عالمی بنک ہر سال ایک کاروبار ی عمل آوری(Doing business) کی ایک
رپورٹ شائع کرتا ہے ۔ اس کے تحت 190 ممالک کے اندر تجارت کی آسانی کے لیے بنائے
جانے والے قوانین کا جائزہ لے کر ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے اسے ڈیبپی آر کہتے
ہیں ۔ اس ادارے کی رپورٹکے مطابق 2019 کے دوران کاروبار کی آسانی فراہم کرنے میں
ہندوستان کا درجہ ، 2018 کے 77 ویں مقام سے بڑھ کر 2020 میں 63 ویں پر پہنچ گیا۔ اس
کا مطلب یہ ہے کہ سرکارتاجروں کو تو خوب آسانیاں فراہم کرتی ہے مگر کسانوں کو اس
سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ اپنے چہیتے سرمایہ داروں کی راہ ہموار کرنے کے لیے وزیر
اعظم فی الحال اعلیٰ سرکاری افسران کو تختۂ مشق بنانے میں مصروف ہیں ۔ ان کے مطابق
قوم کو ’’بابوؤں‘‘ (سرکاری عہدیداروں) کے حوالے کرکے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔
بیوروکریٹس کی سربراہی میں چلنے والے عوامی شعبے (پبلک سیکٹر ) کے حوالے سے انہوں
نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک شخص محض آئی اے ایس افسر ہونے کے سبب ائیرلائنس، کھاد
اور کیمیائی فیکٹریاں چلا رہا ہے۔ اس سے کیا حاصل ہوگا؟
مودی جی یہ بھول گئے کہ اگر ایک چائے بیچنے والا ملک چلا سکتا ہے تو آئی اے ایس کا
امتحان پاس کرنے والا ہوائی کمپنی یا کیمیائی کھاد کی فیکٹری کیوں نہیں چلا سکتا؟
ان کے دوست امبانی اور اڈانی جو دنیا بھر کا روبار کررہے ہیں کیا آئی ایس افسران
سے بہتر صلاحیت کے مالک ہیں؟ مکیش امبانی کی واحد بڑی خوبی یہی تو ہے کہ وہ دھیرو
بھائی امبانی کے گھر میں پیدا ہوگیا ۔ وہ مکیش امبانی سے کیوں نہیں پوچھتے تم ٹیلی
کام کی صنعت کیسے چلا تے ہو؟وزیر اعظم جب یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’اگر ہمارے بابو ملک
سے تعلق رکھتے ہیں تو ہمارے نوجوان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو انہیں پتہ ہونا
چاہیے کہ بابو آسمان سے نہیں آتے بلکہ ملک کے نوجوانوں میں سے ہی ہوتے ہیں اور
صنعتکار کی طرح ہر بابو نوجوانوں کےمددسے صنعت چلاتا ہے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ
معاشی ترقی کے لیے حکومت کو نجی شعبے کا احترام کرنا ہوگا اور اس کو مناسب نمائندگی
بھی دینی ہوگی۔ وزیر اعظم ساری دنیا میں گوتم اڈانی کو اپنے ساتھ لے کر جاتے رہے۔
فرانس میں رافیل خریدنے کے لیے تو انل امبانی کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے ۔ اب اس سے
زیادہ کیا حترام ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی اسٹیڈیم میں پویلین اینڈ گوتم اڈانی کے
نام پر ہے اور میڈیا اینڈ کو امبانی کے نام کردیا گیا ہے۔
ایک طرف توآئے دن ملک کے دبے کچلے لوگوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کی سازش سامنے
آتی ہے اور دوسری جانب نجی شعبے کو مناسب نمائندگی دینے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ کیا
یہ تضاد کی انتہا نہیں ہے؟ وزیر اعظم نے خوردنی تیل کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے
لیے کسانوں کو تلسی اگانے کا مشورہ تو دے دیا لیکن اگر وہ اس بابت واقعی ملک کو
خودکفیل بنانا چاہتے ہیں تو ان کو یہ جاننا ہوگا کہ آزادی سے قبل تیل برآمد کرنے
والا یہ ملک اپنی ۷۰ فیصدضرورت کےلیے بیرون ِ ملک درآمد پر منحصر کیوں ہو گیا؟1970
سے قبل 95 فیصدخوردنی تیل کی ضرورت ملک کی داخلی پیداوار سے پوری ہوجاتی تھی ۔ اس
