شام ہو رہی تھی اپریل کے مہینے میں موسم
بھی خوشگوار تھا ،ریاض نے میرے پاس آکر پوچھا انکل آپ کو رنگون کیسا لگا ؟
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،’ بہت اچھا‘ اور آپ کے ساتھ ہونے سے تو بہت
ہی اچھا لگا۔ میری خوشی کو محسوس کرتے ہوئے اُس نے بڑی محبت سے کہا انکل،
آج تو میں مصروفیت کی وجہ سے گھر پر کچھ انتظام نہیں کر سکا اسلیے معذرت کے
ساتھ آپ کو ہمارے ساتھ رات کا کھانا ہوٹل میں کھانا پڑے گا ، انشاللہ کل سے
آپ میرے ہاتھ کا پکا کھانا کھا کر ضرور خوش ہوں گے،ویسے یہاں پر ہر قسم کے
ریسٹورنٹ ہیں جن میں انڈین چائنیز اور یورپین کھانے دستیاب ہیں مگر اپنے
ہاتھ کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے،میں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں
ملاتے ہوئے کہا کیوں نہیں بھئی میں بھی کچھ کچھ پکانا جانتا ہوں انشاللہ
کسی دن اپنے ہاتھ کی مرغ کڑاہی بنا کر کھلاﺅں گا جس میں آپ لوگوں کو پنجاب
کے کھانے کا ٹیسٹ ملے گا،ضرور ضرور یہ تو ہماری خوش قسمتی ہوگی،ریاض اور
ظفیر دونوں ہی بہت خوش نظر آ رہے تھے جیسے کوئی اپنے بڑے بزرگ کو مل کر خوش
ہوتا ہے ان کا میرے ساتھ کچھ ایسا ہی برتاﺅ تھا۔
رات کو نو بجے کے قریب کال بیل بجی تو ظفیر نے جھٹ سے کہا شاید”جو جو“ آ
گیا اور وہ دروازہ کھولنے چلا گیا ،میں نے ریاض سے اس عجیب و غریب نام کے
بارے میں پوچھا تو اس نے ہلکی سی ہنسی سے جواب دیا یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے
، اتنے میں ایک لمبا چوڑا ہیرو ٹائپ نوجوان ظفیر کے ساتھ اسلام علیکم کہتا
ہوا ہاتھ ملانے میری طرف بڑھا ، میں نے بھی حیرت اور محبت کے ملے جلے جذبات
سے واعلیکم اسلام کہتے ہوئے اس سے ہاتھ ملا یا ، حیرت مجھے اُس کے نام پر
ہو رہی تھی اور محبت اُس کے سلام پر ، ابھی میں اسی سوچ میں تھا کہ ریاض
اُس پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا ، یعقوب بھائی تم سے کوئی کام وقت
پر نہیں ہوتا ،تم دوپہر کو بھی نہیں آئے جب کہ ہم کو انکل کو لینے ائیر
پورٹ جانا تھا اگر ہم تمہارا انتظار کرتے رہتے تو ٹائم پر وہاں کبھی بھی نہ
پہنچ پاتے ، اب بھی تم کو سات بجے بلایا تو تم نو بجے آ رہے ہو اور اوپر سے
دانت نکال کر مجھے اور غصہ دلا رہے ہو، اگر تم کام نہیں کر سکتے تو ہمیں
جواب دے دو ہم کوئی دوسرا انظام کر لیں گے، اس دوران یعقوب یا جو جو بس
کھسیانی سی ہنسی ہنستا رہا آخر جب ریاض خاموش ہوا تو اُس نے منہ کھولا
،بھائی اتنا ناراض مت ہو میری بچی بہت بیمار ہے اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا
تھا اس لئے آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی، یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی
سی چھا گئی تو ریاض نے ذرا مصنوعی غصے سے کہا چلو ٹھیک ہے تمہاری بچی بیمار
ہے تو تم ایک ٹیلیفون بھی توکر سکتے تھے، چلو اب جلدی کرو انکل کو بھوک لگ
رہی ہوگی،اور ہم لوگ نیچے آکر ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ریاض نے اُسے دہلی مسلم
