کرن بیدی کا انجامِ عبرتناک

کرن بیدی 1972 بیچ (batch) کی نہایت مقبول آئی پی ایس افسر رہ چکی ہیں۔ انا ہزارے نے جب بدعنوانی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ان کے ساتھ اروند کیجریوال کے علاوہ دوسرا سب سے معروف چہرہ کرن بیدی کا تھا ۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کبھی حلقہ بگوش بی جے پی ہوسکتی ہیں لیکن گردشِ زمانہ سے یہ بھی کردکھایا۔کرن بیدی کی مقبولت کی کئی وجوہات ہیں ۔ مثلاً انہیں1972 پہلی خاتون آئی پی ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن اس سے پہلے وہ قومی سطح پر جونیر ٹینس چمپین کے طور پر نام کما چکی تھیں۔ دہلی میں پولس کارکردگی کے لیے انہیں صدارتی اعزاز سے نواز گیا۔ ایشین گیمس کے دوران ٹرافک کے انتظامات نے ان مقبولیت میں چار چاند لگا دیئے لیکن دہلی کے ایک وکیل کے ساتھ پولس کی زیادتی کے معاملے میں اپنے ماتحت افسر کی بیجاحمایت اور اس کے خلاف وکلاء کا احتجاج ان کے میزورم تبادلہ کا سبب بن گیا۔

میزورم میں انہوں نے اپنی بیٹی کو مقامی کوٹے میں داخلہ دلا دیا حالانکہ انہیں اس کا حق نہیں تھا ۔ اس کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور کا تنازع اتنا بڑھا کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً ان کاتبادلہ کرکے انہیں دہلی واپس لانا پڑا ۔ تہاڑ جیل میں آئی جی کے طور پر غیر معمولی اصلاحات کے لیے انہیں عالمی سطح پر سراہا گیااور وہ بین الاقوامی انعام رامن میگس سیا ایواڈ سے بھی نوازی گئیں ۔ اس کا نتیجہ یہنکلا کہ انہیں اقوام متحدہ کی پولس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے والی وہ نہ صرف پہلی ہندوستانی بلکہ پہلی خاتون تھیں ۔ اس بیچ ان کا دہلی کے بی جے پی وزیر اعلیٰ مدن لال کھرانا سے اختلاف ہوگیا جو چندی گڑھ تبادلے پر منتج ہوا اور دہلی واپس آنے کوشش میں ناکامی کے بعد انہوں نے 2007 میں اختیاری سبکدوشی لے کر عوامی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ۔

ان واقعات سے با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرن بیدی کس قدر آرزو مند اور سیماب صفت طبیعت کی مالک ہیں۔ 2010 میں اروند کیجریوال نے انہیں بدعنوانی کے خلاف تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی جس پر انہوں نے بصد شوق لبیک کہالیکن 2014کے آتے آتے دونوں کے راستے بدل گئے ۔ ایک طرف نریندر مودی کے خلاف اروند کیجریوال وارانسی سے انتخاب لڑ رہے تھے اور دوسری جانب کرن بیدی مودی کی حمایت کررہی تھی ۔ 2014 میں قومی انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی نے مہاراشٹر ، جھارکھنڈ اور ہریانہ میں پہلی بار اقتدار پر قبضہ کیا تو ایسا لگنے لگا کہ بہت جلد سارا ملک زعفرانی ہوجائے گا ۔ 2015میں پہلا انتخاب دہلی کا تھا۔ دہلی کے اندرتحلیل شدہ حکومت میں بی جے پی کے پاس ۳۱ نشستیں تھیں اور عآپ کے پاس ۲۸ مگر اس نے کانگریس کی مدد سے سرکار قائم کی تھی جو بہت جلدوزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کی وجہ سے گرگئی۔ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے صرف ۵ نشستوں کے اضافہ کی ضرورت تھی جو کوئی مشکل کام نہیں تھا۔

دہلی میں بی جے پی کئی سال راج کرچکی تھی ۔ دارالخلافہ کے تین سابق وزرائے اعلیٰ مدن لال کھرانہ، سشما سوراج اور صاحب سنگھ ورما مرکزی وزیر رہ چکے تھے ۔ ایک زمانے تک اس کے ریڑھ کی ہڈی پنجابی مہاجر اور بنیا تاجر تھے ۔ مہاجرین کی اولاد کے اندر سے جب احساس محرومی ختم ہواتو ان کی نئی نسل کانگریس کی جانب راغب ہوگئی اور بنیا اپنے ذات بھائی اروند کیجریوال کی جانب کشش محسوس کرنے لگے ۔ اس صورتحال میں بی جےپی کے جعلی چانکیہ نے ایک نئی حکمت عملی وضع کرکے اصلی چانکیہ کی قبر پر لات ماردی۔ انہوں نے اروند کیجریوال کو کمزور کرنے کے لیے ان کی ساتھی کرن بیدی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جن لوگوں کے اندر خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے ۔ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی صلاحیت سے جو محروم ہوتے ہیں ان کے پاس مخالفین کو کمزور کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر صوبائی انتخاب سے قبل مخالف خیمے میں سیندھ لگانا بی جے پی کا مستقل طریقۂ کار ہے۔

