کل ایک تقریب میں وزیراعظم نے اپنی بات پر جب سامعین کی
ان کی توقع کے خلاف خاموشی دیکھی تو بات کو دوبارہ دھرا دیا مگر پھر بھی
وہی خامشی دیکھی تو رہا نہ گیا اور انہوں نے جیسے تیسے بھی اپنے وزیروں ،
مشیروں ، بیورو کریٹس اور ممبر پارلیمنٹیرین سے داد توآخر کار وصول کرہی
لی مگر بات قابل غور ہے۔
کیا وہ ان کی تقریر کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہ تھے؟
کیا وہ اسے ایک معمول کی بات سمجھے تھے؟
یا ان کو ان کی بات کے سچ ہونے پر پورا یقین نہ تھا
یا وہ اس کو کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھے تھے
یا وہ ان کو داد دینے کے موڈ میں نہ تھے
یا ہو سکتا ہے وہ سب کسی پریشانی یا گہری سوچ میں تھے
یا وہ تھکے ہارے مجبورا وہاں بغیر کسی دلچسپی کے بیٹھے فارغ ہونے کا انتظار
کر رہے تھے
یا ان کے سامعین راگ رنگ اور دھمالوں کے ماحول کے عادی ہوچکے ہیں اور اس کے
بغیر وہ داد کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا پھر وہ نقارہ قدرت (عوامی احتجاجوں ) کو سمجھ گئے ہیں
مہنگائی کی وجہ سے عوامی فکر میں محو تھے
یا بے حس ہو چکے ہیں (معزرت کے ساتھ)
جو بھی صورتحال تھی ایک بات واضح ہے کہ وہ انتہائی سنجیدہ صورتحال میں تھے
کیونکہ وزیر اعظم کے بات دہرانے کے باوجود کوئی ریسپانس نہ آسکا
اوردوسرا سب کے سب با جماعت تھے جیسے سب کے سب اس صورتحال میں اکٹھے غرق
تھے کیونکہ کسی ایک نے بھی ریسپانس نہیں دیا
حیران ہوں ان کے محسنوں نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیرجانبداری کا
۔۔۔۔۔۔۔ سب بر خلاف معمول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر شائد وہ بھی اس کو اللہ کہ
مرضی سمجھ کر اسی پہ خوش تھے۔ نہ کوئی اشارہ نہ کوئی۔۔۔۔۔۔۔
بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جانے نہ انجانے میں ٹھیک ہی تو کیا ہے سب
نے داد دیں بھی تو کس بات پر سب گا ، گے ، گی ( یہ کر دیں گے ، وہ کر دیں
گے حکومت یوں کر دے گی ) ہی تو ہے وگرنہ نئے پاکستان میں 2018 والے پاکستان
سے کیا اوپر گیا ہے (کیا بہتری آئی ہے ) بجائے مہنگائی ، بے رورگاری اور
تباہی کے
اور جب داد وصول کرنے میں وہ کامیاب ہوئے بھی تو انکو جھنجھوڑ کر اور نام
لے کر
داد کے ویسے بھی وہ بہت شوقین ہیں ۔ کیسے وہ یہ موقعہ ضائع ہونے دیتے ، داد
لینا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور کچھ بھی نہ بن پائے تو وہ جب
ریاست مدینہ کا نام لیتے ہوئے ، اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ
نَسۡتَعِیۡنُ ؕ سے شروع کرتے ہیں تو مسلمان مر مٹتے ہیں ان کی سوچ پر یہاں
تک کہ ان کی وزیر اعظم کی حلف برداری تقریب میں انکے حلف والا سارا ماجرا
بھی بھول جاتے ہیں۔ پھر ان کے پاس ورلڈ کپ اور شوکت خانم کی عوامی تسلیم
شدہ کارکردگی تو ہے ہی ۔ ان کی اعلی ظرفی تو دیکھئے کہ وہ داد کا سارے کا
سارا بوجھ (ورلڈ کپ میں کرکٹ کی ٹیم ، شوکت خانم میں عوام اور حکومت کی مدد
کو ایک طرف رکھتے ہوئے) اپنے کندھوں پر ڈال کر استراتے ہوئے داد وصول کرتے
ہیں۔
خیر یہ واقعہ مزاح تو بن ہی گیا ہے مگر اس کے سنجیدہ پہلو ابھی بھی غور طلب
ہیں ۔
کیا جب انہوں نے شرمسار چہروں کے ساتھ تالیوں کی گونج میں داد دی تو بات کو
سمجھ کر اور دل سے داد دی اور اگر بس ان کا دل رکھنے کے لئے داد دے دی تو
اس کا کیا مطلب؟
یا کیا اس طرح کی داد ، خوشامد اور تالیوں کی خواہش وزیر اعظم کے منصب کے
شایان شان ہے ؟
اسلامی اصولوں کی روشنی میں تو وزارت ، صدارت اور قضاٗ کے عہدوں کی خواہش
رکھنا بھی نا اہلیت میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اور یہاں باتیں ہوتی ہیں ریاست
مدینہ کی کیا شرمناک مذاق ہے ؟
علیم خان کو تو انہوں نے نام لے کر کہہ دیا کہ تمھارا تو بزنس ہے ۔
کیا یہ سب لوگ اپنے اپنے بزنس کی سوچ میں مگن رہتے ہیں ان کو عوامی یا
رفاعی پراجیکٹس سے کوئی سروکار نہیں اور ہے بھی تو اپنے مفادات کے ساتھ جڑے
ہوئے کسی پراجیکٹ پر
خیر وہ تقریب کیا تھی اس کاشائد ابھی تک عوام میں سے کسی کو پتا بھی ہو یا
نہ ہو مگر ان مورتوں کے مزاح کا سب کو معلوم ہے اور عوام ویسے بھی سننے اور
پڑھنے پر توجہ کم ہی دیتی ہے بس مورتوں اور شغلوں کی طرف ہی زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم سننے ، پڑھنے اور سوچنے کے عادی ہوتے تو آج ہماری یہ حالت ہوتی اس
طرح کے حکمران ، وزیر، مشیر اور بیورو کریٹس ہوتے
ہمارے وطن کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی!
شائد ہم اسی کے قابل ہیں۔
قومیں افراد سے ہی بنتی ہیں مگر افراد کے ہجوم سے نہیں بلکہ ان کی سوچ سے
سوچوں کے بدلنے سے حالات بدلتے ہیں
ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان ورنہ ہم پر اسی طرح کے خوشامدون کے متمنی
مسلط ہوتے رہیں گے اور ہمارا ملک تماشہ گاہ بنا رہے گا
|