بہت زیادہ میٹھا ۔۔ زہر ہوتا ہے - پہلی قسط

قارئین جو لوگ آپ سے بہت بڑی بڑی اور نہایت میٹھی میٹھی باتیں کریں آپ کو اونچی جگہ بٹھا کر آپ کی چاپلوسی کریں ، تو سمجھ لیں کہ وہ آپ کے ساتھ کوئی بہت بڑا دھوکہ کرنے والے ہیں جس کا تلخ تجربہ مجھے کچھ سال پہلے اُس وقت ہوا جب مجھے ایسے ہی ایک شخص کے چنگل میں بری طرح پھنس کر اپنا کاروبار گنوا کر گھر میں بیٹھنا پڑا ۔

ہوا یوں کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ کہہ کر بانس کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی کہ ہماری کرنافلی پیپر مل کو کاغذ بنانے کے لیے بانس کی کمی کا سامنا ہے ، لہٰذا ادھر سے مایوس ہو کر ہم نے دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا شروع کیا جہاں بانس کی پیدا وار ہوتی ہے ان میں تین ملکوں کے نام سامنے آئے جن میں تھائی لینڈ،ویتنام اور میانمار(برما) سرِ فہرست تھے ،معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ ان تینوں میں برما بہت سستا بھی ہے اور اُس کا ویزہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے،اب وہاں پر کسی ایکسپورٹر کی تلاش شروع ہوئی جو ہماری مرضی کے مطابق بانس کو تیار کروا کر بھیج سکے، یہاں قارئین کو یہ بتانا ان کی دلچسپی اور معلومات میں اضافہ ہو گا کہ بانس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا اس میں بھی بہت ساری قسمیں ہیں جن کو علیحدہ علیحدہ کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں بانس کی عمر کا بھی گہرا تعلق ہے، بانس کو اگر کچی عمر میں کاٹ لیا جائے تو وہ سوکھ کر مولی گاجر کی طرح ٹوٹ جاتا ہے جبکہ چار سال کا ہونے پر اس میں لچک اور طاقت آ جاتی ہے جسے بانس کی گرہ پر بنی ہوئی آنکھ کو دیکھ کر اس کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے ویسے تو ایک سال میں ہی بانس اپنی پوری لمبائی لے لیتا ہے جومیچورنہیں ہوتا ۔

کراچی میں جوڑیا بازار کے ایک دوست سے برما کے ایک ایکسپورٹر کا ایڈریس ملا جو پان میں استعمال ہونے والا کتھا ان کو بھیجتا تھا مگر کسی وجہ سے ان کے ساتھ ناچاقی ہونے پر کام بند کر چکا تھا، میں نے اللہ کا نام لے کر اُسے ایک لیٹر لکھ دیا جس کا جواب ایک ہفتے بعد مجھے ایک ٹیلیفون نمبر کے ساتھ وصول ہوا کہ آپ اس فون نمبرپر ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں، میں نے فوراً ہی لائن ملائی تو سامنے ایک اردو بولنے والے صاحب تھے ، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ایک ہم زبان سے کام کرنے میں اور اُس کو اپنی بات سمجھانے میں آسانی ہو گی، میں نے جب کام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بڑی فراخدلی سے یہ کہہ کر خوش کر دیا کہ آپ یہاں آ جائیں آپ جیسا چاہیں گے ویسے ہی آپ کا کام ہو جائے گا، یہ مژداء جانفزاسن کر ہم نے اسی دن اسلام آباد کا رخ کیا ، ویزہ اور ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد انہیں فون کیا کہ میں بیس تاریخ کو رنگون پہنچ رہا ہوں اور یہ میرا برما آنے کا پہلا اتفاق ہے میں کسی ہوٹل کا پتہ بھی نہیں جانتا ، تعارف میں انہوں نے اپنا نام ریاض بتایا اور مزید فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، آپ بے فکر ہو کر تشریف لائیں خادم ائیرپورٹ پر آپ کے نام کی تختی لے کر کھڑا ہو گا باقی رہی رہائش کی بات تو ہوٹل میں رہیں آپ کے دشمن، آپ کے لیے اے۔سی کے ساتھ غریب خانے پر ایک کمرہ اٹیچ باتھ موجود ہے، اور ساتھ ہی جو روکھی سو کھی میسر ہو گی آپ بھی ہمارے ساتھ کھائیں گے،اتنا کچھ سن کر میری تو خوشی کا ٹھکانہ بہت اوپر چلا گیا کہ عمر کے اس حصے میں ہوٹلوں میں رہنا اور کھانا بڑا ہی تکلیف دہ ہوتا ہے خاص کر غیر اسلامی ملک میں تو کچھ کھانے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے ، ایک دفعہ میں سنگاپور میں اس تکلیف سے دوچار ہو چکا تھا کہ جس ہوٹل میں جاﺅںنوڈل کے ساتھ عجیب عجیب چیزیں پلیٹ میں دیکھ کر بغیر کھائے واپس آجاﺅں آخر ایک ٹیکسی ڈرائیورنے ایک انڈین کھانوں کی مارکیٹ تک پہنچایا جو گول دائرے میں زیادہ تر ٹھیلوں پر مدراسی لوگوں نے سجا رکھی تھی اُس میں جا کر کھانے میں بریانی ، سادہ چاول اور چپاتی کےسا تھ پا ئے وغیرہ کھانے کو ملے جو کافی لذیز بھی تھے، اسی تجربے نے سکھا دیا کہ کسی بھی ملک میں جانے سے پہلے اپنے رہنے اور کھانے کا پہلے انتظام کر لینا چاہیے۔

