مٹی کے نیچے سونے والے
(Munir Bin Bashir, Karachi)
ہم انسانی ہڈیوں کے چورے پر پیر رکھتے ہوئے چلے جا رہے تھے اور سب سے آگے جانے والے آدمی نے ایک کھوپڑی اٹھائی ہوئی تھی ---- |
|
|
سامنے ایک وسیع و عریض میدان تھا ----- جسے پورا کھود کر حد نظر تک گڑھا بنادیا گیا تھا --اسے مزید گہرا اور بڑا کیا جارہا تھا- کھودنے والے چیونٹیوں کی طرح نظر آرہے تھے - یہ تھی منگولیا میں چنگیز خان کی قبر کی جائے وقوع - جہاں اسے اس کی وصیت کے مطابق دفن کیا جانا تھا - یہ چنگیز خان کے بارے میں ایک فلم کا منظرتھا جو میں دیکھ رہاتھا - تاریخ میں مختلف پھیلی ہوئی داستانوں کے مطابق اس وسیع و عریض گڑھا نما میدان میں کسی مقام پر سکندر اعظم کی لاش رکھ کر اِس انتہا سے اُس انتہا تک پھیلے ہوئے گڑھے کو مٹی سے بھر دیا گیا- لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی - اس کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں گھوڑے اوپر دوڑتے رہے --دوڑتے رہے -دوڑتے رہے یہاں تک کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ گڑھا کدھر تھا --زمیں کہاں تھی - قبر کس طرف تھی غالباّ چنگیز خان کو بھی علم تھا کہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی لاش کی بے حرمتی کریں گے اور اپنے انتقام کی آگ بجھائیں گے اس لئے اس نے انتقال سے کئی سال قبل اس قسم کی وصیت کی تھی - میدان کے ارد گرد کوئی درخت موجود تھے تو وہ کاٹ دئے گئے اور ٹیلے پاٹ دئے گئے تاکہ کسی قسم کا حوالہ ہی نہ مل سکے - یہ سال 1227 کی بات ہے ۔۔
میں نے اندازہ لگایا کہ زندگی میں ہر فرد کہانیوں کو جنم دیتا ہے اور بعد از مرگ کئی مرتبہ قبور بھی داستانیں سنا رہی ہوتی ہیں مجھے لاہور کے گڑھی شاہو کے ریلوے پل کے پاس کا قبرستان یاد آتا ہے - یہ بھی ایک وسیع میدان تھا - لیکن سال 1227 نہیں تھا بلکہ سال 1970 تھا اور میں انجینئیرنگ یونیورسٹی لاہور کا طالب علم تھا - عمر 18 -- 19 سال کی ہوگی - ایک مرتبہ یونیورسٹی جانے والی بس نکل گئی تو ہم ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ داروغہ والا کی بس میں سوار ہو جاتے ہیں - یہ جی ٹی روڈ تو نہیں جاتی لیکن اس کے بچھلی سڑک سے گزرتی ہے - وہاں سے پیدل جی ٹی روڈ آجائیں گے - گڑھی شاہو کا پل پار کرنے کے بعد بس جیسے ہی داہنی طرف مڑی تو ہم پہلے اسٹاپ پر اتر گئے
اور ایک پگڈنڈی جو یونیورسٹی کی جانب جا رہی تھی پر چل پڑے - سینئر ساتھی اس راستے سے پوری طرح آشنا تھے - دن کے دو بجے کا وقت تھا - میں اس علاقے میں پہلی بار آیا تھا -چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانات بنے ہوئے تھے - مکانات کے درمیان فاصلہ بھی تھا - غالباّ یہ ریلوے والوں کے کوارٹر تھے جو انہوں نے اپنے ملازمین کو دئے ہوئے تھے - اس زمانے میں پلاسٹک کی تھیلیاں عام نہیں ہوئی تھیں ورنہ وہ ہر جگہ بکھری ہوئی نظر آتیں - کہیں کہیں خود رو جھاڑیاں ضرور اگی ہوئی تھیں - گٹر وغیرہ کا پانی یا بہتی ہوئی نالیاں کہیں نظر نہیں آئیں - چنانچہ اس لحاظ یہ علاقہ صاف ستھرا ہی لگ رہا تھا - پھر کچھ قبریں نظر آئیں - اور آگے بڑھے تو پتہ چلا کہ قبرستان ہے -ایک چوڑا سا راستہ جو قبرستان کے بیچوں بیچ گزر رہا تھا اس پر لوگ آجا رہے تھے -ہم بھی اسی پر چل پڑے لیکن کچھ ہی قدم بڑھائے تھے چونک پڑے -
