ایک فیصلہ ( رائے ) دو مطلب

سپریم کورٹ نے ایسا جادوئی فیصلہ دیا ہے کہ جو بھی پڑھے خوش ۔ حزب اختلاف اپنی جیت کے شامیانے بجا رہی ہے اور حکومت اپنی کامیابی پر بھنگڑے ڈال رہی ہے ۔ بات اپنی اپنی سمجھ کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو قوم اپنے دین کی بنیادی کتاب کو زیر زبر کے بغیر پڑھ نہیں سکتی اور پڑھ لے توجب تک اس کا ساتھ اپنی زبان میں ترجمہ نہ ہو اس کو سمجھ نہیں سکتی اور ترجمہ بھی کئی طرح کا مہیا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ اپنے اپنے مذاج کے مطابق ترجمہ مل جاتا ہے ۔ کئ صدیوں سے دین کو سمجھنے پر بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ ابھی ہم اپنے ایمان کو ہی ایک دوسرے کی نظر میں ٹھیک نہیں کر پائے ۔ اعمال کو بجا لانے یا درست کرنے کی تو دور کی بات ہے ۔ اور جنہوں نے دین کو پڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ان کو ایسے ایسے منظق پڑھا دیے جاتے ہیں کہ دین سے بڑھ کر فرقوں کو معتبر منوانے کو ہی اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں ۔

اور جب قانوں بنانے والے اداروں میں عربی کو لازمی پڑھانے کی بات آئے تو عوامی نمائیندوں میں ایسے ایسے فلاسفر مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو کئ اہم وزارتوں اور عہدوں پر رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں میں نے عربی میں بڑے سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہوئے ہیں اور قرآن پاک کی ایک چھوٹی سی صورت کو پوری سینٹ کے سامنے دو دفعہ یہ بتانے کے لئے پڑھتے ہیں کہ ماضی میں اس نے صحیح پڑھا تھا مگر اس کو سنایا غلط گیا تھا اور دونوں دفعہ ہی غلط پڑھ جاتا ہے ۔ پوری سینٹ اور قوم اس پر اپنی زبانیں بند کر لیتی ہے بلکہ اس کا مذاق تو بناتی ہے مگر نہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور نہ قوم اس کو اصلاح کی ترغیب دیتی ہے۔

تو ایسی قوم کو ایک ہی بات یا مطلب پر متفق کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ہر کسی کی اپنی اپنی مجبوریا ں ہیں ۔ حکومت کی اپنی مجبوریاں ، اپوزیشن کی اپنی اور اداروں کی اپنی ۔ یہاں ملک آئین کے تابع نہیں بلکہ اپنی اپنی خواہشوں اور مجبوریوں کے تحت چلایا جارہا ہے۔

جو لوگ چار لائینوں کے آرٹیکل کو نہیں سمجھ سکے یا جنھوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی وہ کئی صفحات کے رائے کے فیصلے کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ۔ اور رائے کرنے والوں نے ایسے منطق لکھ دیے ہیں کہ سب کو خوش کر دیا ہے کہ جاو اور اپنے اپنے مذاج اور مقصد کے مطابق مطلب نکالتے پھرو۔

عدالت عظمی نے 1967 کے فیصلے کا حوالہ بھی دے دیا جب موجودہ آئین ابھی بنا ہی نہیں تھا اور اس سے باور کروا دیا ہے کہ رازداری حتمی کیسے ہوسکتی ہے ۔ شائد ان کا مطلب یہ ہو کہ جب پہلے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا تو آئین اس کے خلاف کیسے بنایا جا سکتا تھا کہ جس کی رازداری کو حتمی سمجھ لیا جا سکے اور ایسا آئین ہی کیا جو موجودہ حالات کی مطابقت سے رازداری کو رازداری سے پرکھنے کا اختیار نہ دیتا ہو

اور شائد اس فیصلے میں قیاس کی بنیاد پر یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر پارلیمنٹ ترمیم کرکے رازداری کے عمل کو شفافیت کے اصولی فیصلے کے مطابق کھلے عام ووٹنگ میں بدل سکتی ہے تو کیوں نہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ابھی سے آئینی تمیم آنے سے پہلے ہی ایک اچھی نیت سے شفافیت کے نیک مقصد کو اسی الیکشن میں پورا کر لیا جائے ۔

اور اگر حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں آئین کی مجوزہ ترمیم کی ائینی دو تہائی اکثریت موجود نہیں اور ہمارے پاس تشریح میں کوئی گنجائش موجود نہیں تو الیکشن کمیشن کے پاس تو آئینی اختیارات موجود ہیں کہ الیکشن کو شفاف بنایا جاسکے ۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے رازداری کو نہ چھیڑا جائے بس الیکشن کمیشن ووٹر کے لئے نہیں بس اپنی تسلی کے لئے کوئی ایسا نظام لاگو کرلے کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے اور ووٹر کو یہ یقین دہانی کروا دی جائے کہ تم رازداری سے ووٹ کا استعمال کر سکتے ہو ۔

اپوزیشن اپنی سمجھ کے مطابق اپنی اور آئین کی جیت پر ڈھول پیٹ رہی ہے اور حکومت اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ الیکشنن کمیشن پہنچ گئی ہے اور الیکشن کمیشن کو بتا رہی ہے کہ اس اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے آپ رازداری کے عمل کو اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے یہ پتا لگا سکتے ہیں کہ کون سا ووٹ کس کو گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ تمھارے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں تم اپنی مرضی سے آئین کی رازداری کو رازداری سے رازداری رکھتے ہوئے سارے راز جان سکتے ہو کیونکہ آپ کے پاس تو شفافیت قائم رکھنے کے آئینی اختیارات موجود ہیں اور آئینی ذمہ داریاں بھی تو نبھانی ہیں ۔