میں جب ضروری چیک اپ کے بعدرنگون ائیر پورٹ سے باہر آیا تو دو نوجوان جن میں ایک باریش تھا میرے نام کی تختی لیے کھڑے دیکھ کر میں نے ان کی طرف دیکھ کرہاتھ ہلایا تو وہ لوگ مسکراتے ہوئے میرے پاس آگئے ایک نے میرے سامان کی ٹرالی تھامتے ہوئے پوچھا انکل راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ؟ میں نے بھی خوشدلی کا مظاہر ہ کر تے ہوئے ا ن سے ہاتھ ملا کر کہا نہیں بھئی کوئی خاص نہیں بنگلہ دیش بیمان سے آنے کی وجہ سے چار گھنٹے ڈھاکہ ائرپورٹ پر دوسری فلائٹ کا انتظار کرنا پڑا جس سے تھوڑی بوریت تو ہوئی مگر جو دوپہر کا کھاناانہوں نے کھلایا وہ اتنا مزیدار تھا کہ ساری تھکان دور ہوگئی ، آگے تو بس آدھے گھنٹے کا سفر تھا، اچھا آپ میں سے ریاض کون ہے ؟ میں نے دونوں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا ، تو با ریش نوجوان نے آگے بڑھتے ہوئے کہا ،جی میں ہوں آپ کا خادم ، اور دوسرے کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے BOSS کے بھانجے ظفیر ہیں جو ابھی نئے نئے برما میں میرا ساتھ دینے آئے ہیں ، ہم لوگ بھی کراچی کے رہنے والے ہیں اور یہاں کاروبار ی سلسلے میں رہائش پزیز ہیں ،اتنے میں ظفیر نے ایک ٹیکسی جو انہوں نے پہلے سے بک کر رکھی اُس کی ڈگی میں میرا سامان رکھا اور ہم لوگ رنگون کی صاف ستھری سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے خوبصورت درختوں کا نظارہ کرتے ہوئے اُن کی رہائش کی طرف روانہ ہوئے ، راستے میں ریاض نے بتایا کہ میرے مالک جو میرے بچپن کے دوست بھی ہیں یہاں سے مچھلی خلیجی ریاستوں میں بھیجتے ہیں ، وہ خود تو یہاں کبھی کبھار آتے ہیں مجھے ہی یہاں کا سارا کام سونپ رکھا ہے ،اور اب تو ماشاللہ میرا ساتھ دینے ان کا بھانجا بھی آ گیا ہے، یہ کہتے ہوئے ریاض نے ظفیر کی طرف طنزیہ نگاہوں سے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید اس کا آنا ان کو اچھا نہیں لگا اور یہ سوچ رہے ہیں کہ مالکوں نے مجھ پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے ایک پہرہ دار کو میرے سر پر بٹھا دیا ہے۔ اور ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہر وہ ملازم جس پر بے اعتمادی کی جائے وہ چڑ سا جاتا ہے جس کا اثر اُس کے کام پر بھی پڑتا ہے جبکہ دوسری طرف کھلی چھوٹ بھی کبھی کبھی لوٹیا ڈبو دیتی ہے۔

