ایک شخص سمندر کنارے چہل قدمی کر رہا تھااُس نے دیکھا کہ
دور ایک نوجوان ساحل کے ایک خاص حصے پر بار بار نیچے جھکتا ،کوئی چیز
اُٹھاتا اور اُس کو سمندر میں پھینک دیتا ۔چلتے چلتے وہ نوجوان کے قریب
پہنچ گیا۔اب وہ کیا دیکھتا ہے کہ ساحل کے اس حصے میں سمندر کنارے ہزاروں
مچھلیاں تڑپ رہی ہیں شائد کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پر
لٹا دیا ہے اور وہ نوجوان مچھلیوں کو سمندر میں پھینک کر اُن کی جان بچانے
کی کوشش میں مصروف ہے۔یہ جان کر اُس کو نوجوان کی بے وقوفی پر ہنسی آگئی
اور ہنستے ہوئے بولا’’ اس کوشش سے کیا فرق پڑے گا؟یہاں ہزاروں مچھلیاں ہیں،
کتنی بچا پاؤ گے؟؟‘‘۔بات سن کر نوجوان نیچے جھکا،ایک تڑپتی مچھلی کو
اُٹھایا اور سمندر میں اُچھال دی،وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیرتی ہوئی آگے
نکل گئی۔وہ نوجوان یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا’’اس مچھلی کو فرق پڑا ہے‘‘۔یاد
رکھیں!قانون فطرت ہے کہ اگر کھیت میں بیج نہ ڈالا جائے توکچھ وقت کے بعد
قدرت اُس کھیت کو گھاس پُھوس سے بھر دیتی ہے۔اسی طرح اگر دماغ کو اچھی
فکروں سے نہ بھرا جائے تو کج فکری اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔بالکل اسی طرح
اگرکوشش نہ کی جائے، قدم نہ اُٹھائے جائیں تو انعام نہیں ملتا ،پھل نہیں
ملتا اور منزل نہیں ملتی۔سائنس بتاتی ہے کہ غبارہ اپنے رنگ کی وجہ سے نہیں
اُڑتا بلکہ اندر موجود گیس اُسے اُڑاتی ہے۔کیا اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے
کہ آپ غریب ہیں،امیر ہیں،کالے ہیں،گورے ہیں، شہری ہیں،دیہاتی ہیں،ان پڑھ
ہیں یاپڑھے لکھے ہیں۔جی نہیں،دراصل انسان کے اندر کی سوچ، لگن،جذبہ اور تڑپ
ہی انسانیت کی سرفرازی اور کردار کی بلندی تک لے جاتی ہے۔ہمیں شکر گزار
ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالی نے ہمیں سوچ و عمل کی آزادی دی ۔تاہم اس آزادی
کاتقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے اپنے حقوق و
فرائض کو بہتر طور پر ادا کریں۔افسوس !دنیا کی رنگینیوں میں گھرا ہوایہ
انسان آج اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر اپنی تخلیق کے مقصد سے بالکل ہٹ چکا
ہے۔دنیا کی چکا چوند روشنیاں ،عہدے،مرتبے اوردُولت جیسی عارضی اور
ناپائیدار چیزیں اس خاک کے پتلے کو گمراہ کر چکی ہیں ۔ پاکستان میں چند
قوتیں ہمیشہ سے اپنے ذاتی مفادات کاتحفظ یقینی بناتی چلی آئی ہیں چاہے ملک
و قوم کو اُن کی آل اُولاد،کارخانوں ،جائیدادوں اور بڑھتے ہوئے بینک بیلنس
کے لیے کوئی بھی قیمت دینی پڑ ے ۔ بیرونی دشمن قوتوں کی سرپرستی میں پلنے
والا یہ’’ سرکس کے شیروں‘‘ اور ’’ بکاؤ مولویوں‘‘ کا اشرافیہ گروہ اپنے
بیرونی آقاؤں کے کہنے پر کوئی بھی قدم اُٹھانے پر تیار رہتا ہے ۔ مُلک کی
اشرافیہ کا گروہ اپنے بچاؤ اور مفادات کے تحفظ کے لیے سلامتی اور انصاف کے
اداروں کو متنازعہ بنانے کا کھیل اور ایک بار پھر سے ’’ پرانے جال اور نئی
