آجکل تقریبا ہر پاکستانی شہری کی نظریں سینٹ کے انتخابات
پر مرکوزہیں، سینٹ الیکشن کے لئے کس پارٹی نے کس کو ٹکٹ دیا، الیکشن جیتنے
کے بعد کس پارٹی کی ایوان بالا میں عددی برتری قائم ہوجائے گی، کس امیدوار
کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے، سیاسی پارٹی کے قائدین آئے روز دوسری پارٹی
کے سربراہوں سے ملاقاتیں نظر آرہے ہیں، اک امیدوار نیب عدالت میں دوسری
سیاسی پارٹی کے صدر سے ملاقات کرنے چلاجاتا ہے اور ان سے اپنی کامیابی کے
لئے مدد مانگتا ہے، ہر روز اسی طرح کی خبریں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں۔
درحقیقت ان تمام خبروں کا محورپارلیمنٹ کا ایوان بالا اور الیکشن کمیشن آف
پاکستان ہیں،آیئے سینٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے متعلق مفید معلومات
حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پارلیمنٹ کو Mother of All Institutions بھی
کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت پر نظردوڑا لیتے ہیں۔آئین
پاکستان کے آرٹیکل 50 کے مطابق پاکستان کی ایک مجلس شورہ (پارلیمان) ہوگی
جوکہ صدر پاکستان اور دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی۔پاکستان کی پارلیمنٹ جس کو
مجلس شورہ بھی کہا جاتا ہے، درج ذیل پر مشتمل ہے: صدر پاکستان، ایوان زریں
(قومی اسمبلی)، ایوان بالا (سینٹ)۔آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کے
کل ممبران کی تعداد 342 ہے، جس میں 272 عام نشستیں یعنی جن پر براہ راست
الیکشن کے ذریعہ ممبر اسمبلی کو منتخب کیا جاتا ہے اور 60 خواتین کی مخصوص
نشستیں اور 10 اقلیتوں کی نشستیں ہیں۔
جبکہ آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ایوان بالا یعنی سینٹ کے ممبران کی کل تعداد
104 ہے جسکی ترتیب درج ذیل ہے:
ہر صوبائی اسمبلی سے 14 نشستیں براہ راست انتخاب کے ذریعہ سے، ہر صوبائی
اسمبلی سے 4 مخصوص نشستیں خواتین جو کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر،ہر
صوبائی اسمبلی سے 4 مخصوص نشستیں ٹیکنوکریٹس جو کہ متناسب نمائندگی کی
بنیاد پر، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کیلئے 8 مخصوص نشستیں،ہر
صوبائی اسمبلی سے 1 مخصوص نشست برائے اقلیت، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے
4 نشستیں جنکا انتخاب ممبران قومی اسمبلی کرتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 62 کے
تحت قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے مرد ویا عورت امیدوار کی عمر 25 سال
ہونی چاہئے، اسکو پاکستان کا شہری ہونا چاہیے اور اسکا نام انتخابی فہرست
میں شامل ہونا لازمی ہے۔ تاہم سینٹ کا ممبر بننے کے لئے مرد یا عورت
امیدوار کی عمر 30 سال ہونا لازمی ہے۔پارلیمانی نظام حکومت کا سربراہ
وزیراعظم کہلاتا ہے، پاکستان کے چیف ایگزیٹو یعنی حکومتی سربراہ وزیراعظم
پاکستان کا انتخاب بھی پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے کیا
جاتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے لئے ممبر قومی اسمبلی ہونا
شرط ہے۔وزیراعظم پاکستان کو قومی اسمبلی کا لیڈر آف دی ہاؤس بھی کہا جاتا
ہے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ کو اپوزیشن لیڈر کہا
جاتا ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی یا ڈپٹی اسپیکر
قومی اسمبلی کرتے ہیں جبکہ سینٹ کے اجلاس کی صدارت چیرمین سینٹ یا ڈپٹی چیر
مین سینٹ کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف، الیکشن
کمیشن پاکستان کا اک انتہائی اہم آئینی اور خود مختار ادارہ ہے، آئین
پاکستان کے آرٹیکل 218 کے ذریعہ الیکشن کمیشن کا وجود قائم ہوتا ہے، آئین
پاکستان کے آرٹیکل 218 کے مطابق مجلس شوری یعنی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں،
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور اس طرح کے دوسرے انتخابات کے لئے
الیکشن کمیشن کے عوامی دفاتر تشکیل کئے گئے ہیں، الیکشن کمیشن اک کمیشن پر
مشتمل ہوتا ہے اور اس کمیشن کا اک چیئرمین ہوتا ہے، کمیشن کے لئے ہر صوبہ
سے اک اک ممبر ہوتا ہے، ممبر کمیشن بننے کی بنیادی شرط ہے کہ وہ عدالت
عالیہ یعنی ہائیکورٹ کا جج رہا ہو،۔ جبکہ چیف الیکشن کمشنر بننے کی اہلیت
ایک ایسا شخص ہو جو کسی ہائی کورٹ یا سپریم کا جج رہا ہو، یا پھر اک
سینئرترین سرکاری ملازم رہا ہو یا ٹیکنوکریٹ ہو اور اسکی عمر اڑسٹھ سال سے
زیادہ نہ ہو۔ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تقرری آئین پاکستان کے آرٹیکل
213 کے تحت کی جاتی ہے، جسکی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے انتخابات کا