میں نے جب اُن کی رہائش کے بارے میں پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون کون رہتا ہے تو وہ دونوں ہنسنے لگے میں نے وجہ پوچھی تو ریاض بولا کہ انکل آپ فکر کیوں کرتے ہیں ہمارے تینوں کے علاوہ اور وہاں کوئی نہیں ہو گا ،میں نے تھوڑا حیران ہو کر کہا ، کوئی ملازم وغیرہ بھی نہیں ؟اس بار ظفیر نے جواب دیا ،نہیں انکل اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی،بازار سے سودا میں لا دیتا ہوں کھانا ریاض بھائی بنا لیتے ہیں اللہ اللہ خیر صلا۔

اب ہماری ٹیکسی شہر کے وسط سے گزر رہی تھی جہاں سڑک کے دونوں طرف کئی کئی منزلہ عماتیں کھڑی تھیں جن کے نیچے مختلف قسم کی مارکیٹیں بنی ہوئی تھیں، سامنے سڑک کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا سنہری گنبد والا مندر دیکھ کر میں نے تجسس بھری نظروں سے جب ریاض کی طرف دیکھا تو اُس نے بتایا کہ یہ بدھوں کا سینٹرل ”پگوڈا“ (مندر) ہے جس کے گنبد پر آٹھ ٹن سونا جڑا ہوا ہے ، مگر کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس سونے کو چرانے کی ہمت کرے،اس مندر کے قریب جب پہنچے تو دیکھا کہ اس کے چاروں طرف سے سڑکیں آکر ایک گول دائرے کی شکل میں مندر کے گردا گرد گھوم کر ایک چورنگی کی شکل بناتی ہوئی ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئی تھیں، اس کے پاس ہی سڑک کے دوسری طرف ایک خوبصورت مسجد تھی جس کا نام ریاض نے بنگالی مسجد بتایا ،شہر کی صاف ستھری چوڑی سڑکوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ برما کا دارالحکومت بھی ہمارے اسلام آباد سے کم نہیں ہے۔

اُن کی رہائش پر پہنچے جو ایک خوبصور ت آٹھ منزلہ بلڈنگ کی چھٹی منزل پر تھی جسکی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے جب میری سانس پھول گئی تو ریاض نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا انکل آپ کو یہ تکلیف تو کرنی پڑے گی، ویسے ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو کم سے کم اترنا چڑھنا پڑے۔ میں نے ذرا ہانپتے ہوئے کہا ، بھئی ہر طرح کا آرام تو اپنے گھر میں بھی نہیں ملتا ، آہستہ آہستہ اس کی بھی عادت ہو ہی جائے گی، اوپر پہنچ کر انہوں نے ایک طرف کی لوہے کی گرل کا تالا کھولا ، یہاں دونوں طرف آمنے سامنے فلیٹ بنے ہوئے تھے، اندر داخل ہوئے تو ان کا صاف ستھر ا آفس کم ہوم نما فلیٹ جو تقریباً بیس فٹ چوڑا اور پچاس فٹ لمبا تین پورشنوں میں بٹا ہوا تھا، سامنے بالکونی کے پیچھے آفس اور اس کے بعد سونے کا کمرہ سب سے آخر میں باورچی خانہ ایک سائیڈ میں راہداری جس میں سے سب پورشنوں کے لیے علیحدہ داخلی دروازے تھے۔

خوابگاہ میں لگے اے۔سی نے رنگون کی گرمی کو مات دے رکھی تھی،ریاض نے بتایا کہ یہ بلڈنگ ”بوٹا ٹونگ ٹاﺅن شپ “ میں ہے جو یہاں کی بندرگا کا علاقہ ہے آپ بالکونی سے دریائے آیورویدی کی طرف سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دریا کا نظارہ بھی بخوبی کر سکتے ہیں جس پر یہ بندرگاہ واقع ہے، اور جب میں نے بالکونی میں کھڑے ہو کر بحری جہازوں کی آمدورفت اور دریا کی اونچی نیچی لہروں کو دیکھا تو مجھے یہ چھٹی منزل کی بلندی اچھی لگنے لگی ۔

(جاری ہے)
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84022 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.