
کے عملہ کی تعیناتی کی جانی چاہیے. اس سے جہاں ایک طرف عوام کی حالت میں
خوش حالی آسکتی ہے تو دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریونیو
میں بھی پیسہ آسکتا ہے
|