چال‘‘ کے ساتھ’’ بچہ جمورا‘‘کی قسط چلا رہا ہے۔باقی عوام! کمزور صحت،کم
علمی،جہالت ،شعور کی کمی،بنیادی سہولیات کی کمیابی کی وجہ سے پہلے ہی میدان
سے باہر’’ ناک آؤٹ ‘‘ہوئے پڑے ہیں ۔ عوام کو ہر بار پردے اور دھوکے میں رکھ
کر یہ ’’سیاسی سنیاسی اور بابے‘‘اور ’’بچہ جمورا کے مداری ‘‘نئے اندا ز سے
کھیل کا آغاز کر کے فتح اپنے نام کر لیتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کھیل
کے اُصول و ضوابط کو وقت کی ضرورت اور نزاکت دیکھ کر بنایا جاتا ہے پچھلی
کئی دہائیوں سے یہ کھیل کبھی جمہوریت کا بچاؤ تو کبھی سیاسی انتقام اور
کبھی مذہب کے نام پر کھیلا جاتا رہاہے۔
اب ہمیں تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھنا ہے یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے معاشرے
میں پھیلی ہوئی ملاوٹ، نا انصافی ،جعل سازی ، کرپشن اوراقربا پروری نے اس
اشرافیہ کی مدد سے اپنے قد م ہمارے قومی کردار اور سرکاری اداروں میں اس
قدر مضبوط کر لیے ہیں کہ آج تک ہم اپنے نصب العین کا تعین نہیں کر سکے
اورسرکاری اداروں میں افسران کو عوامی خدمت کا درس یاد نہیں کرواسکے
۔موجودہ حکومت بھی شدیدخواہش کے باوجوداپنے مختصر وقت میں ملک میں پھیلی
ہوئی ان آلودہ آلائشوں کو سمیٹ نہیں سکی جس کی بڑی وجہ معاشی بدحالی،سیاسی
جوکروں کی مسلسل جاری سرکس اور خود پی ٹی آئی کی تنظیمی نااتفاقیاں اور
کمزور پالیسیاں ہیں ۔ آج بھی پاکستان میں بنیادی انسانی سہولیات کی دستیابی
محال ہے اس کی وجوہات میں حکومتی نااہلی تو شامل ہے مگر اشرافیہ کا بڑا
ہاتھ بھی ہے ۔ہماری تاریخ بہت تلخ ہے مگر افسوس حافظے کی کمزور اس قوم نے
کبھی بھی اپنے ماضی سے سبق سیکھنا پسند نہیں کیا۔جونہی وقت کی دھول ،ماضی
کے اوراق کو دھندلا دیتی ہے تو اس قوم کے افراد پھر سے اپنے ناخداؤں کے
سامنے سجدہ ریز ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ کی جنگ عمران خان کے
ساتھ ہے ،عمران خان کی ناکامی میں اُن کی کامیابی ہے مگر قوم کو یاد رکھنا
ہوگا کہ مشکلیں ہر قوم کے راستے میں آتی ہیں مگر بلند نظر قومیں ہمیشہ پستی
سے بلندی کی طرف رُجوع کرتی ہیں۔وہ خود تو زمین پر ہوتی ہیں لیکن اُن کی
نظریں آسمان پر ہوتی ہیں۔مسلسل کوشش اُن کی زندگی کا اُصول ہوتا ہے اور جدو
جہد کے دنوں میں اُن کی طبیعتیں سکون و آرام سے نا آشنا ہوجاتی ہیں ۔ایسی
قوموں کی زندگی کا ہر لمحہ دنیا کے لیے پیغام انقلاب ہوتا ہے اور یہی سب سے
بڑا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قومیں عروس ترقی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ہر
پاکستانی کے لیے اب وقت ہے ارادہ کرنے اور عملی قدم اُٹھانے کا ۔ ہمیں اپنا
فرض پورا کرنا ہے چاہے اس کے لیے ہمیں شخصیت پرستی،ذات برادری،علاقائی
عصبیت،مذہبی انتہا پرستی،نسلی اور لسانی بتوں کو پاش پاش ہی کیوں نہ کرنا
پڑے۔آؤ! اپنی آستین کے سانپ تلاش کریں۔
|