ملک عزیز پاکستان میں اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور
اس کی ایوان زیریں(پارلیمنٹ)میں اتحادیوں کو ملا کر181 کی تعدادبنتی ہے جو
نسبتا اپوزیشن ارکان160 کے کافی مستحکم ہے۔اگر حکومت اور اس کے اتحادی چاہے
تو کوئی بھی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔حکومت و اتحادی اگر ہر ایشوز،نکتے
پرباہم اکٹھے ہوکر چلیں توبالکل ہاریں نہ اورایک رہ کر اپوزیشن کی ایک بھی
نہ چلنے دیں مگرایسا نہیں ہے۔حکومت و اتحادیوں میں ایک واضح دراڑ ہے جو پُر
ہونے میں نہیں آرہی ہے۔بات یہ نہیں ہے کہ اتحادی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ
یہ ہے کہ اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنے مفادات کے بھی اسیر
ہیں۔ جہاں مفاد ہو ،حکومت کے ساتھ ،جہاں نقصان ،حکومت سے راہ فرار۔دراصل’’
جمہوریت کے ان علمبرداروں‘‘ کے لیے سیاست ایک کھیل تماشااور اپنے اپنے
مفادات کی جاء ہے جہاں اخلاقیات اور وفا کا کیا کام ۔ اپنے اپنے اغراض کے
لیے ’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں‘‘کے مصداق مروت ووفاداری کا سارا
کیا کرم کیے محض اپنے اپنے ہی مفادات کے گرد گھومتے اپنے ہی خیر خواہوں اور
ہم جولیوں کے احساسات و خیالات و جذبات کا ناحق خون کرتے نظر آتے ہیں۔ان کا
عالم یہ ہے کہ اغراض اورمفادات نے ہی ان کو آپس میں جوڑ رکھاہے اور مفادات
و اغراض ہی ان کو الگ کرتاہے۔ جہاں مفاد دیکھا ،جھک گئے،جہاں مفاد نہ ملا
،ہٹ گئے۔ان کی یہی وہ روش ہے کہ جس نے حکومت کا تو ستیاناس کیاہی ہے سیاست
کابھی جنازا نکالاہواہے۔ہمارے سیاست دانوں ،رہنماؤں کے اِن رویوں نے ملک کا
تو نقصان کیا ہی ہے قوم کابھی کچھ نہیں چھوڑاہے۔اپنے پنے مفادات واغراض کے
لیے اِدھراُدھرہونے والے ان ’’سیاسی بھگوڑوں‘‘نے جمہوریت کے نام پر
’’اپنوں‘‘کوہی گرانے کی یہ جو مہم جوئی شروع کررکھی ہے ۔کسی بھی طرح لائق
تحسین عمل نہیں ہے۔جہاں دانہ دیکھا چگ لیا،جہاں مفادپایا،لڑھک گئے جیسے عمل
نے ہمارے پورے ملکی سسٹم کی بنیادیں ہلائی ہوئی ہیں۔پہلے ہی ملک میں سکون
نام کو نہیں ہے ۔مہنگائی و بے روزگاری کا عفریت جان کھائے ہوئے ہے۔بدامنی
ودہشت گردی کا راج ہے ۔غریب مفلوک الحال ،پریشان اور ان کا کوئی پرسان حال
نہیں ہے۔ایسے میں حکومت میں رہ کر ،اقتدار انجوائے کرکے بھی ایک دوسرے کی
پیٹھ میں جنجر گھونپنے جیسی سیاست نے وطن کوتو حال وبے حال کیاہی ہے قوم کو
بھی ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج و لاچار کرکے رکھ دیاہے۔3 مارچ کو سینیٹ
الیکشن کے موقع پر ساری عوام نے دیکھاکہ کس طرح قوم کے ’’معمار‘‘کیاکیا گل
کھلاتے رہے۔کیسے ایک منتخب حکومت کی چولیں ہلاتے رہے۔کیسے ایک حکومتی
نمائندے کو کچھ ہوس زر اور ہوس اقتدار کے لالچیوں ،ہر باراقتدار کے مزے
لینے والے کے ہاتھوں بے بس اوریرغمال بناکر ہرواگئے اوروہ جیت گئے جن کی
