ادب اطفال اور آج کے ادیب۔ایک جائزہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
مقالہ نگار: ذوالفقار علی بخاری
ادب اطفال بچوں کے لئے لکھا جانے والا ادب ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی مختلف موضوعات پر لکھا جا رہا ہے۔اگرچہ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق لکھنے والے کم ہیں مگر جو بھی لکھ رہے ہیں وہ اس سے بھرپور انصاف کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سراہنے کا رواج کم ہے،اس کی وجہ سے بہت سے اچھے لکھاری اکثر کچھ عرصہ کے بعد بددل ہو کر اپنی توجہ کہیں اور مبذول کروا لیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی کارکردگی کو اس طرح ”توپ کے نشانے“ پر رکھا جاتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ”تباہ“ ہو جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو کہ لکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر وہ بد دل ہو کر کسی اور شعبے میں اپنی دلچسپی کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں بچوں کے ادب کو لکھنے والے کم ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نامور ادیب اس جانب اپنی توجہ کم رکھتے ہیں، اکثریت اُن کی ہے جو مسلسل بچوں کے لئے ہی لکھ رہے ہیں اورایک نام بنا چکے ہیں۔ جو لکھ رہے ہیں اُ ن کو بھی اُس طرح سے ”سراہنے“ کی روایت قائم نہیں ہے کہ وہ مسلسل لکھتے رہیں،مگر وہ اپنے آپ کو اس حوالے سے ازخود ہی ایک مقصد حیات بنا کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چند لکھاری چند مسائل یا پھر نظر انداز کرنے کی وجہ سے منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر برسوں بعد اُن کا ظہور یوں ہوتا ہے کہ وہ پھر سے ”ادب اطفال“ پر چھا جاتے ہیں۔ حال ہی میں چند نئے لکھاری بھی سامنے آئے ہیں جو کہ اپنے منفرد موضوعات کی بناء پر ادب اطفال کے اُفق پر چمکنے میں سرگرداں ہیں۔دوسری طر ف اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم نئے لکھنے والوں کو نکھارنے میں مدد تو کم دیتے ہیں مگر اُن کو لکھنے سے بددل بہت کرتے ہیں۔ یہ بات راقم السطور تک مختلف ذرائع سے پہنچی ہے اس لیے اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے کہ آج اگر ہم نے کچھ لکھنے والوں کو ”بھرپور توجہ“نہ دی تو یہ ”ادب اطفال“ کے لئے ناقابل تلاقی نقصان ہو گا کہ جو کچھ اچھا کر سکتے ہیں اُن کو ہم کچھ کرنے سے روک دیں۔
راقم السطور کا یہ مقالہ خاص طور پر اد ب اطفال کے چند نامور اور نئے ستاروں کے حوالے سے ہے تاکہ کم سے کم اُن کے حوالے سے قارئین تک یہ معلومات پہنچ جائیں کہ وہ ادب اطفال کے ستارے ہیں اور خوب چمک رہے ہیں یا پھر اس ادبی کہکشاں میں نمودار ہو کر اپنی ایک پہچان بنانے میں سرگرداں ہیں۔
دنیائے ادب اطفال میں ”نذیر انبالوی“ صاحب ایک ایسی ہستی ہیں جو کہ مسلسل اپنے کام سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ادب اطفال کے ادیبوں کی فہرست میں ”نمایاں حیثیت“ کے حامل ہیں۔پاکستان میں ادب اطفال میں زیادہ کہانیاں لکھنے والوں میں اشتیاق احمد صاحب کے بعد ”نذیر انبالوی“ صاحب اور”ابن آس“ کا نام سہ فہرست ہے۔اچھے موضوعات کے ساتھ معیار بھی ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔”ابن آس محمد“ روزنامہ امت میں بچوں کے لئے 10کہانیاں ہرہفتے لکھتے رہے ہیں، یہ سلسلہ نو برس کے قریب جاری رہا، آپ یو ں سمجھ لیں کہ چار ہزار کے قریب کہانیاں تو محض روز نامہ امت میں شائع ہوئیں ہیں، 1982سے اب تک چھ ہزار سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ابن آس صاحب عرصہ دراز سے خوب لکھتے چلے آرہے ہیں۔
