سنگھ پریوار چونکہ اکھنڈ بھارت میں وشواس رکھتا ہےاس لیے
علاقائی تفریق کا قائل نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سی اے اے کے تحت پاکستان ،
بنگلادیش اور افغانستان تک میں رہنے والے ہندووں کو شہریت دینے کا اہتمام
کیا گیا ہے مگر جب اعتماد کرنے کی بات آتی ہے توسنگھ کے پردھان سیوک کی
نظر اپنے صوبے کی امیت شاہ پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ وزیر اعظم بننے سے قبل جیسے
ہی انہیں قومی انتخاب میں تشہیر ی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو انہوں نے
اترپردیش میں پارٹی کا نگراں اپنے منظورِ نظرامیت شاہ کو نامزد کردیا۔ یوپی
کو نہ صرف ملک سب سے بڑی ریاست ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ وہیں سے مودی جی
مستقبل میں رکن پارلیمان بننا اور رہنا چاہتے تھے اس لیے وہاں اپنے خاص
آدمی کی تعیناتی ضروری تھی ۔ قومی انتخاب میں اترپردیش کے اندر بی جے پی
کو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار کرکے امیت شاہ نے مودی جی کا پہلا سپنا
ساکار کردیا ۔
مودی جی نے جب وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی
تواس وقت پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ بنادیا گیا ۔ اس کا
فائدہ اٹھا کر فوراً سے پیشتر پارٹی کی کمان امیت شاہ کو سونپ دی گئی ۔امیت
شاہ کو صدارت کے اہم عہدے پر فائز کرنے کا مقصد داخلی محاذ پر اپنی پکڑ
مضبوط کرنا تھا ۔ اس طرح پہلی مدت کار میں پارٹی کے وہ سارے بڑے رہنما جو
کسی بھی مرحلے میں چیلنج بن سکتے تھے انہیں بڑی حکمت کے ساتھ کنارے کردیا
گیا۔ دوسری مدت کار میں پارٹی کے اندر امیت شاہ کی ضرورت باقی نہیں رہی تو
راجناتھ سنگھ کو ٹھکانے لگا کرشاہ جی کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا ۔ وزیر
اعظم کو وزیر داخلہ بنانے کے لیےپورے ملک میں گجراتی منظورِ نظر سے لائق و
فائق کوئی آدمی نہیں ملا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بی سی سی آئی کو سکریٹری
بنانے کے لیے جئے شاہ سے مناسب کوئی آدمی نہیں ملا اور اب تو اپنے صدر سے
آگے نکل کر ایشین کرکٹ کلب (اے سی آئی) کے صدر نامزد کردیئے گئے ہیں۔
ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سنگھ پریوار میں اقرباء پروری نہیں ہوتی
انہیں پتہ ہونا چاہیے جئے شاہ کی ارون جیٹلی کے بیٹے روہن دی سی سی آئی کا
سربراہ بننے کے بعد فیروز شاہ کوٹلہ گراونڈ کو اپنے والد سے منسوب کرلیا ہے۔
لوگ بجا طور پر سوال کرتے ہیں کہ کانگریس کو گاندھی پریوار کے سوا کوئی اور
کیوں نہیں ملتا ؟ یہی سوال وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ہونا چاہیے کہ
انہیں بھی ہر اہم کام کے لیے امیت شاہ کے علاوہ کوئی اور کیوں نظر نہیں
آتا ؟ کیا آر ایس ایس میں کوئی اور بچا ہی نہیں ہے؟ دستوری مجبوری کے سبب
پارٹی میں امیت شاہ کی جگہ جے پی نڈا کو صدر تو بنا دیا گیا لیکن آج بھی
پارٹی کے سارے معاملات امیت شاہ کے ہاتھوں میں ہیں ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے
کہ صدارت سے استعفیٰ دینے کے باوجود کانگریس کے لیڈر تو راہل گاندھی ہی ہیں
۔بنگال ہو یا آسام ہر صوبے میں پرچار کے لیے امیت شاہ کبھی وزیر اعظم کے
آگے تو کبھی پیچھے نظر آتے ہیں ۔
امیت شاہ نے نریندر مودی اسٹیڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا یہ وزیر اعظم کا
پرانا سپنا تھا۔ اس سے قبل دنیا کا سب سے اونچے مجسمہ کی تعمیر بھی ان کا
خواب تھا جو نریندر مودی نے اس وقت دیکھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔
اپنے عہدے کے دس سال کی تکمیل پر انہوں نےگجرات کی جانب سے قوم کو خراجِ
عقیدت طور پر ایک یادگار پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کی
خاطر انہوں نے اپنی قیادت میں سردار ولبھ بھائی پٹیل ایکتا ٹرسٹ قائم کیا۔