ابھی یہ مختصر سا اپنی نوعیت کا آراء پر مشتمل فیصلہ آیا ہے اور تٖفصیلی فیصلہ باقی ہے جس میں امید ہے کہ باقی ساری کسر بھی پوری ہوجائے گی ۔

جیسے عدلیہ ، حکومت اور انتظامیہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئی ضیاع کو ضیاء دکھانے کی کوشش کر رہی ہے ایسے ہی میں نے بھی اپنے وقت کا ایک گھنٹہ اسی منطق کے پیش نظر صرف کردیا ہے آگے ہر کسی کا مقدر کہ کوئی کام کی بات اس میں سے ڈھونڈ پاتا ہیں یا نہیں

آخر میں چند آپ بیتیاں
یہ کالج کے دور کی بات ہے ہم دو دوست سڑک پر چلتے جارہے تھے اور میرا دوست کچھ بولتا جا رہا تھا جو میں سمجھنے سے قاصر تھا ، جو کچھ یوں اس طرح کی آوازیں تھیں

وڈور ڈبے بی شو

تھوڑی دیر بعد میری نظر بھی اس بینر پر پڑ چکی تھی اور میں اس کی ساری بات سمجھ چکا تھا در اصل وہ کچھ اس طرح سے لکھا تھا

وڈ ورڈ بےبی شو

ایک دفعہ میں اپنے گاوٗں میں تھا تو ایک فوجی آفیسر نے گاڑی کھڑی کی اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ
کِدھر کِدھر ہے ؟

میں بڑا پریشان کہ یہ بول کیا رہا ہے

کچھ سمجھ نہ آئے
اس کے ہاتھ میں ایک ورق تھا اور اس کی طرف بھی دیکھتا جا رہا تھا

خیر میں نے اس سے کہا کہ یہ کیا ہے میں دیکھ سکتا ہوں ؟

اس نے جب مجھے وہ ورق دکھایا تو مجھے سمجھ آگئی

دراصل ہمارے گاوٗں کے نزدیک ایک گاوٗں ہے جس کا نام کَدھر ( یہ گ نہیں بلکہ ک پر زبر ہے ) ہے اور وہ اس گاوٗں کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔

در اصل وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ

کَدھر کِدھر ہے؟

ہمارا بھی قصور نہیں

مثال کے طور پر اگر کوئی شیخ ( میری مراد عرب کا رہنے والا ہے ) ہمارے ملک میں آجائے تو

وہ ٌٌجبیب بینک لمیٹڈ ٌٌ کو یوں پڑھ لے تو حَبیَب بَینَک لَمیَٹِڈ پڑھے تو اس کا کیا قصور

چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے ، کوئی بات نہیں

ہمارا بھی قصور نہیں

ہمارا آئین اور قانون کی کتابیں انگریزی میں ہمارے دین کی کتاب عربی میں اور ہماری قومی زبان اردو اور ہمارے سکول انگلش میڈیم جو ایم اے انگریزی کو اردو میں کروانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہمیں انگریزی ایسی پڑھائی جاتی ہے جس کی انگریز کو بھی سمجھ نہیں آتی ۔

ابھی تک غلامی کے اثرات ہم اپنے اوپر بڑے فخر سے قائم رکھے ہوئے ہیں چونکہ انگریزوں نے ہم پر حکومت کی ہے اس لئے ہم انگریزی زبان اور گورے رنگ کو حکمرانی کی علامت سمجھتے ہیں اور منافقت کی حالت یہ ہے کہ انگریزی سے زبانی تو نفرت کرتے ہیں مگر عملی طور پر انگریزی زبان سیکھ لینے کو ہی علم کل سمجھتے ہیں ۔

بچے کو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے ہمار سلیبس اور سکول انگلش میں ہونا چاہیے ۔ اردو سے اس طرح نفرت کرتے ہیں جس طرح کوئی ہمارا دشمن بھی نہیں کرتا ہوگا ۔ اردو بولنے والوں کو ہم کم تر طبقہ اور انگریزی بولنے والوں کا بر تر طبقہ سمجھتے ہیں تو پھر

اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے

دراصل ہمارا مسئلہ

آئین ، قانون یا اس کی تشریح نہیں بلکہ ہماری سوچ ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نیت صاف ہو اور منافقت ختم ہو

جہاں سے ہم نے یہ پارلیمانی نظام حکومت مستعار لیا ہوا ہے انکا آئین تو کتابی صورت میں موجود ہی نہیں اور وہ بغیر لکھے ہونے آئین پر عمل کرنے کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ہم لکھے ہوئے آئین پر عمل نہ کرنے کے مختلف حیلے اور بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ خود کو آئین پر چلانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ آئین کو اپنے مزاج کے مطابق بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

بد نیت اور بد کردار خود پارلیمنٹیرین ہیں جو ہم میں سے ہی ہیں اور ہم تمام تر بدعنوانی کا مورد الزام آئین کو ٹھہرا رہے ہیں ۔

کیا سوچ ہے اور کیا انصاف

سوچ کا یہ حال ہے کہ

جب ججز کو تعلقات اور نوازشات کی بنیاد پر بھرتی اور پروموٹ کیا جاتا ہے تو انصاف بھی تو انہیں بنیادوں پر ملے گا

جیسا بیج ہوگا ویسا ہی پودا بھی نکلے گا اور ویسا ہی پھل بھی ملے گا ۔

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114733 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More