آج ہر پاکستانی کی سوچ ہے ،کہ ہمارے ساتھ اس سے برا کیا
ہوگا،ہم زوال پزیر ہیں،پورا زوال آ بھی جائے تو کیا فرق پڑے گا،لیکن انہیں
اس بات کا اندازہ نہیں کہ اگر صرف زوال ہی آنا ہے تو فرق پڑتا ہے۔آج عام
لوگ عرصے سے ملکی معاشی بدحالی کے اثرات جھیل رہا ہے۔روپے کی قیمت گر رہی
ہے،افرطِ زر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ان حالات تک پہنچنے کی وجہ اہل اقتدار
ملکی معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں موجود سقم دور کرنے تک نہیں پہنچ سکے اور
نہ پالیسی بنانے والوں کی سوچ کو بہتر کیا جا سکا ہے ۔بس جیسے تیسے کر کے
حکومت زر مبادلہ کو کنٹرول کر کے ملک کی معیشت کو صحیح راہ پر لانے کی
کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
عمران خان نے حکومت سنبھالی۔انہوں نے دعوؤں کی بھر مار کر رکھی تھی،لیکن
ہوم ورک ’’صفر‘‘ تھا۔افراتفری میں جو سوجھا کر ڈالا۔معیشت کے ماہرین نے
مشورہ دیا کہ روپے کی قدر کو گرنے دیا جائے ،کیوں کہ یہ تو انہیں معلوم تھا
کہ اس طرح افرط زر میں اضافہ ہو گا،جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ان کا خیال تھا
کہ پہلے سال میں جس حد تک روپے کو گراوٹ کو مکمل کر کے اگلے سال سے بہتری
کی جانب جایا جائے،مگر ایسا نہیں ہوا۔حکومت نے توانائی کی عالمی مارکیٹ میں
ہونے والے تغیرات کو بالکل سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ان کے ماہرین نے انہیں
تیل کی قیمتوں میں کمی کی نوید سنا رکھی تھی،لیکن عالمی منڈی میں تیل کی
قیمتوں میں اضافہ ہوا اور باقی رہی سہی کسر آئی ایم ایف نے پوری کر دی ،اس
کے علاوہ بھی بہت سے فیکٹر ہیں جو افراطِ زر میں اضافے کا باعث بنے ہیں ۔
پاکستان میں معاشی بحران کوئی یک دم نہیں آیا بلکہ پچھلے 40برسوں سے معاشی
ماہرین رونا رو رہے تھے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے،اسے ٹھیک کرنے
کی ضرورت ہے ۔یہ ایسے نہیں کہ سب کو اچانک پتہ چلا ہو ،لیکن عمران خان نے
واضع قبول کیا ہے کہ مجھے پاکستان کے معاشی حالات کی کچھ خبر نہیں تھی اور
اپنی بے بسی کا عوام کے سامنے اظہار کر کے بری الزمہ ہونے کی کوشش کر تے
رہے ہیں ۔حالاں کہ حکومت کبھی بے بس نہیں ہوتی ۔ اگر یہ اپنے غیر ترقیاتی
اخراجات کم کر دیں تو انہیں نوٹ نہیں چھاپنے پڑیں گے ۔اس سے ڈیمانڈ یعنی
طلب کی جانب افراط زر کم ہو گی تو اس سے اس کی شرح بھی کم ہو گی ۔کیوں کہ
حکومت ٹیکس کی وصولی میں ناکام ہو گئی ہے اور یہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے
لئے نوٹ چھاپ رہے ہیں اور جب نوٹ چھاپیں گے تو افراط زر میں تو اضافہ ہو
گا۔بھیک پر معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔باہر سے جو پیسہ آتا ہے وہ قرضوں میں
واپس ہو جاتا ہے ۔رات کو پیسے آتے ہیں صبح چلے جاتے ہیں اور اگلی صبح ہم
وہیں کے وہیں کھڑے ہوتے ہیں ۔پھر ہم نے ملکی خسارے کو کم کرنے کے لئے کوئی
اقدامات نہیں کئے ہیں ۔سنہ 2002تک ہر سو ڈالر ملک سے باہر بھیجنے پر 125
ڈالر کی درآمد ہوتی تھیں یعنی 25 فیصد کا خسارہ تھا اور اب 100ڈالر
ایکسپورٹ پر 230ڈالر کی امپورٹ ہوتی ہے یعنی 130فیصد خسارہ ہے ۔جب اتنا بڑا
خسارہ ہو گا تو ڈالر تو مہنگا ہو گا اور جب یہ مہنگا ہوگا تو مہنگائی ہی ہو
گی ۔یہ بنیاد ہے اس بحران کی۔
عمران خان نے جو جو نعرے لگائے تھے،کسی ایک پر عمل نہیں کر سکے ۔ان کے
اقتدار سنبھالتے ہیں غیر ملکی سرمایہ کاری کی دوڑ لگ جانی تھی،مگر وہ
بتدریج کم ہو رہی ہیں ،رواں مالی سال 2020۔21ء کے ابتدائی سات ماہ (جولائی
تا جنوری)کے دوران پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 27فیصد
کمی ہوئی ہے ۔سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی جانب سے ہوئی ہے ۔جو کہ صرف
40کروڑ28لاکھ ڈالر تھی،مگر اس کے مقابلے میں چین دوسرے ممالک میں بہت زیادہ
سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔یہاں پر ہماری خارجہ پالیسیوں کی کمزوریاں صاف نظر
آتی ہیں ۔جہاں اشرافیہ کے مفادات تھے اس سیکٹر میں محدود بہتری ہوئی ہے ،لیکن
عام آدمی کو براہ راست کسی قسم کا فائدہ نہیں ہو رہا۔اصل فائدہ تو تب ہوتا
اگر حکومت پیداواری شعبے میں کوئی بہتری لاتی ،جس کے ثمرات عام عوام تک
منتقل ہو تے ہیں،لیکن اس وقت فیکٹریاں بند ہو رہ ہیں ، کاروبار ٹھپ ہو رہے
ہیں،روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہورہے ہیں، جب کہ دن بدن حالات خراب سے
خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہر آنے والی حکومت گذشتہ حکومت کو معیشت کی خرابی کا سبب بتاتی ہے،لیکن
حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک کسی حکومت نے اپنی پالیسی، طریقہ کار اور اداروں کو
ہی نہیں بدلا۔ہمیں انگریز جو ورثے میں معیشت اور جو ادارے چھوڑ گئے تھے ہم
ان پر ہی چل رہے ہیں،کوئی طویل عرصے کی پلاننگ نہیں کر رہے ہیں ۔حکمرانوں
کو ہوش کرنا ہوں گی۔سرمایہ کار کو بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکالنا وقت کی
ضرورت ہے ۔تب ہی معیشت میں بہتری کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔لیکن
بدقسمتی سے حکومتی وزراء غیر سنجیدہ قسم کے لوگ ہیں ،انہیں بحران کا اندازہ
ہے نہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے۔معیشت کے وزیر اور
مشیر تو پہلے بھی حکومتوں کے حصہ رہے ہیں،یہی لوگ ہیں جو ملکی معیشت کو
بحرانی کیفیت تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ۔
حکومت کی کارکردگی عوام میں بے چینی بڑھا رہی ہے اور اس کے ذمہ دار صرف
حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا رہا بلکہ کمر توڑ مہنگائی،بے روزگاری اور غربت
میں اضافہ عوامی غم اور غصے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔حکمرانوں کو درست سمت پر
گامزن ہونے میں دیر نہیں کرنی چاہیے،ورنہ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے ۔
|