دوسری طرف ”احمد عدنان طارق“صاحب نہ صرف بچوں کے لئے عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں بلکہ اب تو انہوں نے ادب اطفال کے نامور ادیبوں کے حوالے سے کتاب”سنہرے ادیب“ لکھ کر ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔بچوں کے لئے کہانیوں خوب لکھ رہے ہیں اورکتب بھی شائع کرواکر اپنا ایک مقام بنائے ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق موصوف دو ہزار سے زائدکہانیاں بھی لکھ چکے ہیں۔
کچھ ایسے ادیب/لکھاری ہیں جو مسلسل لکھ رہے ہیں اور ایسا لکھ رہے ہیں جو قارئین خوب پسند بھی کرتے ہیں۔ ان میں مختلف سائنسی موضوعات پر لکھنے والی ہستی محترمہ”تسنیم جعفری“صاحبہ کی خدمات کو کیسے ہم فراموش کر سکتے ہیں۔”تسنیم جعفری“صاحبہ پاکستان کی واحد خاتون لکھاری ہیں جو کہ سائنسی موضوعات پر دل چسپ مضامین لکھ رہی ہیں، لکھنے کے ساتھ ادیبوں /لکھاریوں کی حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش ہیں۔
دوسری طرف ”نوشاد عادل“ جب لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں اور اپنے ناولوں سے قارئین کو خوب ہنساتے بھی ہیں اور سمجھاتے بھی ہیں۔ایک حالیہ آن لائن سروے کے مطابق نوشاد عادل اُن لکھاریوں میں سے ہیں جن کو قارئین کی بڑی تعداد پڑھنا چاہتی ہے، اس کی وجہ جہاں ان کا منفرد انداز تحریر ہے،وہیں اُن کے وہ کردار بھی ہیں جو کہ بے حد مقبولیت اختیار کر چکے ہیں۔اس میں اکثریت ”ڈربہ کالونی“ کے کرداروں کی ہے۔ اس کے علاوہ نوشاد عادل نے ”نوشاد بیتی“ کے ذریعے آپ بیتی کے سلسلے کا آغاز بھی پاکستان میں کیا ہے جس کے بعد کئی ادیبوں /لکھاریوں نے اپنے حالات زندگی لکھے ہیں۔
”محمد عرفان رامے“، ’امجد جاوید“،”جاوید بسام“ اور”ڈاکٹر عمران مشتاق“صاحب بھی اپنی ایک مخصوص پہچان بنا چکے ہیں اورخوب قارئین سے اپنی تحریروں پر داد پاتے ہیں۔پاکستان کے پہلے سپر ہیرو ”جی بوائے“ کاتصور ”امجد جاوید“ صاحب کا کارنامہ ہے۔اسی طرح سے ”عاطرشاہین“ اور”علی اکمل تصور“ نے بھی اپنی شہرت کو برسوں سے قائم رکھا ہوا ہے،خاص طور پر ”عاطرشاہین“ نے ماضی کے مشہور کرداروں عمرو عیار، شیخ چلی،ٹارزن اورسند بادجہازی کو اپنے ناول”راگون“ میں لا کر اپنی انفرادیت کو ظاہر کر چکے ہیں۔اسی طرح سے ”علی اکمل تصور“ لاتعداد شہرہ آفاق کہانیاں کے مصنف ہیں۔
”محمد شعیب مرزا“،”محمد فہیم عالم“ اور”محبوب الہی مخمور“ صاحب بھی اکثرلکھتے رہتے ہیں اور خوب قارئین کے دلوں کو جیت لیتے ہیں۔مذکورہ بالا تینوں صاحبان نہ صرف قلم بلکہ اپنے رسائل کے ذریعے بھی ادب اطفال کی خوب خدمت کر رہے ہیں،انہی رسائل سے ادب اطفا ل کو نئے اورقابل لکھاری مل رہے ہیں۔ ایک خا ص تاثر سے لکھنے والوں میں ایک نام”عارف مجید عارف“ کا ہے۔ جو کہ مسلسل لکھ رہے ہیں۔اُن کی واپسی میں اہم ترین کردار بچوں کے محبوب لکھاری”نوشاد عادل“ کا ہے۔اپنی مزاح نگاری سے خوب شہرت حاصل کررہے ہیں۔ ان کی مزاح نگاری کے رنگ ہمیں آنے والے وقت میں نظر آسکتے ہیں،فی الوقت تو موضوف سنجیدہ اور تلخ موضوعات کو بڑے بہترین انداز میں بیان کر رہے ہیں۔لکھاریوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر مبنی چند کہانیاں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ادب اطفال میں تلخ تجربات سے گذر چکے ہیں۔
