بے حد حمدوثنا اس ذات باری تعالی کی، جس نے اپنی مشیت
مبارکہ اور قدرت کاملہ سے پہلے آدم کی تخلیق کی اور پھر اسے اپنی ربوبیت سے
اعلی مقام عطا کیاکہ ملائکہ سر بسجود ہوئے اور پھر اپنے انھیں بندوں میں سے
کچھ خاص بندے چنے جن پر اپنے جمال و تجلیات کے پردوں کو وا کیا۔انھیں
بابرکت ہستیوں میں سے سالک،مجذوب،عاشق محبوب،صاحب جود و سخا حضرت شیخ کبیر
الدین شاھدولہ قدس سرہؒبھی ہیں۔ جنھیں ان کی فراخدلی و سخاوت کی وجہ سے
شاھدولہ دریائی گنج بخشؒ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عرفان پناہ شیخ دولا کے مبداؤ منشاء کا بیان،
(بمطابق تذکرہ شیخ دولہ گجراتی از محمد چراغ بن شاہ مراد گیلانی)
مرجع الخلائق،قبلہ ارباب فیض و عطا،کعبہء جودوسخا،مقرب حضرت مولا، شیخ دولا
قدس سرہ العزیزؒسے ایک روز عزت خان ولد سلطان شاد مان گکھڑ نے درخواست کی
کہ یا حضرتؒ!اپنے ابتدائی حالات سے ہمیں آگاہ فرمائیے۔
حضرتؒ نے اس لطف و کرم کے باعث،جو وہ ان پر روا رکھتے تھے،ان سے درخواست کو
شرف قبولیت بخشتے ہوئے زبان الہام وا کی اور فرمایا۔
”میری والدہ کا نام نعمت خاتون اور والد کا نام عبد الرحیم لودھی افغان
ہے۔جن کا تعلق سلطان سکندر لودھی کے قبیلے سے تھا۔ اس قصے کی تفصیل کچھ یوں
ہے کہ سلطان سلیم ولد شیر شاہ سوری کے عہد حکومت میں ہمایوں بادشاہ سے
وفاداری اور پاس نمک رکھنے پر سلطان سارنگ شہید ہو گئے اور ان کے اہل خانہ
اور قبیلہ کی تمام عورتیں اور بچے افغانوں کے ہاتھوں تباہی اور لوٹ مار کا
شکار ہوئے۔
غازی خان بن سلطان سارنگ کی بیٹی، جو کہ نعمت خاتون کی والدہ تھیں،افغانوں
کی قید میں چلی گئیں۔ نعمت خاتون اس حادثے کے وقت ماں کا دودھ پیتی تھیں۔جب
سلطان سلیم کا عہد سلطنت رو بہ زوال ہوا تو ہمایوں بادشاہ ایک سال تک بر سر
اقتدار رہا اور اس جہان فانی کو خیر آباد کہہ گیااور بادشاہی اکبر کو مل
گئی۔نعمت خاتون سن بلوغ کو پہنچ چکی تھیں۔عبدالرحیم نامی ایک افغان نے،جو
کہ بادشاہ کے معتمد خدمت گار اور قابل سپاہی تھے،نعمت خاتون کو اپنے نکاح
میں لے لیا اور اکبر بادشاہ کے تخت نشینی کے پچیسویں سال شیخ دولاؒ کی
ولادت ہوئی اور اسی سال میرے والد عبدالرحیم نے اس دار فانی سے عالم
جادوانی کے لئے رخت سفر باندھا“۔
چوں کہ نعمت خاتون نے اپنی والدہ کی زبانی سنا تھا کہ ان کا وطن پوٹھوہار
ہے،لہذا یہ بے کس و لاچار بیوہ ہندوستان سے ہجرت کر کے پوٹھوہار آ گئی۔وہاں
چونکہ سلطان سارنگ کے واقعہ کو ایک مدت گزر چکی تھی،لہذا کسی نے انھیں نہیں
پہچانا اور احوال پرسی نہیں کی۔وہ پانچ سال تک موضع کالہ،پرگنہ روہتاس میں
رہئیں اور چار سال تک چکی کی مشقت سے گذر بسر کی اور اسی مقام پر جان،جان
آفریں کے سپرد کی۔
آپ ؒکا سلسلہ(طریقت)قاتل الکفار محی السلام حضرت امام علی الحق (جو سیالکوٹ
میں دفن ہیں)تک پہنچتا ہے۔آپ بارہ سال تک شاہ شیدا سر مست ؒکی خدمت اقدس
میں بھی رہے۔جو مجذوبیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی حیات اور خاص طور پر
مرض الموت کے دوران آپ نے ان پر اپنے دل و جان نچھاور کیے۔خدا نے ان کی
