سینیٹ میں بالادستی کی جنگ۔۔۔۔ میدان آج سجے گا

ایوان بالا سینیٹ کی 37 نشستوں کے انتخابات کے لئے پولنگ آج بدھ کو ہوگی،پولنگ تین صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں صبح 9 بجے سے سہ پہر 5 بجے تک ہوگی۔سندھ میں 11 جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 12،12 نشستوں پر پولنگ ہوگی۔وفاقی دارلحکومت میں 2 نشستوں کے لئے پولنگ ہوگی۔37 نشستوں میں سب سے کڑا مقابلہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے درمیان ہوگا۔وفاقی دارلحکومت کی دو نشستوں پر چار امیدوار میدان میں ہیں۔سندھ میں 7 جنرل نشستوں پر10 امیدوار،ٹیکنو کریٹ کی دو نشستوں پر4 امیدوار اور خواتین کی دو نشستوں پر3 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔خیبر پختونخوا میں 7 جنرل نشستوں پر11امیدوار،دو ٹیکنوکریٹس پر5 خواتین کی دو نشستوں پر5 اور اقلیتوں کی ایک نشست پر4امیدوار مدمقابل ہیں۔بلوچستان سے7 جنرل نشستوں پر16امیدوار،دو ٹیکنو کریٹس پر 4 امیدوار،خواتین کی دو نشستوں پر 8 اور اقلیتوں کی ایک نشست پر4امیدوار مدمقابل ہیں۔موجودہ وزراء شبلی فراز،فیصل واوڈا،ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی،سابق ڈپٹی چئیرمین سینٹ عبدالغفور حیدری،سابق وزیر اطلاعات شیری رحمان،سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک،سابق رکن آسیہ ناصر،عثمان خان کاکڑ،مولانا عطائالرحمن،سرفرازبگٹی،ستارہ ایاز،محسن عزیز،ذیشان خانزادہ،تاج آفریدی انتخابات میں دوبارہ حصہ لے رہے ہیں۔پنجاب سے 11نشستوں پر تمام امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ان میں تحریک انصاف اور پی ٹی آئی کے پانچ،پانچ اور ایک کا تعلق حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق سے ہے۔قومی اسمبلی ہال اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہال بطور پولنگ سٹیشن استعمال کئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کی رائے پر من و عن عمل کرنے کے لیے سینیٹ الیکشن پُرانے طریقہ کار سے کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ موصول ہو گیا ہے۔سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 218 تین کے تحت شفاف الیکشن ذمہ داری ہے۔ سینیٹ الیکشن کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ سینیٹ الیکشن کو صاف و شفاف بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے۔ انتخابات منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے مکینزم بنا رہے ہیں۔ سینیٹ انتخابات گذشتہ سالوں کی طرح خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی ہوں گے۔الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ وقت کی کمی کے باعث 3 مارچ کے انتخابات موجودہ آئین و قانون کے تحت ہی ہوں گے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز سینیٹ الیکشن کے متعلق سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا کہ ایوان بالا کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرائے جائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی شرح سے رائے سنائی۔ ریفرنس پر سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحیی آفریدی شامل تھے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے دیگر ججز کی رائے سے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے متعلق صدارتی ریفرنس پررائے نہیں دینی چاہئیے۔ بینچ میں شامل دیگر ججز نے اپنی رائے میں کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے ارٹیکل 226 کے تحت ہوں گے۔ خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 266 میں واضح طور پر ذکرموجود ہے کہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ سکریسی حتمی نہیں ہوتی، الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹسز کو روکے۔ الیکشن کمیشن آئین کے تحت صاف وشفاف اورمنصفانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ ملک کے تمام ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں دوسرے روز بھی پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کیں، جس میں وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اور اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے سینیٹ الیکشن میں امیدوار وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ بھی شریک ہوئے۔ذرائع کے مطابق اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں سینیٹ الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں لیکن پیسے اور لالچ کے باوجود سینیٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے، کیوں کہ ہمارے ارکان سے رابطے ہو رہے ہیں مگر ہم متحد ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل حل کریں گے، اسی لیے پہلی بار پسماندہ علاقوں کو زیادہ ترقیاتی منصوبے دیئے جا رہے ہیں، کیوں کہ ہماری حکومت کی ترجیح عام آدمی اور پسماندہ علاقے ہیں۔یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی اور اتحادی اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے ان سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا تھا دوسری جانب
پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے مرکزی رہنما چوہدری محبوب حسین آف اسلام آباد نے کہا ہے کہ آج سینٹ کے الیکشن میں انشاء اﷲ سید یوسف رضا گیلانی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرینگے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی جمہوری قوتوں کی کامیابی ہے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی عمران خان کی حکومت پر عدم اعتماد ہو گا پی ٹی آئی کی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکی ہے عوام عمران خان کی حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں جبکہ سینئر صحافی رانا عظیم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی نے سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا اور یہ الیکشن حکومت سے زیادہ اپوزیشن کے لیے پریشان کن ہے۔رزلٹ اگلے 48 گھنٹوں میں آپ کے سامنے آ جائے گا اور ساری چیزیں کھل جائیں گی۔میری آج جنوبی پنجاب کے ایک ایم این اے سے بات ہوئی اور اس کا تعلق ن لیگ سے ہے۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں اسے ووٹ کیوں دوں۔جب یہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے علاقے کے علاوہ کسی کو نوازا نہیں۔میں خاموش ضرور ہوں مگر اسے ووٹ نہیں دوں گا۔رانا عظیم نے مزید کہا کہ حفیظ شیخ الیکشن جیت جائیں گے۔اس وقت پورے سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد کی نشست ہی اہم ہے۔میں چینلج کرتا ہوں کہ اپوزیشن 160 ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات کیلئے قومی اسمبلی سمیت ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں میں 3 مارچ کو پولنگ ہوگی۔ انتخابات کے بعد سینیٹ میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کو 28 سے 30، پیپلز پارٹی کو 19 جبکہ مسلم لیگ ن کو کل 17 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔2 صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے علاوہ وفاق میں بھی حکومت میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ سب سے اہم مقابلہ اسلام آباد سے حکومت کے حفیظ شیخ اور پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا۔ دونوں امیدواروں کو اراکین قومی اسمبلی ووٹ دیں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حفیظ شیخ باآسانی فتح حاصل کر لیں گے، جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ 3 مارچ کو حکومت کو سرپرائز دیں گے۔ اس حوالے سے رہنما تحریک انصاف شہباز گل کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کے 17 اراکین قومی اسمبلی نے مجھ سے رابطہ کیا ہے، سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کیساتھ کوئی مقابلہ نہیں بنتا، حفیظ شیخ باآسانی فتح حاصل کریں گے علاوہ ازیں حزب اختلاف نے بلوچستان میں بلامقابلہ سینیٹ الیکشن کی حکومتی پیشکش مسترد کر دی ہے حزب اختلاف نے بلوچستان میں تمام نشستوں پر متفقہ امیدوار اتارنے کا اعلان کیا ہے

