قرارداد پاکستان اور اس کا تاریخی پس منظر

تحریر: شبیر ابن عادل
ملک کی تاریخ میں 23مارچ 1940ء کے دن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس تاریخی دن قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجلاس 21 تا 23 مارچ1940ء لاہور میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چونکہ پنجاب انگریز حکومت کا مضبوط گڑھ تھا اس لیئے ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہاں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی یا کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ اس زمانے میں متحدہ پنجاب پر یونینسٹ حکومت تھی اور وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات تھے۔
مسلم لیگ کے جلسے سے چند ہفتوں قبل 28فروری1940 ء کو یونینسٹ حکومت نے متحدہ پنجاب کی تیرہ (13) عسکری تنظیموں پر پابندی لگادی جن میں خاکسار تحریک بھی شامل تھی۔اس کے رہنما علامہ عنایت اللہ مشرقی نے اسے اپنی تحریک کیلئے ایک چیلنج تصور کیا اور خاکساروں کو ہدایت کی کہ وہ موقع ملتے ہی اس قانون کو پامال کریں۔ اس کے بعد پنجاب اور سرحد کے خاکسار لاہور میں جمع ہوئے۔ انہوں نے 19مارچ کو اس قانون کو توڑنے کا فیصلہ کیا اور اندرون بھاٹی گیٹ کے محلہ شیش محل سے بادشاہی مسجد تک مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ادھر پولیس بھی اس مارچ کو روکنے کے لئے تیار تھی چنانچہ جونہی خاکساروں کا بیلچہ بردار جلوس شیش محل سے روانہ ہوا پولیس نے اسے روکنے کے لئے پہلے لاٹھی چارج کیا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔چوک نوگزا ہیرامنڈی لاہور میدان جنگ بنا جس میں70اور بعض اطلاعات کے مطابق82 خاکسار نوجوان شہید ہوئے اور سیکڑوں زخمی۔
لاہور کی فضاء بھی انتہائی سوگوار تھی مگر مسلمانوں کے حوصلے انتہائی بلند تھے اور وہ ہر حال میں اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے پر عزم تھے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے تار دے کر نواب بہادر یار جنگ کو دلی طلب کیا اور صورتحال بتائی۔نواب بہادریار جنگ لاہور پہنچے، علامہ مشرقی سے ملے قائد کاپیغام پنچایا۔خاکساروں کی عیادت کی، شہدا کے گھر جاکر تعزیت کی۔
پنجاب کی یونینسٹ حکومت نے ان حالات میں مسلم لیگ کے جلسے کو روکنے کی بھی کوشش کی، جلسہ گاہ کے لئے جگہ دینے میں روڑے اٹکائے تو میاں امیر الدین نے کریم پارک کی زرعی اراضی کی فصل کٹوا کر زمین پر بچھوا دی اور جلسہ گاہ بنادیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح 21 مارچ کوفرنٹئیر میل کے ذریعے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے جہاں لاکھوں لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا قائد اعطم ریلوے اسٹیشن سے سیدھا زخمیوں کی عیادت کرنے ہسپتال پہنچے اور ان کی عیادت کرنے کیساتھ ان کے جذبے کی بھی داد دی جس پر کارکنان مسلم لیگ و مسلمانان ہند کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔
قائداعظم ؒ نے 22 مارچ کو اپنے خطبہ صدارت میں دو قومی نظریے اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص پر بڑے مؤثر دلائل دئیے۔
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا دوسرا سیشن 23 مارچ کولاہور کے منٹو پارک میں جس کا نام بدل کر اقبال پارک رکھ دیا گیا ۔اسے ملک کی تاریخ میں یوم الفرقان یعنی فیصلے کا دن بھی کہاجاتا ہے۔اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح کررہے تھے۔ جلسہ گاہ میں تل دھرنے تک کی جگہ نہ تھی قائد اعظم نے تقریباًسو منٹ طویل تقریر کی چونکہ اس جلسے کا مقصد دو قومی نظرئیے کو اجاگر کرنا تھا اس لئے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اور قرار داد پاکستان پیش کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے مذہب الگ ہیں جن کی غمی خوشی،رسم و رواج اور رہن سہن الگ ہے لہٰذا یہ دو قومیں ہیں، میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں مسلمان اور مسلمانوں کا رہنما ہوں جبکہ گاندھی خود کو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں قوموں کا لیڈر کہتے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ ہندو ہیں اور صرف ہندو قوم کے لیڈر ہیں۔کیا ان کو یہ کہنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
اس اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قراداد لاہور پیش کی۔اس قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے جو علاقے جغرافیائی طورپر ایک دوسرے سے ملحق ہیں اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان کی حدبندی اس طرح کی جائے کہ وہ آزاد مسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں اور یہ ریاستیں مکمل طور پربااختیار اور خودمختار ہوں۔ اس قرارداد کی تائید چوہدری خلیق الزماں نے کی۔قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ قرارداد کے حق میں خان اورنگزیب خان، حاجی سر عبداللہ ہارون، نواب محمد اسماعیل، سید عبدالرؤف شاہ، ڈاکٹر محمد عالم، قاضی محمد عیسیٰ، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے بہت سے مسلم اکابرین نے مدلل تقریریں کیں۔
اگلے دن یعنی 24مارچ قرارداد کی اجتماعی منظوری ہندوستان کے تمام حصوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد افراد نے دی۔
اس قرار داد کے محرک اور مقررین کی تقاریر میں پاکستان کا قطعی ذکر نہ تھا۔ اس قرارداد کو محض تقسیم ہند کی قرارداد کہاگیا تھا البتہ بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اپنی تقریرمیں اسے پاکستان کی قرارداد کہااور وہ بھی اس وجہ سے کہ چوہدری رحمت علی کی کوشش اور سعی سے یہ لفظ مشہور ہوچکا تھا۔
ہمار ے ملک کا نام پاکستان 1933 ء میں چوہدری رحمت علی نے اپنے ایک کتابچے میں تجویز کیا تھا جس کا نام اب یا کبھی نہیں تھا۔
ہندوستانی پریس نے طنزیہ طورپر اس نام کو ایسا اچھالا کہ لفظ پاکستان زبان زد خاص وعام ہوگیا اور مسلمانوں نے قائد اعظم زندہ باد،سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائینگے اور بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے لگائے اور اپنے قائد حضرت محمد علی جناح کی قیادت میں انگریز و ہندو کے سامنے سینہ سپر ہو گئے،
قرارداد لاہورمیں مسلم ریاستوں کا ذکر تھا، ایک مسلم ملک کا نہیں، بعد میں 1946ء میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے حسین شہید سہروردی کی تحریک پر ریاستوں کے بجائے ایک مملکت کا تصور پیش کیا۔اس لئے14 اگست 1947 ء کو جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ابھرا تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے نام سے اس کے دو بازوتھے جن کے درمیان ایک ہزار میل یا سولہ سو کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور درمیان میں بھارت۔ مشرقی پاکستان رقبے کے اعتبار سے مغربی پاکستان سے چھوٹا تھا مگر مشرقی پاکستان کی آبادی پورے ملک کی آبادی کا56 فیصد تھی۔
(اس مضمون کی تیاری میں ان کتابوں سے مدد لی گئی: بیسویں صدی سال بہ سال از عقیل عباس جعفری، تاریخ پاکستان از پروفیسر نذیر احمد تشنہ، دی آکسفورڈ کمپنئن ٹو پاکستانی ہسٹری از عائشہ جلال)



shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.