ہوٹل جانے کو کہا ٹیکسی چلی تو میں نے ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیوں
بھئی یہ جو جو اور یعقوب کا کیا رشتہ ہے یا دونوں ایک ہی ہیں ؟ میرے منہ سے
یہ سن کر تینوں نے ہنسنا شروع کر دیا جس پر میں نے حیرت سے کہا ،کیا بھئی
میں نے کوئی لطیفہ سنا یا ہے جو تم لوگ ہنس رہے ہو ،اس پر تینوں خاموش ہو
گئے جیسے انہیں اپنی بے ادبی کا احساس سا ہو گیا، ریاض نے معذرت کرتے ہوئے
کہا، معاف کرنا انکل آپ ابھی یہاں کے دستوروں سے ناواقف ہیں اس لیے اتنا
حیران ہو رہے ہیں ، یہاں کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کے لیے ایک برمی نام
بھی رکھنا پڑتا ہے جس پر ان کا ایڈنٹیٹی کارڈ بنتا ہے جیسے ہمارے یعقوب
بھائی ہیں ان کا مسلم نام یعقوب علی ہے اور برمی نام جو جو ہے جو ان کے
ڈرائیورنگ لائسنس پر لکھا ہوا ہے یہاں مسلمانوں کو کارڈ ایشو نہیں کیا جاتا
جب تک کہ وہ اپنے آپ کو برمی نہ ثابت کر دیں اس برمی نام سے یہ ساری
سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں جو یہاں کے لوکل لوگوں کو میسر ہیں آپ یہاں کے
مسلمانوں میں سے اکثر مرد اور عورتوں کو برمی لباس پہنے ہوئے دیکھیں گے ہاں
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی شناخت ابھی تک برقرار رکھی ہوئی ہے جو آٹے میں
نمک کے برابر ہے۔
یعقوب نے گاڑی روکتے ہوئے بتایا کہ دہلی مسلم آ گیا ہے آپ لوگ جائیں میں
ساتھ والی گلی میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں،ہم لوگ گاڑی سے اترے تو ریاض نے
بتایا کہ یہ انورتھا روڈ ہے یہاں گاڑی پارک کرنا منع ہے اسی طرح یہاں کی ہر
مین روڈ پر پارکنگ ممنوع ہے ہوٹل مناسب تھا اندر داخل ہوتے ہی ایک ویٹر
آرڈر بک اور پنسل لے کر ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور ایک خالی ٹیبل کی ایک
کرسی کو ہاتھ لگاتے ہوئے اُس پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا، ریاض نے بیٹھتے
ہی میری طرف دیکھ کر کہا، انکل آپ کیا کھانا پسند کریں گے یہاں سب انڈین
مسلم کھانے مل سکتے ہیں بریانی سے لے کر سادہ چاول چپاتی ،دال سبزی بھنا
گوشت آپ جو کھانا چاہیں میں وہی آرڈر دوں گا !میں نے انکساری سے کہا بھائی
زیادہ تکلف اور خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں میرے لیے تو چپاتی کے ساتھ کوئی
سالن منگوا لیں آ پ لوگوں پر کوئی پابندی نہیں !!مختصر یہ کہ ریاض نے کچھ
بحث مباحثے کے بعد آڈر دیا ۔ اتنی دیر میں جو جو بھی آکر ہمارے ساتھ بیٹھ
گیا،تھوڑی دیر میں اسٹیل کی ٹرے جس میں ایک سائیڈ میں چھوٹے چھوٹے چار
خانوں میں اچار،میٹھی چٹنی ،بیگن کا بھرتہ اور پودینے کی چٹنی تھی بڑے خانے
میں چپاتیاں جن کو رومالی کہنا بہتر ہو گا پتلی پتلی رومال کی طرح بڑے
سائیز کی جو ٹرے میرے سامنے آئی، اور ایک پلیٹ میں گوشت کی چھوٹی چھوٹی
بوٹیاں ہلکے سے شوربے کے ساتھ، باقی سب نے اپنی اپنی مرضی کی چیزیں
منگوائیں جس کی تفصیل میں جانا میں غیر ضروری سمجھتا ہوں یہاں یہ بتانا
ضروری ہے کہ جتنی دیر ہم لوگ کھانا کھاتے رہے ہمارے پاس چھوٹی چھوٹی اسٹیل