جبکہ سندھ میں پی ٹی آئی رہنما اور تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان نے کہا تھا کہ کل شام سے پی ٹی آئی کے تین ارکان کو غائب کر دیا گیا ہے، تاہم صوبہ سندھ سے پی ٹی آئی کے تینوں اراکین اسمبلی کی جانب سے اپنے اغوا ہونے کی تردید آ چکی ہے۔پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی اسلم ابڑو نے منظر عام پر آکر کہا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا،دراصل پی ٹی آئی قیادت نے سندھ کو نظر انداز کیا ہے۔میں ووٹ اپنی مرضی سے دوں گا۔نیز شہریار شر اور کریم بخش گبول کے بھی ویڈیو بیانات منظر عام پر آ چکے ہیں۔جس میں انہوں نے اپنے اغوا سے متعلق صدر پی ٹی آئی کراچی خرم شیر زمان کے دعوؤں کی تردید اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔علاوہ ازیں شہر قائد کراچی کے نجی ہوٹل میں پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین سندھ اسمبلی کے لیے کمرے بُک کر لیے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر نے اپنے اراکین اسمبلی کے لیے نجی ہوٹل میں کمرے بُک کروائے اور تمام اراکین کو ہوٹل پہنچنے کے احکامات بھی جاری کر دئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کراچی ریجن کے صدر خرم شیر زمان سمیت متعدد اراکین اسمبلی ہوٹل پہنچ گئے ہیں۔خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنما خرم شیر زمان نے دعویٰ کیا تھا کہ کل شام ہمارے 3 ارکان اسمبلی کو اغوا کیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان ارکان کے موبائل بند ہیں اور گھر والوں کو بھی علم نہیں، یقین ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ارکان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ مسلسل سندھ حکومت کی جانب سے اراکین کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے۔ اراکین اسمبلی سے ہمارا رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔ سینیٹ کے پچھلے الیکشن میں لوگوں کے ضمیر خریدے گئے۔ اب جو ضمیر بیچے گا کم سے کم اس کا پتہ چل جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک منتخب ایم۔ پی۔ اے نے پارٹی سے تنگ آ کر بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ایک ویڈیو بیان میں شہریار شر کا کہنا تھا کے اس کو پارٹی قیادت سے ہمیشہ مایوسی نصیب ہوئی ہے۔ سینٹ الیکشن میں ووٹ ضمیر کے مطابق دیں گے۔ اس کا مزید کہنا تھا کے میں نے ہمیشہ پارٹی کے بیانیے کو سپورٹ کیا ہے لیکن اب کی بار میری راہیں تحریک انصاف سے جدا ہیں۔یاد رہے کے میر شہریار شر کا ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رہا ہے جس کی وجہ سے تین مرتبہ اعلی قیادت نے اسلام آباد بھی بلایا لیکن کوئی بات نہ بن سکی۔ یاد رہے کہ یہ وہ ایم پی۔ اے ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل سندھ اسمبلی میں وفاقی حکومت کو گھلم گھلا اپنی ہی پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔جس کے بعد اسد عمر اور اپوزیشن لیڈر سندھ حلیم عادل شیخ نے گھوٹکی پہنچ کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی۔اردو پوائنٹ سے بات کرتے ہوئے شہریار شر کا کہنا تھا کے 2018 کے عام انتخابات میں پچاس ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار جام مہتاب ڈھر کو شخصیت دی تھی۔ تین سال تک میرے حلقہ کی عوام کے لیے وزیراعظم عمران خان نے کوئی پیکیج نہیں دیا۔ لہذا اب مزید پارٹی میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ ہم عوامی نمائندے ہیں اور عوام کو جواب دینا پڑتا ہے۔ آج سے میری اور پاکستان تحریک انصاف کی راہیں جدا ہیں اور سینٹ الیکشن میں ووٹ ضمیر کے مطابق دونگا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کے پاکستان تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ دیا ہے باقی جو پارٹی مجھ سے رابطہ کرے گی تو پھر حلقہ کی عوام کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔

سوال یہ ہے کہ سویا ہوا یہ ضمیر مخصوص ایام میں ہی کیوں جاگتا ہے ؟آخر عوام کو بھی بتایا جائے کہ یہ بیدار ہونے والا ضمیر پھر مطمئن کیسے ہو جاتا ہے ؟
 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 46301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.