سید یوسف رضا گیلانی نے میدان مارلیا
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
سید یوسف رضا گیلانی نے میدان مارلیا ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سینٹ الیکشن 2021 ء گیلانی نے میدان مار لیا۔ جمہوریت اسی عمل کا نام ہے جہاں بندوں کو گنا جاتا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کون ہیں، کیا کرتے رہے، کیوں ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہی کچھ سینٹ الیکشن میں عملی طور پر سامنے آیا۔سارے اندازے، تمام تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ایک ہفتہ قبل میں نے اپنے بعنوان ”کون مارے گا میدان“ میں لکھا تھا ”کہ سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم، وزیر اور اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست دانوں میں معتدل، نرم مزاج، سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک قرار دیے جاتے ہیں۔ تعلیم بہت اعلیٰ نہیں ماسٹر کیا پنجاب یونیورسٹی سے البتہ سیاسی تجربہ اور سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی اثر رسوخ میں یکتا ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو حکومتی اراکین کو اپنے حق میں رام کرنے پر بھروسہ ہے تب ہی تو وہ مقابلہ جیت سکیں گیں ورنہ تو عددی تعداد تو حکومتی اراکین کی زیادہ ہے“۔ عددی تعداد کا تجزیہ کریں توقومی اسمبلی میں حکومتی اراکین کی تعداد 180ہے۔ ووٹ ملے 164جب کہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں 169اراکین نے ووٹ ڈالے۔ گویا 16حکومتی اراکین نے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پر عدم اعتماد کیا۔ اگر ان میں سے 7مسترد ووٹ حکومتی ووٹ میں شامل کر لیا جائے جیسے کے بعض اراکین کے بارے میں علم ہوچکا کہ ان سے غلطی ہوئی پھر بھی 9حکومتی اراکین ایسے تھے جنہوں نے ڈاکٹر شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔ حکومتی اتحاد کی خاتون امیدوار کو 172ووٹ ملے، گویا 8اراکین نے واضح طور پر حکومت سے ناراضگی اور حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔ بعض ناراض اراکین نے الیکشن سے قبل ہی اعلان بغاوت کردیا تھا۔ حکومت نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا یا عمران خان ان باغی اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے جیسے ڈاکٹر عامر لیاقت نے اعلانیہ کہا کہ وہ حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیں گے، یہی نہیں بلکہ جب عامر لیاقت،عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے میڈیا کو واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ وہ پارٹی امیدوار کو ووٹ دیں گے بلکہ اپنے ظمیر کے مطابق ووٹ دینے کی بات کی، گویا عمران خان عامر لیاقت کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا عامر لیاقت اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ حکومتی نہ اہلیاں، ڈھائی سال کی کارکردگی وضح طور پر غیر تسلی بخش رہی، خان کو ٹیم کام کرنے والی نہیں ملی۔ حفیظ شیخ کی قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے بارے میں یہ تاثر عام اور سچ ہے کہ وہ ایک ٹیکنوکریٹ ہیں، IMFکے آدمی ہیں، ملک میں اس وقت آتے ہیں جب ائر پورٹ سے اترتے ہی جھنڈے والی گاڑی ان کے لیے تیار کھڑی ہو، جب یہ گاڑی واپس لے لی جائے تو وہ ملک سے واپس پرواز کرجاتے ہیں۔ میں پہلے لکھ چکا کہ قابلیت اور تعلیم اور ھنر مندی میں حفیظ شیخ کہی آگے ہیں یوسف رضا گیلانی سے۔ لیکن یوسف رضا گیلانی کی اپنی ذاتی حیثیت، ان کا مزاج، ان کا سیاسی کردار،ان کا معتدل ہونا، دھیما پن، دوستانہ، ہمدردانہ رویہ انہیں منفرد بناتا ہے۔ حالانکہ ان پر بعض الزامات بھی ثابت ہوچکے، سزا ہوئی، نہ اہل ہوئے، ان سب کے باوجود وہ ایک سیاسی آدمی ہیں جب کہ حفیظ شیخ غیر سیاسی شخصیت ہے۔ حفیظ شیخ کی شکست میں ووٹرز کی خرید و فروخت کو بھی دخل حاصل ہے۔ ٹی وی چینل ویڈیو اور آڈیو دکھاتے رہے ہیں، یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہوا، سینٹ میں خرید و فروخت بہت پرانی ہے۔ حکومت کو شاید ادراک تھا اس بات کا کہ اس کے ارکین باغی ہوسکتے ہیں، بک سکتے ہیں اسی لیے اس نے کوشش کی کہ سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں۔ دوسری جانب اپوزیشن کچی گولیاں کھیلی ہوئی نہیں تھی، اس میں عمران خان سے کہی زیادہ سیاست کا تجربہ رکھنے واے ایک نہیں بلکہ بے شمار شخصیات پائی جاتی ہیں جو یہ کام کرتی رہی ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب کا جملہ ”کچھ ہم سے بھی سیکھ لو“، انہوں نے سب کو سکھا دیا، حکومت کو بھی اور اپوزیشن کو بھی۔ اپوزیشن تو تشدد کے جانب جارہی تھی، یہ آصف علی زرداری کی پارٹی تھی کہ جس نے پی ڈی ایم کا رخ تشدد کے بجائے جمہوری عمل کی جانب موڑ دیا، پی ڈی ایم جماعتوں کو مجبور کردیا کہ وہ جمہوری عمل کا حصہ بنیں، ضمنی انتخابات میں حصہ لیں، سینٹ کے انتخابات میں حصہ لیں، ورنہ تو پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے سربراہان تو ”آر یا پار“ کی سیاست کی جانب پی ڈی ایم کو لے جارہے تھے۔ اس بات کا کریڈٹ زرداری صاحب کو جاتا ہے۔یہی حکمتی عملی بھی زرداری صاحب ہی کی دکھائی دیتی ہے جس نے حکومت کو شکست سے دوچار کیا۔جہاں تک اراکین کو خریدنے یا اراکین کے فروخت ہونے کا تعلق ہے اسے کوئی بھی ذی شعور اچھا نہیں کہہ سکتا۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔ نہیں معلوم بکنے والے اور خریدار کس خوش فہمی اور گھمنڈ میں رہے۔ گیلانی صاحب کے بیٹے اپنے باپ کی حیثیت پر خوش فہمی کا شکار رہے انہوں نے گیلانی صاحب کی شخصیت کو نقصان پہنچایا۔ خاص طور پر اقرار جرم کر کے۔ یہ عمل زندگی بھر ان کا پیچھا کرے گا۔ سندھ کے بعض طاقت وراس کا حصہ بنے جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ہمارا آئین بعض معاملات میں خاموش ہے اور اس قسم کے اقدامات پر گرفت نہیں کرتا لیکن اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات ہرطرح کے قانون پر مقدم ہیں۔ وقتی جاہ و حشم، تزک و احتشام، شان و شوکت، رفعت و منزلت ٹھاٹ باٹ اور لاؤ لشکر کی خاطر انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار دنیا میں تو وقتی خوشی دلادے گا لیکن پکڑتو آخر ہونی ہی ہے پید ا کرنے والے کی عدالت میں۔ وہاں ایسا کام کرنے والے کیا جواب دیں گے، دنیا میں تو یہ کہہ کر آپ چھوٹ جائیں گے کہ ”یہ آواز میری نہیں“ یا پھر ’ہاں! یہ میں ہی ہوں، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ووٹ کو کیسے کینسل کرنا ہے کی ترغیب دے کر“۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی شکست کے چندگھنٹوں بعد ہی یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔یہ مثبت فیصلہ ہے۔ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو اپوزیشن ان سے ایسا کرنے کی آواز بلند کرتی، کیوں کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا اس وجہ سے اب اپوزیشن وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کی بات کررہی ہے۔ امید تو یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اپوزیشن پھر بھی انہیں چین سے رہنے نہیں دے گی۔ حفیظ شیخ صاحب اب کیا فیصلہ کرتے ہیں، حکومت میں رہتے ہیں یا پرواز بھر لیتے ہیں۔ مسائل اور چیلنجیز حکومت کے سامنے بے تہاشہ ہیں۔ حکومت کو اپنی گورنینس کو ہر صورت میں بہتر بنانا ہوگا، بے روز گاری پر توجہ دینا ہوگی، مہنگائی کو قابو میں رکھنا ہوگا، ہر 15دن بعد پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے لوگوں پر پیٹرول بم گرانے کی روش کو بدلنا ہوگا۔ چوروں کو نہ چھوڑیں لیکن اپوزیشن میں سب چور نہیں، چور آپ کی صفوں میں بھی ہیں سینٹ میں بکنے والے چوروں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ پنجاب میں افہام و تفہیم ہوسکتی ہے، وہ عمران خان، نواز لیگ اور پیپلز پارٹ کی رضامندی سے ہوئی، جس نے پنجاب میں مثبت کردار ادا کیا وہ دیگر جگہ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرسکتا۔ وزیر اعظم کو اپنی پایسی میں تبدیلی لانی ہوگی، پاکستان کے لیے، پاکستانی عوام کے لیے۔ (4مارچ2021ء)
|