قبرستان کی زمین اور باہر کی زمین کی رنگت میں زمین آسمان کا فرق تھا - باہر کی زمیں بھورے رنگ کی تھی جبکہ یہاں قبرستان میں مٹی میلے سے سفید رنگ کی تھی- سفید سی میلی مٹی سورج کی روشنی میں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی - اور انکھیں چندھیا رہی تھیں - -پورے قبرستان کی مٹی کا یہی حال تھا -ابھی پندرہ بیس قدم ہی چلے ہون گے ہم سے آگے دو تیں آدمی جو جارہے تھے وہ چلتے چلتے اچانک زمین پر جھکے اور کوئی چیز اٹھا ئی - ایک لحظہ وہ اسے دیکھتے رہے اور پھر ہماری طرف مڑ کر دیکھنے لگے - ان کی آنکھوں سے حیرت بھی عیاں تھی اور سوال بھی -- کہ کیا کریں - ہم نے ان کے ہاتھوں پر نظر ڈالی وہ ایک ملگجے رنگ کی انسانی کھوپڑی تھی --------- ہم ان کا سوال سمجھ گئے -ہماری عمریں اٹھارہ انیس برس کی تھیں - ہماری عمریں اٹھارہ انیس برس کی تھیں - ہم بھی ایک دم ہکا بکا رہ گئے کہ کیا جواب دیں -- اچانک پیچھے سے آواز آئی "کسی بھی قبر میں ڈال دو اور چاروں قل پڑھ کے چلتے رہو " پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہماری طرح پگڈنڈی پر چلنے والے عام راہ گیر تھے جو ہمارے بعد داخل ہوئے تھے - ان میں سے ایک نے عمر رسیدہ سا تھا اور کاندھے پر صافہ ڈالا ہوا تھا اس نے یہ کہا تھا - سامنے چلنے والے آدمیوں نے ادھر ادھر دیکھا -- ایک قبر میں کڈھا سا نظر آیا اس میں کھوپڑی ڈال دی اور چل پڑے - - تب میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بہت ہی قدیم قبرستان ہے اور مردوں کی ہڈیاں باہر نکل نکل کر چورا چورا ہوکر پاؤڈر کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اسی سبب سے قبرستان کی مٹی میلے سے سفید رنگ کی تھی اور ہم انہی انسانی ہڈیوں کے چورے پر پیر رکھتے ہوئے چلے جا رہے تھے - اور بچتے بھی کیسے ہر طرف چورا ہی چورا پھیلا ہوا تھا - یاد رہے کہ جی ٹی روڈ لاہورکے ساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی کے قرب و جوار میں مغلیہ زمانے کی بہت سی قبور ہیں -
------------------------------ ممبئی ( بھارت ) کے شہر خموشاں ( یعنی قبرستان ) میں مٹی کے نیچے سونے والوں میں بھارت کی اپنے زمانے کی مقبول اداکارہ مدھو بالا ( اصل نام - ممتاز جہاں بیگم ) بھی ہیں - اپنے زمانے کی بلندی پر جانے والی فلموں میں کام کیا اور فلمی صنعت میں اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے ممتاز رہیں - وہ دل کی مریضہ تھیں اور یہی مرض سال 1969 میں ان کے اس جہاں سے رخصت ہونے کا سبب بنا - وفات کے وقت ان کی عمر صرف 36 برس تھی- ممبئی کے مرکزی قبرستان میں انہیں گور کی مٹی نصیب آئی - ایک تصویر دیکھی تھی کہ پرتھوئی راج کپور (جنہوں نے فلم مغل اعظم میں اکبر بادشاہ کا کردار ادا کیا تھا اور اسمیں مدھو بالا انارکلی کے روپ میں کام کر رہی تھیں ) ان کی قبر کا ایک پایہ پکڑے ہوئے خمیدہ کمر کے ساتھ نہایت ہی افسددگی کے عالم میں اداس کھڑے ہوئے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ ان کی غمزدگی نے ارد گرد کے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے -اوپر اڑنے والے پرندے خاموش ہیں -- فضا میں سناٹا سا چھایا ہوا ہے - دور دور تک کچھ نہیں ہے -صرف گور ہے ، پرتھوی راج ہیں اور یادیں ہیں ---یادیں --یادیں اور یادیں --------------- پرتھوی راج نے شہرہ آفاق فلم مغل اعظم میں شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کیا تھا جب کہ مدھوبالا انارکلی کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تھیں - پرتھوی راج بھی 1972 میں عالم فانی سے رخصت ہوئے - اور پھر سال 2010 آیا -- نئی تدفینوں کے لئے جگہ بنانے کے منصوبے کے تحت ممبئی کی میونسپل کارپوریشن والے بلڈوزر لیکر آئے اور ساری قبریں کسی اعلیٰ ادنیٰ کی تمیز کئے بغیر ڈھا دیں - مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
