تاشقند کو باغوں اور درختوں کا شہر کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا۔ لمبے گھنے درخت روڈ پر اس طرح پلاننگ سے لگائے گئے تھے کے آنے جانے
والی گاڑیوں کے لیئے بڑی سڑکیں۔ اور درمیان میں پیدل چلنے والوں کے لیئے
فٹپاتھ اور فٹپاتھ دونوں اطراف میں درختوں کی قطاریں۔ جیسے درختوں نے باہر
چلنے والوں کے لیئے چھت بنادی ہو۔ تاکے گرمی میں تسکین ملتی رہے۔ ساتھ ہی
سروس روڈ کے سامنے بڑی دیدہ زیب عمارتیں جو خاص طور پر سوویت زمانے کی
عکاسی کر رہیں تھیں دلکش نقش نگار والی عمارتوں نیچے دکانیں، ریسٹورینٹ بنے
ہوئے جسے لاہور کے مال روڈ پر انگریزوں کے دور میں بنائی ہوئی مارکیٹ ان کی
دلکشی کچھ ایسی کہ آج کے دور کی طرز و تعمیر ان کے آ گے کچھ معنی نہیں
رکھتی۔
چلتے ہوئے میں آزادی سکوائر تک آگیا جو ایک بڑے پارک کی طرح تھا۔کافی بڑی
اور لمبی سڑک تھی جس کی خوبصورتی اپنی مثال آپ تھی ڈھلتا ہوا سورج اور
مصنوعی روشنی کی آمیزش ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھی۔
سوویت دور میں بنائی جانے والی اس سژک کو پہلے لینن سکوائر کے نام دیا گیا
جو دوسری عالمی جنگ میں شہید ہونے والوں کی یادگار کے طور پر بنایا گیا
تھا۔کئی مجسمے آویزاں تھے تیمور لنگ کا جو ہاتھ میں تلوار لیئے گھوڑے پر
کچھ اس طرح سوار تھا جیسے ایک اور فتح کی طرف جا رہا ہو۔ ماں کے مجسمے تھے
جنہیں دیکھ کر طبییت افسردہ ہوگئی۔ اداس ماں جو راہوں میں نظر ڈالے جنگ پر
گئے ہوئے اپنے بیٹے کے انتظار میں بہٹھی ہے۔ اور ایک ماں اپنے چھوٹے سے
نومولد بچے کو گود میں لیا ہوا ہے۔ ماں کا کبھی نہ ختم ہونے والا انتظار
اور درد عیاں تھا ۔ وہیں پر آگ جلائی گئی ہے جو ہمیشہ وہاں جلتی رہتی ہے
تاکے ماں کے مسلسل رہنے والے درد کی آگ کو محسوس کیا جا سکھے۔ جب اس کا لخت
جگر جنگ پر جاتا ہے اور واپس نہیں آتا
سینیٹ، وزیر، پریزیڈنٹ سب کے آفسس اسی جگہ پر تعمیر کیئے گئے تھے۔ نئے شادی
شدہ جوڑے پیارکے بندھنوں میں بندھ کر ادھر کا رخ کیا کرتے تا کے وہ وقت کو
ہمیشہ کے لیئے تصویروں اور فلم میں محفوظ کروا پائیں۔ پارک نما جگہ پر
سالانہ آرمی پریڈ بھی ہوتی تھی، پیدل چلنے والوں کے لیئے ایک راستہ بنایا
گیا تھا۔ چلتے ہوئے آگے کچھ ریسٹوریںٹ بھی نظر آئے۔ ایک ریسٹورینٹ کے باہر
کھلے حال نما جگہ پر بہت سارے پینٹر حضرات ہاتھوں میں پبنسل اور برش لیئے
آتے جاتے لوگوں کی کچھ پیسوں عوض اسکیچ بنا رہے تھے۔ ایک ارٹست نے قریب آ
کر کہا سر آپ کا پورٹریٹ بنا دوں، یار پینٹیگ شاہکار لوگ بنواتے ہیں۔ میں
ایک عام سا آدمی ہوں ۔ مسکرا کر کہا اور آگے بڑہ گیا۔
بہت سارے غیر ملکی یہاں موجود تھے جو اپنی تصویریں ان آرٹسٹوں سے بنوا رہے
تھے۔ شام کا وقت اور مہکتی روشنی، پھولوں کی بھینی خوشبو، رنگوں سے بھرے
میلے ہاتھ، کرسوں پر بیٹھے لوگ اپنی تصویریں بنواتے ہوئے، ساری منظر نامہ
بہت خوبصرت سماں باندہ رہا تھا۔
واپسی میں میرے اپارٹمنٹ سے۲۰۰ یا ۳۰۰ میٹر دور شاستری ایوینیو کے نام سے
ایک سڑک تھی اپارٹمنٹ پر کانے کے لیئے ادھر سے گذر ہوا تو روڈ سائیڈ پر ہی
لال بہادر شاستری کا مجسمہ لگا ہوا تھا۔