”اسد بخاری“ صاحب کی واپسی ادب اطفال میں ہوئی ہے اورموصوف خوب نت نئے موضوعات پر لکھ رہے ہیں، یعنی ہم کہہ سکتا ہے کہ اُن کا دوسرا دور پہلے سے بہترین نظر آرہاہے۔بچوں کے لئے دل چسپ کہانیاں لکھتے چلے جا رہے ہیں۔دوسری طرف آج کل بچوں کے رسائل میں خوب لکھنے والے ”فہیم زیدی“ نے اپنی واپسی کو ”دانش ور ٹوکریاں“ جیسی کہانی لکھ کر یادگار بنا دیا ہے۔ان کی بھی ادب اطفال میں واپسی ہوئی ہے اور اب یہ اپنا ایک مقام بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
اگر نوجوان لکھاریوں کی بات کی جائے تو ”سلمان یوسف سمیجہ“ خوب بچوں کی نفسیات کے عین مطابق لکھتے جا رہے ہیں۔”باجی کا باجا“ نامی تحریر کو اپنی طرف سے خوب انہوں نے مزاحیہ بنانے کی کوشش کی تھی جس میں بے حد کامیاب رہے ہیں۔اسی سے ”محمد احمد رضا انصاری“ بھی خوب رسائل میں لکھ رہے ہیں اور ہر طرح کے موضوع پر لکھ کر اپنی ایک مخصوص پہچان بنا رہے ہیں۔ببرک کارمل کافی عرصہ تک بچوں کے لئے لکھتے رہے ہیں، آج کل کم لکھ رہے ہیں۔
اسی طرح سے محمد توصیف ملک نے بھی ازسر نو لکھنا شروع کیا ہے، اپنے دوسرے جنم میں موصوف خوب انوکھے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔”نویداحمد“ اگرچہ کم ہی لکھتے ہیں مگر اپنی تحریروں میں اُنہوں نے عمدگی سے بچوں کے ذہنوں کو مختلف معاملات پر خوب سوچنے سمجھنے پر مائل کیا ہے۔
”محمد اکمل معروف“ بڑی خوب صورتی سے کڑوی سچائی کو بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔اپنی ہر کہانی میں ایک نیا موڑ لے کر آتے ہیں اور پہلی کہانی کا اچھا تاثر دوسری کہانی سے یکسر مختلف بنا لیتے ہیں اور اپنی پہچان خوب بنائے ہوئے ہیں۔ایک منفرد اسلوب کے مالک”ندیم اختر“ بھی ہیں جو برسوں سے خوب توانا تحریروں کے ذریعے سامنے آتے رہتے ہیں۔بچوں کے لئے ٹی وی چینل کے حوالے سے یہ بھی خوب سرگرم رہتے ہیں،جس طرح سے تسنیم جعفری صاحبہ کوشاں ہیں۔
اسی طرح”بینا صدیقی“،”گل رعنا صدیقی“اور ”مریم صدیقی“ بھی اپنے کام سے اپنی ایک ساکھ بنا چکی ہیں۔محترمہ ”گل رعنا صدیقی“ تراجم کے حوالے سے بھی خوب کام کر رہی ہیں۔جس طرح سے محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ سائنس کے میدان میں کام کئے جا رہی ہیں اسی طرح سے ”گل رعنا صدیقی“ صاحبہ بھی مسلسل بہترین تراجم میں پیش پیش ہیں۔ انہی کی مانند ”محمد فیصل علی“ بھی خوب اپنی صلاحیت کو عربی سے اُردو میں کہانیوں کو پیش کر کے منوا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ”ناصر بیگ“،”محمد فائز المرام“،”اعظم طارق کوہستانی“، ”غلام زادہ نعمان صابری“،”رانا محمد شاہد“،”ملک محمد احسن“،”تنزیلہ احمد“،”آئمہ بخاری“،،”تنزیلہ یوسف“،”بلال یوسف“،”محسن حیات شارف“،”حسن اختر“،”راکعہ رضا“، ”اختر سردار چوہدری“،”محمد حامد رانا“،”عائشہ طارق“،”راحت عائشہ“،”عثمان طفیل“،”علی حیدر“،”شاہد اقبال“، ”محمد رمضان شاکر“،”عائشہ ایوب“،”محمد فرحان اشرف“،”ڈاکٹر فضلیت بانو“،”کاشان صادق“،”ماہ نورنعیم“،”شکیل احمد چوہان“، ”عاطف شاہ“،”صداقت حسین ساجد“،”غلام رسول زاہد“، ”عمارہ فہیم“،”حریم فاطمہ“،”عماد حسن“،”صاعقہ علی نوری“،”نظیر فاطمہ“،”خدیجہ محسن“،”مریم شہزاد“،”قرۃ العین فرخ ہاشمی“،”تماضر ساجد“،”حسن اکبر کمال“،”معصب شاہین“،”احمد شیر خان“،”حوریہ بتول“،”ناصر محمود فرہاد“،”محمد فضیل فاروق“،”علیشہ شوکت راجپوت“،”مریم حسن“،”انعم توصیف“،”رابعہ شاہین“،”رابنس سموئیل گل“،”محمد احمد شیر تبسم“ اور”افشاں شاہد“،”غلام یاسین نوناری“،”مصباح ناز“، ”رابعہ شاہین“،”صدف جاوید“،”ماریہ ارشاداحمد“،”مصباح ناز“،”عبرین ابدال“،”ارسلان اللہ خان“،”عائشہ عمران ممتاز“، شازیہ ستار نایاب“ سمیت دیگر کئی مصنفین و شعراء اپنی کہانیوں اور نظموں کے ذریعے سے خوب بچوں کو محظوظ کر رہے ہیں۔ انہی کی مانند ”نوید مرزا“ اور ”ضیااللہ محسن“ بھی خوب سے خوب تر تخلیقات سامنے لا رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اخبارات میں ”بچوں کا صفحہ“غائب ہو رہا ہے مگر چند اخبارات میں آج بھی یہ موجود ہے جہاں نامور اور نئے لکھنے والوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ہمارے ہاں بچوں کے کئی نئے رسائل نکل رہے ہیں۔ حال ہی میں ”نوعمر ڈائجسٹ“ نے بھی آغاز کر دیا ہے جو کہ نوعمر بچوں کے لئے اولین ڈائجسٹ ہے۔اس کا سہرا”کاوش صدیقی“ صاحب کے سر پر سجتا ہے جنہوں نے یہ انقلابی اقدام اُٹھایا ہے۔بچوں کے لئے خوب کہانیاں لکھنے کے بعد”نوعمر ڈائجسٹ“ کو منفرد انداز سے شائع کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ”بچوں کا اسلام“ اور دو ماہی ”بچوں کا آشیانہ“ محمد فیصل شہزاد صاحب کی ادارت میں شائع ہورہا ہے۔ ”بچوں کا اسلام“ بچوں کا معیاری ”ہفت روزہ رسالہ“ ہے۔جس میں لکھنے والے تحریر کی اشاعت پر خود کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں کہ اس میں اشاعت کے بعد لکھاری کے نام سے وسیع پیمانے پر قارئین متعارف ہو جاتے ہیں۔ادب اطفال میں ”بچوں کا اسلام“ کا اہم کردار اس وجہ سے بھی ہے کہ یہاں پر معیار پر سمجھوتہ کم ہی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لکھاریوں کو جہاں خود کو بہتر کرنے کا موقع ملا رہا ہے وہیں قارئین کو بھی اچھا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔ ”بچوں کا اسلام“ کی مانند”پھول“ جوکہ ماہ نامہ رسالہ ہے ایک خاص معیار کے تحت شائع ہو رہا ہے۔ ماہ نامہ ”پھول“، ”جگنو“، ”تعلیم وتربیت“، ”بچوں کی دنیا“ اور”بچوں کا باغ“، ”انوکھی کہانیاں“،”بچوں کا میگزین“،”الف نگر“ ادب اطفال میں کچھ یو ں ممتازہیں کہ اس میں نئے لکھاریوں کو خوب لکھنے کا موقع مل رہا ہے۔آج کے کئی بڑے نام اس ماہ نامہ کی بدولت بھی سامنے آئے ہیں۔
حرف آخر میں یہ بات راقم السطور کہنا چاہتا ہے کہ ادب اطفال چونکہ مستقبل اورحال کے نونہالوں کے لئے لکھا جا رہا ہے تو کوشش کی جانی چاہیے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق لکھا جائے تاکہ اُن کو حالات سے مقابلہ کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بھی آزمانے کا حوصلہ پیدا ہو سکے، محض افسانوی دنیا دکھا کر ہم آج کے بچوں کو مستقبل میں کامیاب انسان نہیں بنا سکتے ہیں۔
ای میل:[email protected]
|