انعقاد اور انعقاد اور اسکے لئے مناسب انتظامات کرنا اور یہ یقینی بنانا
ضروری ہے کہ انتخابات پوری ایمانداری، منصفانہ انداز میں انجام دیئے جائیں
اور قانون کے مطابق ہون، اورانتخابات کو مالی و دیگر بدعنوانیوں سے حفاظت
کی جائے۔چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی کے لئے آئین پاکستان میں واضح طریقہ
کار اور ہدایات موجود ہیں، چند واضح ہدایات یہ ہیں کہ کسی بھی شخص کو کمشنر
کے عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہوں
یا سینئر سرکاری ملازم رہ چکے ہوں یا ٹیکنوکریٹ رہے ہوں اور اس کی عمر
اڑسٹھ سال سے زیادہ نہ ہوِ”سینئر سرکاری ملازم“ سے مراد ایسا سرکاری ملازم
جس نے وفاقی یا صوبائی حکومت کے تحت کم از کم بیس سال تک خدمات انجام دی
ہوں اور 22 ویں گریڈ سے ریٹائر ہوچکا ہو۔اور ''ٹیکنوکریٹ'' کا مطلب ہے وہ
شخص جو اس کا حامل ہو ایسی ڈگری جس میں کم سے کم سولہ سال تعلیم کی ضرورت
ہوتی ہو، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ تسلیم شدہ اور کم از کم بیس سالہ
تجربہ ہو، جس میں نیشنل لیول کی کامیابیوں کا ریکارڈ بھی شامل ہے، چیف
الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لئے وزیر اعظم پاکستان قومی اسمبلی میں قائد
حزب اختلاف سے مشاروت کا پابند ہے اور دونوں چیف الیکشن کمشنر کے لئے تین
تین نامزد افراد کے نام کا آپس میں تبادلہ کریں گے، اگر دونوں میں اتفاق
رائے قائم نہ ہوسکے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے،
پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن ممبران کی تعداد برابر ہوتی ہے،
اور اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں موجود پارلیمانی لیڈران کی جانب سے
نامزدہ کردہ ممبران قومی اسمبلی کو پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بناتا ہے۔یہ بات
بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ پارلیمانی کمیٹی سینٹ اور قومی اسمبلی کے
ممبران پر مشتمل ہوگی۔الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمیشن کا اپنے
عہدہ سے سبکدوش ہونے کے لئے اپنا استعفیٰ صدر پاکستان کو ارسال کرنا ہو گا،
الیکشن کمیشن کے کسی ممبر یا چیف الیکشن کمشنر کو عہدے ہٹانے کے لئے آئین
پاکستان کے آرٹیکل 209 کا اطلاق ہوتا ہے، آرٹیکل 209 کے تحت ہی عدالت عالیہ
اور سپریم کورٹ کے جج کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کی
کاروائی کی جاتی ہے یعنی الیکشن کمیشن کے ممبر اور اسکے چیف کو ہٹانے کے
لئے بھی بالکل ویسی ہی کاروائی کی جاتی ہے جیسا کے اعلی ترین عدلیہ کے ججوں
کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے کی جاتی ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 219 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فرائض کے بارے
میں واضح ہدایات ملتی ہیں، الیکشن کمیشن کے چند نہایت اہم فرائض درج ذیل
ہیں: ملک میں ہونے والے قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے لئے انتخابی
فہرستوں کی تیاری کرنا اور وقتا فوقتا انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرتے
رہنا،انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں کا انتظام کرنا،انتخابات کے دوران
انتخابی عذداریوں کے فیصلے کرنا،انتخابات کے سلسلہ میں بدعنوانوں اور دیگر
امور کے متعلق معاملات کو حل کرنا،قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، سنیٹ اور
مقامی حکومتیں کے لئے انتخابات کا انعقاد کروانا،کسی بھی ایوان کی خالی
نشست پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کروانا، الیکشن ٹریبونلز کی تقرری
کرنا،اراکین اسمبلی سے مالی گوشواروں کا سالانہ کی بنیاد پر
اکٹھاکرنا،سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کرنا، الیکشن کے دوران ہونے والی بے
ضابطگیوں پر ایکشن لینا،سیاسی پارٹیوں کی مالی بے ضابطگیوں کے متعلقہ
شکایات کو سننا (جیسا کہ گذشتہ کچھ سالوں سے اک سیاسی پارٹی کے خلاف فارن
فنڈگ کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے)۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی بھی رکن
کی بنیادی رکنیت کو کسی بھی قانون اور آئین کی خلاف وزری کی صورت میں معطل
بھی کرسکتا ہے۔
یاد رہے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ملک میں ہر قسم کے انتخابات (ماسوائے
وزیراعظم اور وزیراعلی) خفیہ رائے شماری ہی سے ہونگے۔ اور یہی موقف الیکشن
کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت صدارتی ریفرنس میں جمع
کروایا ہے۔
|