ڈسکہ میں خون خرابہ، پنجاب سینٹ میں مفاہمت؟

ڈسکہ میں خون خرابہ، پنجاب سینٹ میں مفاہمت؟
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
٭
سیاست کے کھیل بھی عجب ہیں، پل میں ایک دوسرے کی جان کے درپے دوسرے لمحہ بغل گیر۔ کسی نے بہت درست کہا کہ جب سے عمران خان کا اعلان ہوا کہ وہ ملک کا وزیر اعظم ہوگا۔وہ جماعتیں جو نصف صدی سے ملک میں حکمرانی کر رہی ہیں انہوں عمران خان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور اسے سکون کا سانس ہی نہیں نہ لینے دیا۔اس میں کپتان کی اپنی غلطیوں اور بد انتظامیوں کا بھی دخل ہے۔اسے حکمرانی کے لیے اچھی ٹیم ہی نہیں مل سکی۔ ابھی اس کی حکومت کو مشکل سے سال ہی ہوا تھا کہ کورونا جیسی وبا نے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو آلیا۔ کارکردگی کا گراف جو پہلے ہی نیچے جارہا تھا کورونا کے باعث اور بھی گرگیا۔عمران خان کے خلاف ملک کی گیارہ جماعتوں (جن کی تفصیل نیٹ پر دستیاب ہے) نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بنایا جس کی کلیدی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (نون)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں باقی جماعتوں کی حیثیت ٹانگا پارٹی سے زیادہ نہیں۔ ان پارٹیوں کے نام حسب ذیل ہیں:
۱۔ پاکستان مسلم لیگ (نون)
۲۔ پاکستان پیپلز پارٹی
۳۔ جمعیت علما ئے اسلام (ف)
۴۔ عوامی نیشنل پارٹی
۵۔ عوامی نیشنل پارٹی (ولی)
۶۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)
۷۔ جمعیت اہلحدیث
۸۔جمعیت علمائے پاکستان
۹۔ نیشنل پارٹی (بزنجو)
۰۱۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی
۰۱۔ قومی وطن پارٹی
تین جماعتوں کے علاوہ باقی جماعتوں کے سربراہان اسٹیج کی رونق میں اضافہ کرنے، اور کلیدی سیاست دانوں سے پہلے میدان ِسیاست کو گرمانے، اپنے رضا کاروں کو جوش اور ولولہ پیدا کرنے کا سامان فراہم کرنے کے لیے ہیں۔بعض بعض لیڈروں نے تو جوش خطابت میں ایسی ایسی باتیں کیں کہ مرکزی رہنماؤں کو ان کا جواب دینا مشکل ہوگیا۔مثلاً بلوچستان کے بارے میں بیان داغ دیا، اردو کے بارے میں بیان دے دیا، حالانکہ ان باتوں کا کوئی جواز کوئی موقع ہی نہیں بنتا، سیاسی جلسوں میں، کئی پارٹیاں تو ایسی ہیں کہ جن کا کوئی ایک نمائندہ بھی قومی یا کسی صوبائی اسمبلی میں نہیں، حتیٰ کہ کونسلر تک نہیں۔ پنجاب کے علاقے ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگی، بدنظمی کہنا بہت چھوٹا لفظ ہے وہاں دو انسانی جانیں چلی گئیں۔ جانے والے جس کسی جماعت سے بھی تعلق رکھتے تھے وہ انسان تھے، سیاسی رہنماؤں کو اپنے کارکنوں کو اس حد تک جانے سے ہر صورت میں روکناچاہیے۔ مرنے والے مرجاتے ہیں، لواحقین زندگی بھر ان کا غم مناتے رہتے ہیں۔ ماضی کے کراچی میں ہونے والی پر تشدد سیاست کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مرنے والوں کا ذکر خیر بھی نہیں ہوتا۔منفی سیاست کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔یاد رکھنا چاہیے کہ ’ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے‘۔ایک جانب ڈسکہ میں باہم گتھم گتھا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے، ایک دوسرے کے خلاف ٹی وی اور سوشل میڈیا پر منہ سے آگ کے گولے نکلتے ہوئے، دوسری جانب خاموشی سے، جسے بیک ڈور دپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے، مفاہمت یا سودے بازی؟ پنجاب کے تمام نمائندے بلامقابلہ کامیاب، جس کی جتنے سیٹیں بنتی تھی اس اعتبار سے بندر بانٹ ہوگئی۔ یعنی تحریک انصاف اورنون لیگ کے پانچ پانچ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کا ایک سینیٹر بلا مقابلہ مفاہمت کے نتیجے میں کامیاب قرار پاچکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جو سینیٹر منتخب ہوجائیں گے ان میں سیف اللہ نیازی، اعجاز چودھری، عون عباس، سید علی ظفر، ذرقا سہروردی، جب کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے افنان اللہ خان، ساجد میر، عرفان صدیقی، اعظم نذیر تارڑ اور سعادیہ عباس۔ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کامل علی آغا شامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس مفاہمت میں چودھری پرویز الہٰی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ پرویز الہٰی ہی ہیں جن کے کہنے اور یقین دیہانی پر مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دیا جانے والااپنا مارچ ختم کرکے خالی ہاتھ گھر واپس ہوئے تھے۔ یہ عمل اگر صاف شفاف انداز سے سب کے سامنے ایک دوسرے سے گفت و شنید کے بعد ہوکیا جاتا اس پر سوالیا نشان نہ اٹھتے بلکہ عوام دونوں دھڑوں کے عمل کو سراہتے۔ اچھے کام کو خاموشی سے، رات کے تاریکی میں، چھپ چھپا کے کرنے سے نیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ صاف کہہ دیتے کہ سینٹ میں امیدواروں کی منڈی کو روکنے کے لیے مفاہمت سے فیصلہ کیا ہے۔ اچھا عمل تھا، کون مخالفت کرتا۔ جب پنجاب میں یہ اچھا کام ہوسکتا ہے تو دیگر صوبوں میں اور اسلام آباد میں کیوں نہیں ہوسکتا، اسی طرح ضمنی انتخابات میں طاقت کے استعمال کو بھی یہی جماعتیں روک سکتی ہیں لیکن کونسی ایسی مجموری آڑے آجاتی ہے۔ کارکنوں کو کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے، انہیں آگے کر کے خود پیچھے رہ کر شہ دیجاتی ہے۔ ڈسکہ میں بھی مفاہمت سے کام لیا جاسکتا تھا۔ حکومت اپوزیشن سے اور اپوزیشن حکومت سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی، اب دونوں کی انا کہاں گئی، چھپ چھپا کر، رات کی تاریکی میں اچھا کام کرلیا، جو غلط کام ہیں، دنگا فساد، خون خرابا، الزام تراشی وہ دن کی روشنی میں کیا جارہا ہے۔ حیرت اور افسوس ہے اپنے سیاست دانوں پر۔ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کا ضمنی انتخاب کلعدم قرار دے دیا یہ کہہ کر کہ اس میں سخت قسم کی بے قاعدگیاں ہوئیں چنانچہ یہاں 18مارچ کو دوبارہ مارکہ ہوگا۔ کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ ضمنی انتخاب بخیر خوبی ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ دونوں جماعتوں سے گارنٹی لے کہ انتخابی عمل کے دوران اس قسم کے واقعات ہرگز نہیں ہوں گے۔ انتخا ب کو زندگی اور موت بنا لینا مہذب اقوام کا وطیرہ ہر گز نہیں ہوتا۔
پنجاب میں سینیٹ پر اتحاد ہونے کے باوجود دونوں جانب شدید تلخی پائی جاتی ہے کہ کوئی حد نہیں، زبان اس قدر خراب، الفاظ کا چناؤ بیہودہ، ٹی وی پر بیٹھ کر جس قسم کی باتیں ایک دوسرے کے بارے میں کی جارہی ہیں وہ باعث صد افسوس ہیں۔کئی حکمران آئے اور چلے گئے، اس
وقت جو حکمران ہیں انہوں نے بھی چلے جانا ہے پھر کس کے لیے سیاست کا یہ انداز۔ سیاست تو عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس اعتبار سے کہ سیاست دانوں کو لوگوں کی زندگیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، ان کی سہولتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ملک کی حفاظت اندرونی و بیرونی خطرات سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے، بھوک، افلاس کو دور کرنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت سیاست کی بنیاد ہے اور انسانیت کی خدمات کا عجر کس قدر ہے ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ سیاست دانوں اس عبادت کو اپنے لیے عذاب کیوں بنا رہے ہو۔ چھوٹی سی چیز کرسی کے لیے، جو عارضی ہے ہر صورت میں۔ 3مارچ کو سینٹ انتخابات ہیں۔ دونوں دھڑے ایک دوسرے کے منتخب نمائندوں سے اپنی حمایت کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ حمایت کیسی حاصل ہوگی، سب جانتے ہیں۔ (یکم مارچ2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286198 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More