مغربی بنگال اور پڈو چیری میں فی الحال یہ کھیل جاری ہے۔ ہر دن ترنمول کانگریس کے کسی نہ کسی رہنما کے دل بدل کر بی جے پی میں شامل ہونے کی خبر آتی ہے۔ جب خود سے دال نہیں گلتی توچاچا ، تاو یعنی سنگھ کی مدد لی جاتی ہے ۔ اسی چکر میں گزشتہ دنوں سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے کولکاتہ میں متھن چکرورتی سے ملاقات کی۔ موہن جی کا قیام سنگھ کے مرکزی دفتر ناگپور میں ہے۔ مہاراشٹر میں بالی ووڈ واقع ہے۔ انہیں ابھی تک ممبئی کے کسی اداکار سے ملنے کی توفیق نہیں ہوئی اس لیے لیکن چونکہ بہت جلدبنگال میں انتخاب ہونے والے ہیںاس لیے کہ وہ وہاں پہنچ گئے۔ پدو چیری میں ان لوگوں نے کانگریسیوں کو توڑ توڑ صوبائی حکومت کو اقلیت میں پہنچا دیا ہے لیکن اس حکمت عملی کا کامیاب ہونا ضروری نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نے این سی پی کو 41 سے گھٹا کر 17 تک پہنچا دیا تھا مگر انتخاب کے بعد اس کے ارکان کی تعداد 54 ہوگئی۔ اسمبلی میں اس نے کانگریس کے لیڈر کو توڑ لیا اس کے باوجود اس کے ارکان 42 سے بڑھ کر 44 ہوگئے۔ اس کے برعکس شیوسینا کا ساتھ ہونے کے باوجود خود بی جے پی 122 سے گھٹ کر 105 پر آگئی اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

امیت شاہ نے دہلی میں سارے قدیم رہنماوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنا دیا ۔ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی عآپ نے نہ صرف ۷۰ میں سے ۶۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کی بلکہ کرن بیدی خود بی جے پی گڑھ میں شکست فاش سے دوچار ہوگئیں۔ انہوں نے ہار کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے پارٹی اور اس کے اعلیٰ رہنماوں کے سر تھوپ دی ۔ ان نتائج نے کل یگ کے چانکیہ کو نہایت احمق سیاستداں ثابت کرکے ان کی پول کھول دی ۔ کرن بیدی کے ردعمل سے بی جے پی کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ان کا دہلی میں رہنا خطرناک ہے۔ اس لیے ڈیڑھ سال بعد جون 2016 میں گورنر بناکر ملک کے آخری سرے پڈوچیری میںبن باس پر بھیج دیا۔ لیفٹیننٹ گورنر کاعہدہ دراصل سیاست کا کوڑا دان ہے۔ اس طرح گویا بی جے پی نے بلا واسطہ یہ اعلان کردیا کہ اب اس ٹیشو پیپر کا کام ختم ہوگیا ہے۔اس کے باوجودپدو چیری پہنچ کرکرن بیدی نے کہا تھا:’’میں حکومت کی شکرگزار ہوں کہ مجھے یہ ذمہ داری دی گئی۔ میں ملک کی خدمت کے لئے ہی یہاں آئی ہوں اور اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی‘‘۔

کرن بیدی نے ملک کی خدمت اس طرح سے کی کہ ریاستی حکومت کو دسمبر ،2019 میں صدر کو خط لکھ کر شکایت کرنی پڑی ۔ صدر مملکت کے دفتر سے وضاحت طلب کی گئی توکرن بیدی نے اپنی صفائی میں کہا کہ وہ مرکزی ریاست کا ناظم ہونے کے ناطے قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس سے بات نہیں بنی تو پڈوچیری کے وزیر اعلی وی نارائن سامی نے کرن بیدی پر بھی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائدکرکے لیفٹیننٹ گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کرنے کے لئے 8 جنوری 2021سے گورنر ہاؤس کے سامنے غیر معینہ مدت تک دھرنے پر بیٹھنے کا اعلان کردیا ۔ نارائن سامی نے یہ الزام بھی لگایا کہ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت این ڈی اےسرکار پڈوچیری میں کانگریس؍ڈی ایم کے حکومت کو گرانا چاہتی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ تک کہہ دیا کہ وہ اس مرکز کے زیر انتظام ریاست کو تمل ناڈو کے ساتھ ضم کرنے کی خواہشمند ہے۔

کرن بیدی کے ساتھ اس کھینچا تانی کے دوران 10 فروری 2021 کو صدر رام ناتھ کووند سے ملاقات کرنے کی خاطر وزیر اعلی وینارائن سامی دہلی پہنچ گئے ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک یادداشت میں ان اسکیموں کا ذکرکیا جن کے عمل درآمد میں کرن بیدی رکاوٹ ڈال رہی تھیں ۔ نصف گھنٹے کی اس ملاقات نارائن سامی نے کرن بیدی کو لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیااور اس کی حمایت میں ایک لاکھ افراد کے دستخط والا خط پیش کیا۔ نارائن سامی برخواستگی کامطالبہ تو کررہے تھے لیکن انہیں تو بس یہ توقع رہی ہوگی کہ صدر مملکت صوبائی کے مسائل اور لوگوں کی ضروریات کے مدنظر لیفٹیننٹ گورنر کی فون پر سرزنش فرمائیں گے لیکن ایک ہفتہ کے اندران کی من مراد پوری ہوگئی۔ صدر مملکت نے 17 فروری کولیفٹیننٹ گورنرکرن بیدی کی چھٹی کرکے تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹرتلسمئی سندرراجن کو پڈوچیری کی اضافی ذمہ داری سونپ دی ۔اس طرح مشکل کی گھڑی میں پر امید رہنے والی کرن بیدی کی آخری کرن نے بھی دم توڑ دیا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.