--------------------------------------- ایک قبر یہ بھی تھی -- مولانا کوثر نیازی سابق وزیر مذہبی امور کہتے ہیں کہ میں نے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھادئے اور تماشہ بن گیا - یہ قبر تھی امیر تیمور کی - مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں کہ وہ 27 ملکوں کا حکمران تھا - وہ کہتے ہیں کہ یوں تو دنیا میں سکندر اعظم ، چنگیز خان ، نپولین ، کیخسرو کی فتوحات کی دھوم ہے لیکن جتنے ملک امیر تیمور نے فتح کئے وہ کسی دوسرے نے نہیں کئے - اس کی ذات میں دو مخالف اقسام کی انتہائیں ایک ساتھ موجود تھیں - ایک جانب وہ انتہائی سخت ،جابر ، ظالم تھا اور سروں کے مینار تعمیر کراتا تھا تو دوسری طرف علم دوستی اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی - اپنی فوج کو حکم دیا ہوا تھا کہ جب بھی کسی ملک پر فتح پاؤ تو وہاں کے شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں سے انتہائی درجے کی تکریم سے پیش آنا اور ادب کے اعلیٰ معیار کے ساتھ میرے دربار میں پیش کرنا - مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں کہ میں اسکی مزار پر گیا تو زیادہ تر غیر مسلم نظر آئے - کسی کو کیا خیال آتا کہ اس فاتح عالم کو آج ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے - میں نے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا دئے -تماشہ بن گیا لیکن میں نے پرواہ نہ کی اور فاتحہ مکمل کی - نہ شمع مزار تھی ، نہ کوئی سوگوار تھا -- تم جس پر رو رہے تھے وہ کس کا مزار تھا -------------------- حوالہ :کتاب" کوہ قاف کا دیس " جنگ پبلشر کراچی
-------------------------------------- اب لاہور کی ایک قبر کا ذکر سنیں - یہ زمین سے سولہ فٹ اونچے ایک ٹیلہ نما مینار پر ہے - اس ٹیلہ نما مینار کے اوپر ایک کمرہ بنا ہوا ہے - -یہ ایک پاک باز، نیک طینت ، نمازز روزے کی پابند -اسلامی شرح کے تمام امور کی پیروی کرنے والی خاتون شرف النساء کا مرقد مبارک ہے - یہ سال تقریباً 1671 کی بات ہے - - اس کمرے کا ایک ہی دروازہ ہے اور دوازے تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے - اگر اندرا جانا چاہیں تو لمبی سیڑھی کا بندوبست پہلے کرنا پڑتا ہے - شرف النساء مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا شاہ کے دور کے لاہور کے گؤرنر کی بہن تھیں - انہوں نے اپنی زندگی اللہ کی عبادت کے لئے وقف کردی تھی اور عبادت کے لئے یہاں تشریف لے جایا کرتی تھیں - ان کے اوپر پہنچنے کے بعد سیڑھی ہٹا لی جاتی تھی - کمرے پر سرو کے اشجار کی چند تصاویر ہیں جو کہ ٹائل پر بنے ہوئی ہیں ہیں اور افتاد زمانہ ان کا رنگ مدھم نہیں کرسکا - - وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق اسی مینار نما ٹیلے پر اس کمرے کے اندر تدفین کی گئی - وہ اپنی قبر کو بھی پردہ کروانا چاہتی تھیں یہ قبر انجینرنگ یونیورسٹی لاہور کے بہت ہی قریب سی ہوسٹل کے عقب میں بیگم پورہ کے مقام پر ہے - مجھے اپنی پڑھائی کے دوران یہاں جانے کا موقع ملا تھا
------------------------------------------------ کوئٹہ میں بھی تو ایک قبر تھی --- اس کے ساتھ دیو مالائی قسم کی منسوب داستاں داستاں یہ تھی کہ انگریزوں کے دور مین میں کوئی جانور نما بلا کوئٹہ میں رہتی تھی اور یہاں کے باشندوں کو پکڑ کر کوہ مردار پر لے جاکر مار دیا کرتی تھی - داستان کے مطابق ایک انگریز نے اسے مارنے کا ارادہ کیا اور اس مقابلے میں مارا گیا -اس کی قبر ایک قلعے میں باہر سے نظر آتی ہے -لوگ کہتے تھے کہ قبر پر اس بلا کا مجسمہ بھی بنا ہوا ہے جس میں اس کا دھڑ کسی جانور کی طرح کا ہے اور سر انسان سے مشابہ ہے - یہ تو بھلاہو انٹر نیٹ کا اس کی بدولت صحیح پس منظر لوگوں تک پہنچا کہ اس قبر کا تعلق کسی بلا ولا سے نہیں ہے بلکہ یہ ان انگریزی فوجوں کی یاد میں بنائی گئی ہے جو مصر سے انگریزوں کے دور میں افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے آئے تھے اور مارے گئے تھے 1990 میں بھارت میں بابری مسجد کا سانحہ ہوا - اس کے ردعمل کے طور پر پاکستان میں مسلمان مشتعل ہو گئے مندروں کو گرایا جانے لگا- بت ڈھائے جانے لگے - ان ہنگاموں کی زد میں یہ قبربھی آگئی- حالانکہ ہندؤں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا - اب قبر کا نام و نشاں بھی مٹ چکا ہے |