سن 2012 سے 2015 کے درمیان اس کام کے لیے گجرات کی صوبائی حکومت نے 500
کروڈ روپئے فراہم کیے۔ مودی جی نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے ہی سال میں
مرکز سے 200 کروڈ کی خطیر رقم روانہ کردی ۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی
اداروں سے تعاون لیا گیا ۔ عوامی شرکت داری کے لیے 2013 میں سورت اور بڑودہ
کے اندر ایکتا دوڑ کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کے بعد استعمال شدہ لوہا اعانت
پر لینے کی مہم چلائی گئی ۔ اس طرح جملہ 135 ٹن بھنگار لوہا جمع کیا گیا
اور اس میں سے 109 ٹن لوٹا مجسمہ کی بنیاد بنانے میں صرف کیا گیا باقی کہاں
گیا یہ کوئی نہیں جانتا ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ مجسمہ سازی کا ٹھیکہ گجرات ہی کے رہنے والے ملک کے امیر
ترین تاجر مکیش امبانی کی کمپنی ایل اینڈ ٹی کومل گیا ۔ اس نے یہ 3 ہزار
کروڑ روپئے کا ٹھیکہ لے کر اصل مجسمہ ٹی کیو فاونڈری نامی چینی کمپنی سے
بنوایا اور پانی کے جہاز سے منگوا کر نصب کردیا ۔ اس خطیر رقم کے خرچ سے
وزیر اعظم نے دونوں قومی انتخابات میں اپنی مقبولیت تو خوب بڑھائی لیکن ایک
سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 سالوں میں سب
سے زیادہ اونچی ہوگئی تھی کیا حکومت کا سیرو سیاحت پر یہ بے دریغ خرچ جائز
تھا؟ اس میں شک نہیں کہ سرکار کے ساتھ نجی اداروں نے بھی اس پر رقم خرچ
کروائی ہے لیکن وہ عوامی فلاح و بہبود پر ہونے والے لازمی اخراجات میں سے
تھی ۔ اب اگر سرکار ان کے اس پیسے کو ایسے فضول کاموں پر خرچ کروا دے تو اس
میں کون قصور وارہے اور کس کا خسارہ ہے؟
اپنے ملک میں ایک آئی آئی ٹی بنانے پر صرف 1167 کروڈ روپئے خرچ ہوتے ہیں
۔ اس لیے دو آئی آئی ٹی اس رقم سے تعمیر ہوسکتے تھے جہاں سے طلباء پڑھ
لکھ کر دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرتے ۔ دو ایمس بن سکتے تھے جن میں سے
ہر ایک پر صرف 1103کروڈ خرچ ہوتا ۔ وہاں سے لوگ ڈاکٹر بن کر نکلتے اور
بیماروں کا علاج بھی ہوتا۔گجرات کے لوگوں کو چونکہ تجارت میں دلچسپی ہے تو
سارے بڑے شہروں میں آئی آئی ایم کیمپس بنا دیتے جس پر صرف 539 کروڈ خرچ
آتا ہے۔ وزیر اعظم شمسی توانائی کی بہت بات کرتے ہیں تو اس کے 5 کارخانے
لگ جاتے کیونکہ وہ تو528 کروڈ میں بن جاتا ہے۔ مریخ کے خلائی سفر پر بھی
صرف 450 کروڈ خرچ ہوتے ہیں اور وزیر اعظم چندرا یان میں بیٹھ کر چاند پر
اپنا پرچم لہرا کر آسکتے تھے جس پر 800 کروڈ خرچ ہوتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ
کالج کے طلباسوالات کرتے ہیں اور ملازمت مانگتے ہیں ۔ اس لیے تعلیم گاہوں
کے بجائے سیر و سیاحت کے مراکز اور کرکٹ کے میدان بنائے جا رہے ہیں تاکہ
لوگوں کو موج مستی میں مصروف کردیا جائے۔
موجودہ سیاست میں عوام کی فلاح وبہبود سے چونکہ ووٹ نہیں ملتے اس لیے مجسمہ
بناکر جذباتی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس سے ملک بھر میں نام تو روشن ہوتا ہے
مگر مقامی لوگوں کا حقیقی استحصال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 میں جب وزیر
اعظم فتتاح کی غرض سے جانے والے تھے تو نرمدا ضلع میں کیواڈیا، راج پیپلا
اور ڈیڈی پاڈا تعلقہ کے اندر پولس نے متعدد آدیواسی کارکنان کو گرفتار
کرلیا ۔ اس مجسمے کو سات کلومیٹر سے دیکھا جاسکتا ہےمگر اس پورے علاقے میں
گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ جس سردار سروور ڈیم کی 3
کلومیٹر اراضی پر اسے تعمیر کیا گیا ہے، اس ڈیم نے تقریباً 35000 خاندانوں
کو متاثر کیا تھا اور وہ لوگ ہنوز باز آبادکاری کے منتظر ہیں۔ سرکار کے پاس
ان غریبوں کو بسانے کے لیے روپیہ نہیں ہے مگر مجسمہ جیسے نمائشی کاموں کے
لیے ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے دیکھیں تو مجسمے کا مقام شول پنیشور نامی