کے بعد 1986کے تک ملک میں تلہن کی پیداوار ایک کروڈ ٹن پر رکی رہی لیکن تیل کی کھپت
میں اضافہ ہوتا رہا اس لیے درآمد پر انحصار بڑھتا چلا گیا ۔یہی زمانہ تھا جب گجرات
میں نونرمان تحریک چل پڑی تھی اور مودی جی سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔ 1977میں جے
پرکاش نرائن کی مکمل انقلاب نے مرارجی دیسائی کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا اور ان کے
زمانےیعنی 1977-80 کے درمیان درآمد کی شرح 70 فیصد پر پہنچ گئی۔
اس وقت)1977(کے وزیر مالیات ایچ ایم پٹیل نے ایک سرکاری عہدے دار ڈاکٹر ورگھیز
کورین کو تیل کے بحران پر قابو پانے کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ 1988 میں راجیوگاندھی
نے امول کے طرز پر دھارا نام کا پروجکٹ شروع کروایا ۔اس سے ملک میں تلہن کی پیداوار
تقریباً دوگنا ہوگئی اور درآمد ۲ فیصد پر آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1990-94 کو اس شعبے
کا سنہری دور کہا جاتا ہے جو پبلک سیکٹر کی مدد سے آیا تھا ۔ راجیو گاندھی نےیہ
کارنامہسام پٹروڈا اور ورگھیز کورین نامی بابو لوگوں کی مدد سےانجام دیا تھا۔ وزیر
اعظم کے آبائی صوبے گجرات میں یہ کام ہوا مگر ان کو نظر نہیں آتا۔ اس لیےملک کو
خود کفیل بنانے کا خواب بیچنے والےمودی جی کو سرکاری عہدیداروں کا مذاق اڑانے کے
بجائے ان سے کام لینے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پبلک
سیکٹر کو چلانے کے لیے کسی پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس کو تو ریزرو بنک کا گورنر بنانے
کے لیے ایک ڈھنگ ماہر معاشیات نہیں ملتا ۔ جن کو وہ لاتے ہیں وہ بہت جلد بیزار ہوکر
بھاگ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کا ہے۔
1994 تک یہ ملک خوردنی تیل کے معاملے میں خود کفیلہوگیا تھا اس کے بعد 1997 میں بی
جے پی سرکار بنی اور پچھلے 23 سالوں میں 13سال اس کی حکومت کرتی رہی اس کے باوجود
ایسا کیوں ہوا؟ خود ان کے دور حکومت میں خوردنی تیل کی در آمد 40 لاکھ ٹن سے بڑھ
کر 100 لاکھ ٹن پر پہنچ گئی؟ اس کے لیے دوسروں پر الزام تراشیکرنے کے بجائے خود
احتسابی کی ضرورت ہے لیکن انتخابی مہمات سے فرصت ملے تو اس جانب توجہ دی جائے ۔
مستقل مزاجی سےنجکاری کی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئےوزیر اعظم نے ایک ویبنار میں کہا
کہ حکومت کے کنٹرول میں بہت ساری صلاحیت سے کم استعمال ہونے والی بلکہ غیر استعمال
شدہ جائیداد ہے۔ اس لیے انہیں مونٹائز کیا جائے گا یعنی نجی اداروں کو بیچ دیا جائے
گا ۔ ان کے مطابق جوسرکاری شعبے خسارے میں ہیںان کی مدد ٹیکس دہندگان کے ذریعہ ادا
کیے جانے والےسرمایہ سے کرنی پڑتی ہے۔ اس سے غریبوں اوربھرپور خواہشات کے حامل
نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی ہے اس لیے وہ ادارے معیشت بوجھ بن گئے ہیں ۔ وزیر اعظم
فرماتے ہیں سرکاری اداروں کو صرف اس لئے نہیں چلاتے رہنا چاہیے کہ وہ برسوں سے چل
رہے ہیں۔
ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے آخر
نجی ہاتھوں میں جاتے ہی منافع کیسے کمانے لگتا ہے؟ ماضی میںیہ الزام لگتا رہا ہے کہ
سرکاری کارخانوں کو بیچنے کے لیے انہیں جان بوجھ کر خسارے میں ڈالا جاتا ہے۔ اس کی
ایک مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائز ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) ہے ۔ رافیل
جنگی طیارہ سودے میں آفسیٹ کا کام اس کو نظر انداز کرکے ایک ایسی نجی کمپنی کو دے