اکثریت بھی نہ تھی اور نہ وہ جیتنے کے قابل۔اپنے بن کر ،ساتھ مل کر ،متعدد
یقین دہانیاں کرواکرپیٹھ میں جنجر گھونپنے والے لوگ آپ کو یہاں ہی وافر
ملیں گے اور کہیں نہیں۔افسوس حکومت کی حالت وہ رہی کہ مجھے اپنوں نے
مارا،غیروں میں کہاں دم تھا۔میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔تحریک
انصاف کو نقصان دینے والے ،وزیراعظم عمران کو اعتماد کا ووٹ لینے تک
پہنچانے والے یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حکومت میں اقتدار انجوائے کرنے والے ہیں
اور بدلتی حالت اور نئی حکومت میں پہلے سے ہی اپنی سیٹ ایڈوانس بک کروانے
والے ہیں۔اپنی چند ایک سیٹوں کے بل بوتے پر’’ کولیکشن گورنمنٹ ‘‘کے نام پر
اس میں جا گھستے ہیں۔پھرسیٹیں بھی انجوائے کرتے ہیں اور نرالے کھیل بھی
انجام دیتے ہیں۔یہ ملک پاکستان کی بری بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ہونے والے ہر
الیکشن میں ایسے لوگوں کی جگہ باآسانی بن جاتی ہے جو پھر حکومت میں ہوتے
ہوئے اقتدار بھی انجوائے کرتے ہیں اور اپنے مفادات و مطالبات کے لیے ہر
لمحہ ،ہر وقت حکومت وقت کو بھی بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔کبھی ہاں کبھی ناں
،کبھی اِدھر کبھی اُدھر،یہی وہ لوگ ہیں جو حکومتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے
والے اور اس حال تک پہنچانے والے ہیں۔حکومت میں رہ کر اپنا وزن دونوں پلڑوں
میں رکھے ہوئے ہیں۔حفیظ شیخ کو سینیٹ الیکشن ہروا کریوسف رضاگیلانی کو
جتواکر اپوزیشن سے بھی اپنا انعام وصول کرچکے اوراب عمران کو اقتدار میں
رکھ کر حکومت سے بھی اپنا سب کچھ پالیں گے۔ افسوس ملک عزیزمیں مسند اقتدار
پر فائض افراد ایسے ہیں کہ آسمان پر ٹاکی لگابھی آتے ہیں اور ہٹابھی آتے
ہیں۔بدھ کو سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کو( آئندہ 2023کے عام انتخابات میں
اپنی جگہ کنفرم کرنے کی خاطراووروں سے کیے گئے وعدے کے عین مطابق )ہروانے
والے ہفتہ کو عمران خان کو وزارت عظمی ٰ پر اعتماد کا ووٹ دے کر ،برقرار
رکھ کر،موجودہ حکومت میں بھی رہ جائیں گے۔ حفیظ شیخ کو عبرت کی جاہ بنانے
والے عمران خان پر واہ واہ کرتے جائیں گے۔وزیر اعظم عمران ہیں اور رہیں
گے۔عمران اعتماد کاووٹ لے لیں گے،ان شااﷲ۔مگر افسوس اقتدار پر بٹھانے اور
گرانے کا یہ کھیل تماشا چلتا رہے گااور یونہی مفادات کے اسیر حکومتی و
اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے کبھی اُف کبھی ہائے بھی کرتے رہیں گے۔کبھی اپوزیشن
اور کبھی حکومتی جھولی میں گرتے رہیں گے۔ملک وقوم کے مفادات کے برعکس روپیہ
اور اقتدار کی ہوس میں تمام تر اخلاقی پہلوؤں کو یکسرنظر انداز کرتے ’’ فخر
و غرور‘‘سے زمین بوس ہوتے رہیں گے۔ملک عزیز میں ایسا برسوں سے ہورہاہے اور
بدقسمتی سے اِس کی روک تھام ذراسابھی نہیں ہے۔
|