نہایت حساس سینچری کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کے باوجود مذکورہ تعمیر کے سبب
ہونے والے ممکنہ ماحولیاتی خسارے کا تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ اس کے علاوہ
مجسمہ تک جانے کے لئے جو 6 لین کا ہائی وے تعمیر کیا گیا ہے اس کے لئے
تقریباً 2 لاکھ درختوں کی بلی چڑھا دی گئی ۔
ماحولیات کے تعلق سے بلند باگ دعویٰ کرنے والی حکومت نے اس حقیقت کو بھلا
دیا کہ نرمدا ضلع کی زمین پانچویں شیڈیول میں شامل ہے۔ آئین کے مطابق جو
زمین پانچویں شیڈیول میں شامل ہو اس کے استعمال سے قبل گرام سبھا سے منظوری
لینی لازمی ہوتی ہے، لیکن گجرات حکومت نے متعلقہ گاؤں کی گرام سبھاؤں سے
منظوری لینے کی زحمت نہیں کی۔ افتتاح سے دو روز قبل سردار سروور ڈیم کے
نزدیک واقع 22 گاؤں کے پردھانوں نے وزیر اعظم کے نام خط لکھ کر کہا ہے کہ
وہ مجسمہ کی افتتاحی تقریب کے دوران ان کا استقبال نہیں کریں گے۔ آدیواسی
رہنماؤں نے تقریب کا بائیکاٹ اس لیے کیا تھا، کیونکہ ان کے مطابق مجسمہ کی
تعمیر سے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچے گا۔یہی وجہ ہے کہ ڈیم کے نزدیک واقع
72 گاؤں کے لوگوں نے افتتاح کے دن (31 اکتوبر 2018) کو یو م غم منا تے
ہوئے احتجاجاً کھانا نہیں بنانے کا اعلان کیا تھا۔ مقامی قبائلی عوام نے تو
مجسمہ کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے خون سے بھی خط لکھا لیکن بے حس سرکار
پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
مجسمۂ اتحاد کی تعمیر کے کام آغاز ہوتے ہی سرکار ایک نئے اسی طرح کے بے
مصرف کام میں مشغول ہوگئی۔ 2016ء میں احمد آباد کے اندر واقع 54؍ ہزار
شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش والے سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیمکو تعمیر نو
کے لئے منہدم کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔اس وقت کسی کے خواب و خیال میں
بھی یہ بات نہیں تھی کہ اسے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام سے موسوم کردیا
جائے گا لیکن اب یہ ایک حقیقت بن گیا ہے ۔ افتتاح کے موقع پر اسی سلسلے کو
آگے بڑھاتے ہوئے اس سے متصل 233؍ایکڑ کے رقبے پر ولبھ بھائی پٹیل کے نام
سے اسپورٹس انکلیو کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے ۔ ویسے تو یہ پٹیل برادری
کے غم و غصے کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن اسی کے ساتھ فضول خرچی بھی ہے۔
حکومت کے پاس نرمدا پروجکٹ کے سبب بے مکان ہونے والے غریبوں کی باز
آبادکاری کے لیے رقم نہیں ہے مگر شمسی توانائی پر خرچ کرنے لیے کوئی کمی
نہیں ہے۔ اتفاق سئ وہ کام بھی گجرات کا وہ سرمایہ دار کررہا ہے جس کو وزیر
اعظم اپنے کالر میں ٹانگ کر ساری دنیا کی سیر کرتے تھے ۔ اڈانی کو کورونا
کی تنگی میں سرکار نے ۶ بلین ڈالر کا پروجکٹ عنایت فرما دیا اور جب ساری
دنیا کے سرمایہ دار رو رہے تھے تو اڈانی کی ملکیت میں مودی جی بدولت کئی
گنا اضافہ ہورہا تھا ۔ ایک طرف حکومت یہ کہہ کر سرکاری کمپنی فروخت کردیتی
ہے کہ خزانے میں روپیہ نہیں ہے اور دوسری جانب نریندر مودی اسٹیڈیم بنانے
کے لیے 800؍کروڑ روپئے مہیا ہوجاتے ہیں۔یہ حسن اتفاق ہے مجسمہ کی طرح
اسٹیڈیم کا ٹھیکہ بھی مکیش امبانی کی لارسن اینڈ ٹوبرو (ایل اینڈ ٹی) کو
ملتا ہے۔شمسی توانائی سے ہزاروں کروڈ نکل آتے ہیں اس لیے اس سے امبانی اور
اڈانی کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے انکلیو پروجکٹ کس کے حصے
میں جاتا ہے ؟ امبانی کے یا اڈانی کے ؟ وزیر داخلہ کے حلقۂ انتخاب میں ہم
دو اور ہمارے کے لحاظ تو یہی دونوں اس کے حقیقی مستحق ہیں لیکن ایک سوال یہ
بھی ہے کہ کون جانے ولبھ بھائی پٹیل انکلیو کی تکمیل کے بعد اس کوکس کے نام
پرکر دیا جاتا ہے؟ امیت شاہ کے یا جئے شاہ کے؟ کیونکہ بقول میر تقی میر ؎
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
|