یوم پاکستان 23مارچ۔ قرار داد پاکستان
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
یوم پاکستان 23مارچ۔ قرار داد پاکستان ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پاکستان کا قیام تو 14اگست 1947ء کو عمل میں آیا لیکن برصغیر ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کے لیے ایک الگ اسلامی مملکت کی جدوجہد برسوں پر محیط ہے۔ ہندوستان میں دو قومیں بڑی تعداد میں آباد تھیں ایک ہندو اور دوسرے مسلمان۔ ہندو تعدادمیں زیادہ تھے لیکن مسلمان بھی تعداد کے اعتبار سے کم نہ تھے۔ ہندوستان پر انگریز حکمرانی کررہا تھا۔ایک جانب ہندو اور دیگر غیر مسلم قومیں مل کر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کررہی تھیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انگریز بھی متعصب تھا، وہ پورے ہندوستان پر حکمرانی تو کررہا تھا لیکن در پردہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو فوقیت دیا کرتا، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریز نے ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کیا ہوا تھا۔ مسلمان اس بات کو محسوس کر رہے تھے۔ اس وقت کے ہندو بھی انگریز سے نجات چاہتے تھے۔ اب دونوں کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی جائے۔ ایک جانب ہندو سمجھ رہا تھا کہ انگریز سے آزادی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان پر ہندوؤں کی حکومت قائم ہوجائے گی اور مسلمان جو کہ اقلیت میں تھے ان کے زیر نگر ہوکر رہ جائیں گے۔ اس دور کے مسلمان اکابرین ہندو کی اس چال سے بخوبی واقف تھے انہیں علم تھا کہ ہندو انگریز سے آزادی کے لیے ہندو مسلم ایک کا نعرہ ضرور لگارہے ہیں لیکن اندر سے یہ مسلمانوں کے لیے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے رہنماؤں نے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے،خاص طور پر جدید علوم سے آگاہی حاصل کرنے کی جانب راغب کیا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان انگریز اور ہندوؤں سے اسی صورت میں مقابلہ کرسکتے ہیں جب وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔چنانچہ ایک جانب انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی تو دوسری جانب مسلمانوں نے یہ محسوس کر لیا کہ مسلمان اور ہندو ایک ساتھ ایک ریاست میں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ دونوں اقوام کا مذہب، تہذیب وتمدن، رسم و رواج، روایت، رہن سہن مختلف ہیں۔جنگ آزاد1857ء کے بعد سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید علوم کی جانب راغب کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوؤں نے کا’نگریس‘ کی بنیاد رکھی بظاہر سب کے لیے مساوی حقوق کی بات کی، لیکن ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔ کانگریس میں بہت سے مسلمان رہنما بھی شامل تھے ان میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی کانگریس کے رکن تھے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ کانگریس ہندوؤں کے مفاد ات کے لیے سرگرم عمل ہے تو انہوں نے کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔کانگریس کا قیام 1889ء میں عمل میں آیاتھا۔ کانگریس کے قیام کے مقاصد میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ صرف ہندوؤں کے مفادات کے لیے کام کرے گی۔ مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کی اس چال کو محسوس کر لیا۔ مسلمانوں کی جانب سے دو قومی نظریہ سامنے آیا مجدد الف ثانی، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کے بعد شاہ ولی اللہ اور دیگر مسلم اکابرین نے دو قومی نظریہ کے حق میں تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے حوالے سے کئی تحریکوں نے بھی جنم لیا۔مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا ہوچکی تھی انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اور ہندوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں کو ایک الگ مملکت کے قیام کی جانب جانا ہوگا۔ مسلمانوں کی جماعت ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 30دسمبر1906ء میں سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کی رہائش گاہ پرآل مسلم لیگ کے قیام کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اپنی شخصیت، اعلیٰ تعلیم، فہم و فراست اور بہترین مقرر کے طور پر سامنے آچکے تھے۔ وہ اس وقت آزادیِ ہند اور ایک قوم کے تصور کے داعی تھے۔ جیسے جیسے ہندوؤں کی زیادتیاں آشکار ہوتی گئیں جناح نے محسوس کر لیا کہ اب وہ کانگریس کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے 1913ء میں مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے آپ کانام تجویز کیا اور وزیر علی نے اس کی تائید کی۔ بعد میں قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے سربراہ ہوئے اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنایا۔ مسلم لیگ کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے خلاف کانگریس کی سرگرمیوں کا جواب دینا تھا، ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنا، متعصب ہندوؤں کی متعصبانہ ہتھ کنڈوں کا جواب دینا، انتہا پسند ہندو تحریکیں شروع ہوچکی تھیں ان کو لگام دینا تھا، انگریز جو غیر جانب نہیں تھا اسے احساس دلانا تھا کہ وہ غیر جانبدار ی سے کام لے اور مسلمانوں کو بھی وہی مقام و مرتبہ دے جو وہ ہندوؤں کو دے رہا ہے۔ لیکن انگریز کی سوچ ہندو نظریات سے مطابقت رکھتی تھی اور اب بھی یہی صورت حال ہے چنانچہ اس نے اندرون خانہ ہندوؤں سے اپنی دوستی کا ثبوت دیا۔ قاید اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولوی فضل حق، دیگر اکابرین نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کی تحریک کو گلی گلی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد میں ایک الگ اسلامی مملکت کو ہر صورت لازمی قرار دیا۔ جدوجہد جاری و ساری رہی۔ قائد اعظم مسلمانوں کی قیادت کر رہے تھے اور انگریز کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے لیے اسے قائل کرنے کی جدوجہد کررہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کی طویل اور سخت جدوجہد کامیابی کی جانب جاتی نظر آئی اور 23مارچ 1940ء لاہور کے مقام منٹو پارک جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے مسلمانوں کا اہم اور تاریخی اجتماع منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمائی۔ قائد کی افتتاحی تقریر سے مسلمانوں میں ایک الگ مملکت قائم کرنے کا ولولہ عروج پر پہنچ گیا۔ اس موقع پر قائد نے کہا کہ ’ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الا قوامی طور پردو قوموں کا مسئلہ ہے۔ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرہ سے بھر پور ہوگا۔ آپ نے باور کرایا کہ اس گھمبیر صورت حال میں ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔ دوسرے دن 23مارچ 1940ء کو اس وقت کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق جو شیر بنگال کہلاتے تھے نے تاریخی قرار داد پیش کی جس میں صاف اور واضح الفاظ میں پاکستان کے قیام کی جانب جدوجہد کی بات کی گئی تھی۔ قرار داد کو قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا تھا اور یہی قرار داد پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ’اس قت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہاگیا تھا کہ ان علاقوں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ قائم ہو“۔ 23مارچ 1940ء کی قرار داد، قرارداد پاکستان، قرار داد لاہور اور قرارداد مقاصد بھی کہلائی۔ یہی وہ قرار داد تھی جس کے نتیجے میں قاعد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دیگر اکابرین قائد ملت خان لیاقت علی خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے ساتھ مل کر پاکستان کے قیام کو سات سال کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان 14اگست 1947ء میں حاصل ہوا۔ قیام پاکستان کی سات سالہ جدوجہد میں مسلمانوں کو سخت مسائل اور مشکلات اٹھانی پڑیں۔ قیام پاکستان کے وقت بے شمار مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی بھی دی۔ ہندوستان کے بے شمار شہروں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، اپنا گھر بار، ساز و سامان ہندوستان میں چھوڑ کر پاکستان سے محبت کا عملی مظاہرہ کیا اورایک لازوال تاریخ رقم کی۔ اس امید کے ساتھ کہ مسلم آزاد وطن میں مسلمان آزادشہری کی حیثیت سے اپنے دینی شعار اور روایات کی روشنی میں زندگی بسر کرسکیں گے۔ (23مارچ2021ء) |