دیا گیا جس مالک انل امبانی تھا ۔ اس کو کوئی تجربہ نہیں تھا اور آگے چل کر وہ
دیوالیہ ہوگیا ۔ حکومت کے اس فیصلے کے منفی اثرات ایچ اے ایل کے ہزاروں ملازمین کو
جھیلنا پڑا۔ حکومت جس طرح نجی اداروں کی سرپرستی کررہی ہے اگر یہی رویہ اپنے اداروں
کے ساتھ روا رکھا جاتا تو ایچ اے ایل کی یہ درگت نہیں بنتی ۔ اسی طرح کا سلوک حکومت
نے منافع بخش سرکاری کمپنی او این جی سی کے ساتھ بھی کیا ۔ اس سلسلے میں او این جی
سی مزدور سبھا نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر الزام لگایا کہ ان حکومت نے
فائدہ میں چلنے والے اس پی ایس یو کو خسارے میں دھکیل دیا اورایسا برا وقت آگیا کہ
اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کا پیسہ نہیں بھی نہیں رہا ۔ اسے اوور ڈرافٹ
کے ذریعے تنخواہ کی ادائیگی کرنی پڑی ۔
او این جی سی کو ڈبونے کے لئے سرکار نے اسےڈوبتی ہوئی کمپنی گجرات اسٹیٹ پٹرولیم
کارپوریشن ( جی ایس پی سی) کے حصص خریدنے پر مجبور کیا۔اس کام پر آٹھ ہزار کروڑ
روپے ادا کرنے کے بعد او این جی سی پر اقتصادی دباؤآ گیا اور اس کی حالت دن بہ دن
بگڑتی چلی گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر فائدے میں چلنے والی ملک کی سب سے
بڑی تیل پیداواری کمپنی خسارے میں چلی گئی ۔ مودی جی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو
جی ایس پی سی کے بارے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ کاویری ؍گوداوریکے ساحل پر وافرتیل
کے ذخائر ہیں اور اس کو نکالنے کے بعد ملک کا معدنی تیل کی درآمدات پرانحصار ختم
ہوجائے گا ۔ اب چونکہ جی ایس پی سی کے ساتھ او این جی سی کا بھی بیڑہ غرق ہوچکا ہے
اس لیےمودی جی فرماتے ہیں کہ 'کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے' اور ان کی حکومت
اسٹریٹجک شعبوں میں کچھ پبلک سیکٹر کو چھوڑ کرباقی انٹرپرائز کی نجکاری کے لئے
پرعزم ہے۔ اپنے قریبی سرمایہ داروں کو سرکاری اثاثہ بیچنے کےلیے ا س سے اچھی منطق
اور کیا ہوسکتی ہے؟
مودی جی کے مطابق حکومت کی توجہ عوامی فلاح و بہبود پر ہونی چاہئے اور اس مقصدکے
حصول کی خاطر اس نے بیروزگاری کو بامِ عروج پر پہنچا کر کسانوں کو 100 روزہ احتجاج
پر مجبور کردیا ۔ موجودہ حکومت کا ارادہ 100 سرکاری اثاثوں کو بیچ کرکے ڈھائی لاکھ
کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا ہے۔ آگے چل کر حکومت چارمخصوص شعبوں کے علاوہ باقی تمام
سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے۔اس طرححکومت اپنے سارے اثاثوں کو بیچ
کر150لاکھ کروڈ روپئے سرکاری خزانے میں لائےگی۔ اس رقم میں 111 لاکھ کروڑ روپیہ نئی
قومی انفراسٹرکچر پروجیکٹس پر خرچ کیا جائے گا ۔ خدا کرے کہ اس رقم سے مندر بنانے ،
مجسمے کھڑا کرنے، اسٹیڈیم کی تعمیر اور ایوان پارلیمان کی عمارت بنانے کے علاوہ بھی
کوئی کام ہو لیکن اس کا امکان کم ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو انتخاب جیت کر اقتدار پر
فائز رہنے کے علاوہ کسی شئے میں دلچسپی نہیں ہے۔یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ سرکاری
عہدیداران کو خزانے پر بیٹھا سانپ بناکر پیش کرنے والے اقتدار کی کرسی پر ناگ بن کر
بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں راحت اندوری کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
سانپ جتنے تھے خزانے پہ وہ بیٹھے رہ گئے
مال جتنا تھا وہ چوکیدار لے کر اڑ گیا
|