لال بہادر شاستری انڈیا کے وزیراعظم تھے انہیں تاشقند میں دل کا دورہ پڑا
تھا۔ اور بھٹو صاھب کے بقول یہ دل کا دورہ ان کو خوشی کی وجہ سے ہوا تھا۔
اپنی فتح کو ہندستان نے روس کی سر رمین پر خوب سیلیبریٹ کیا اور خوب بھنگڑے
ڈالے۔ کیونکے ہندستان نے کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلا قرار دیا اور پاکستان
نے بنا کشمیر کو ڈسکس کیئے۔ ہندستان کی بات مان کر تاشقند پیکٹ سائن کر
دیئے۔ جو ہندستان کی بہت بڑی فتح تھی۔
بھٹو صاحب پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ اس میٹنگ میں جس کو تاشقند ڈکلیریشن
کا نام دیا گیا تھا اس میں روسی حکومت نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
اس وقت کے ایک سپر پاور سوویت یونین نے دونوں ممالک کے سربراہان کو روسی سر
زمیں پر آنے کو راضی کیا۔ اور روس ہمیشہ سے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے
معکف کو اقوام متحدو میں ویٹو بھی کرتا رہا، پھر بھی پاکستان روس میں
ہندستان سے مذاکرات کرنے راضی ہو گیا۔
۴ جنوری ۱۹۶۶ صدر ایرمارشل ایوب وزیر خارجہ ذلفقار علی بھٹو، ہندستان کے
وزیراعظم لال بہادر شاستری اور دونوں ممالک کے کیبنیٹ روسی دعوت پر مذاکرات
کے لیئے تاشقند آئے۔
پاکستان کی خواہش تھی مذاکرات میں کشمیر کو شامل کیا جائے اور ایوب بھی
چاہتے تھے اسی وجہ سے مذاکرات کئی دن تک تعطل کا شکار رہے۔ مگر سوویت صدر
نہیں چاہتے تھے کے مذاکرات بنا کسی نتیجے کے ختم ہو جائیں، سوویت صدر نے
ایوب کو قائل کرنے کے لیئے پےدرپے ملاقاتیں کی اور ایسی کیا خفیہ بات کی یا
جادو کیا کے وہ ڈرامائی طور پر یکسر بدل گئے ان کے حامی ہو گئے۔ کہنے لگے
کے معاہدے پر سائن کیئے بنا واپس جانا ہم کو زیب نہیں دیتا۔ مزاکرات کے
دوران بھٹو نے کسی نکتے پر مشورہ دینے کی کوشش کی تو ایوب نے چلا کر کہا کے
الو کا پٹھے بکواس بند کرو۔
مسٹر بھٹو نے دبے الفاظ میں کہا کے سر آپ یہ فراموش نہ کریں کے رشین وفد
میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ضرور موجود ہوگا۔
یہی وہ نکتہ آٖغاز تھا جہاں پر بھٹو اور ایوب کے راستے عملی طور پر الگ الگ
ہوئے، بھٹو صاحب نے واپس پاکستان آگئے۔ اور اپنی وزارت سے استفا دے دیا۔
اسی رات کو ہوٹل میں لال بہادر شاستری کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت
ہوا تھا۔
لال بہادر شاستری کے چہرے پر مجھے خوشی محسوس ہوئی۔ میں رک کر اس کے مجسمے
کو دیکھتا رہا۔ اس کی ہنسی قائم تھی۔ ابھی تک وہ ہنس رہا تھ جیسےا چڑا رہا
تھا اپنی جیت کی خوشی میں۔
جب تک میں وہاں رہا آتے جاتے شاستری جی کے پاس سے گزر ہوتا، وہ ہر دفعہ
مجھے دیکھ کر مسکراتے۔ میں شاستری سے آنکھیں چرا کر نکل جاتا۔ اس کی ہنسی
تھی کے بند ہونے کا نام ہی نہ لے مرنے کے بعد بھی سالا ہم پر ہنس رہا تھا۔
ایک دفعا میں نے سوچا رک جا تا ہوں پوچھ لیتا ہوں آخر تم اپنا منہ بند کیوں
نہیں کرتے۔ بہت ہوگیا مسکرانا۔
شاستری جی کے پاس آکے غصے میں کہا۔ ہار جیت زندہ لوگوں کے لیئے ہوتی ہے۔ تم
اسی رات مر گئے تھے۔ تھوڑی خوشی نے تجھے مار دیا۔ اب تو بس کر دو۔
|