کی بالٹیوں میں وہی چیزیں جو ٹرے میں تھیں ویٹر لے کر آتے جو چٹنی یا اچار
ٹرے کے خانے میں کم نظر آتا اُس میں چمچ بھر کر اور ڈال دیتے،ریاض نے بتایا
کی یہ یہاں کا دستور ہے منرل واٹر کی بوتلیں منگواتے ہوئے کہا کہ آپ کبھی
بھی اس کے سوا یہاں کا پانی نہ پئیں کہ اس سے بیمار ہونے کا ڈر ہے۔یہ سب
باتیں وہ مجھے ایسے بتا رہا تھا جیسے کوئی پیار سے کسی چھوٹے بچے کو
سمجھاتا ہے اور میں ایک انجان مسافر کی طرح اس کی ہر بات کو اپنے ذہن میں
محفوظ کر رہا تھا، کھانا کھا کر واپس آئے تو اُس نے کسی کو فون کر کے
پوچھا، شکور بھائی آج کا کیا ریٹ ہے اور کچھ بارگنی کرنے کے بعد کہا ، اچھا
ایک کھوکھا لے کر آ جاﺅ، تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ایک پلاسٹک
کی بوری کندھے پر اُٹھائے ہانپتا ہوا آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولا، یار
ریاض بھائی یہ وزن لے کر سیڑھی چڑھنا بڑی محنت کا کام ہے تم کو ئی نیچے کا
جگہ دیکھو نی،اس کے بولنے سے مجھے لگا کہ وہ کوئی مارواڑی یا میمن ہے ،
اتنے میں ریاض نے امریکی ڈالروں کی ایک گڈی دراز سے نکال کر اُس کی طرف
بڑھائی جسے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور وہ بڑے غور سے نوٹوں
کو الٹ پلٹ کر دیکھنے اور گننے میں مصروف ہو گیا ،ادھر ریاض نے ظفیر کو
اشارہ کیا جس نے بوری کو الٹ کربرمی کرنسی کے پانچ پانچ سو کے نوٹوں کی
گڈیاں میز پر ترتیب سے سجا کر گننا شروع کر دیا دونوں طرف دیکھتے ہوئے مجھے
یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ ان کی معمول کی کاروائی ہے ، شکور کے
جانے کے بعد میں نے ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، بھائی مجھے بھی کچھ ڈالر
کیش کروانے ہیں اور سنا ہے کہ یہاں بنک کا ریٹ تو بہت معمولی ہے ، میری اس
بات کے جواب میں ریاض نے نظریں جھکا کر نوٹوں کی گڈیا ں میری طرف دھکیلتے
ہوئے کہا،انکل آپ بھی کمال کرتے ہیں یہ ایک کروڑ ہے جو سب آپ کا ہے آپ کو
جتنا چاہیے اس سے لے سکتے ہیں، میں نے شکریے کے ساتھ نوٹ واپس اسکے آگے
کرتے ہوئے کہا نہیں بھئی مجھے تو جیب میں رکھنے کے لیے کچھ چاہیے کہ کہیں
کوئی چیز پسند آ جائے تو خرید سکوں اور اس کے لیے تھوڑے پیسے پاکٹ میں ہونے
چاہئیں باقی رہنے اور کھانے پینے کا سب انتظام تو آپ نے کر رکھا ہے، میں نے
اپنا پاسپورٹ اور پانچ سو ڈالر جو میں ساتھ لے گیا تھا ریاض کے حوالے کرتے
ہوئے مزید کہا یہ آپ اپنے پاس رکھیں مجھ سے کہیں ادھر ادھر نہ ہو جائے، اُس
نے یہ سب چیزیں مجھ سے لے کر بیس ہزار چٹ(لوکل کرنسی ) مجھے دیتے ہوئے کہا
انکل یہاں تجوری کا رواج نہیں یہ سب کرنسی آپ کے بیڈ کے نیچے رکھی ہوگی آپ
کو جب جتنی ضرورت ہو بلا جھجک لے سکتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ ظفیر وہ
نوٹوں کی گڈیاں ایک بیڈ کے نیچے سجا رہا تھا جس پر مجھے سونا تھا ۔
(جاری ہے)
نوٹ۔ آجکل شوگر کی بیماری نے بہت لاچار کر رکھا ہے، قارئین سے بارگاہِ خدا
وندی میں صحت کی دعا کے لیے درخواست ہے۔ |