فریاد سنی اور حضرت شیدا سر مست ؒنے وقت وصال آپ شاھدولہ سرکارؒ کو خرقہ
خلافت اور رشدو ہدایت کا اذن عطا فرمایا۔جس سے ظاہر و باطن کے تمام اسرار
حضرت پر کھل گئے اور حضرت شیدا سر مستؒ کے الفاظ ’بیا اے دولہ،جسے دے تسے
مولا‘ نے چار دانگ عالم کو آپ کے زیر فرماں کر دیا۔
شاہ شیدا سر مست ؒکے انتقال کے بعد شاھدولہؒ کو امام علی الحق کی جانب سے
اشارہ ہوا کہ خلق خدا کی رشدو ہدایت کے لئے سیالکوٹ ترک کر کے گجرات چلے
جائیں۔چنانچہ آپ نے حضور کے حکم کی تعمیل کی اور گجرات تشریف لے آئے اور
شہر کے درمیان ایک ندی نالے کے نشیبی حصے پر مٹی ڈال کر اس کے اوپر اپنے
حجرے اور خانقاہ کی بنیاد رکھی اور خلق خدا کی ظاہری اور باطنی تربیت میں
مصروف ہو گئے۔
گجرات میں آتے ہی زائرین و معتقدین کا رش اس قدر بڑھ گیا کہ رات اور دن کے
آٹھوں پہر کسی بھی وقت خانقاہ مرد و زن کے انبوہ کثیر سے خالی نہ ہوتی،نقدی
اور اجناس صورت نذرانہ بارش کی مانند برستا اور دریا کی طرح بہا دیا جاتا۔
رجوع خلق کا یہ سلسلہ شاھدولہؒ کی ظاہری زندگی تک ہی محیط نہ رہا بلکہ آج
بھی جاری و ساری ہے۔آپؒ ماہر تعمیرات بھی تھے۔ اس لئے آپ کو تعمیراتی کاموں
سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ آپ فرماتے کہ’مساکین کی مدد کا اس سے بہترین کوئی
ذریعہ نہیں‘۔
آپ نے اپنی خانقاہ سے متصل نماز عیدین کی ادائیگی کے لئے ایک پختہ اور
خوبصورت مسجد کی بنیاد رکھی(جس کی جگہ آج بھی ایک شاندار مسجد قائم ہے۔) اس
کے ساتھ ہی آپ نے دو بڑے تالاب،حمام،کنوئیں،مہمان سرائیں اور پل بھی تعمیر
کروائے۔اگر کبھی آپؒ تعمیراتی کام موقوف فرماتے تب بھی ایک ہزار نوے مزدور
اور بیلدار آپ کی خدمت میں حاضر رہتے۔آپؒ کا یہ فعل فقط محتاجوں اور خلق
خدا کی بہبود کے لئے تھا ورنہ آپؒ تمام دنیاوی علائق سے بے نیاز تھے۔آپ کا
ایک بہت بڑا کارنامہ دریائے دیوگہ(موجودہ سیالکوٹ کے قریب، نالہء ایک)پر
ایک پل کی تعمیر ہے۔جس کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے کہ:’ئ’شاہجہاں کی
بیٹی بادشاہ بیگم نے زر کثیر خرچ کر کے دریائے دیوگہ پر کئی بار پل تعمیر
کروایا مگر جب طغیانی آتی تو پل ٹوٹ جاتا اور بیچارے لوگوں کا سامان اور
مال مویشی بہہ جاتے،لہذا بادشاہ بیگم نے حاکم گجرات بدیع الزماں کو اپنے
حضور طلب فرمایااور کہاکہ! میری دلی تمنا ہے کہ اس سرکش دریائے دیوگہ پر پل
تعمیر ہو مگر ہر بار یہ پل بہہ جاتا ہے۔کچھ ایسا کرو کہ یہ پل سیلاب و
طغیانی میں محفوظ رہے،تو مرزا بدیع الزمان نے عرض کیا کہ، دیوگہ تیز رفتار
اور پرتلاطم دریا ہے۔اس پر پائیدارپل کی تعمیر ناممکن نظر آتی ہے۔ مگر
شاہدولہؒ اس کو سر انجام دینے کے لئے اگر توجہ دیں تو اس کی تعمیر ممکن ہے۔
شاہدولہ سرکارؒ نے بادشاہ بیگم کی عرضداشت قبول کی اور وہاں خود تشریف لے
گئے۔
دریا سے متصل ایک آبادی(موضع بھندال کی حدود میں)کے قریب زمین اس قدر نیچی
تھی کہ وہاں پر ہمیشہ پانی کھڑا رہتا۔آپ نے بیل داروں کو پانی نکالنے کا
حکم دیا۔ جب پانی نکل گیا تو آپ نے چند فٹ زمین کھودی کہ نیچے سے ایک قدیم
عمارت کے آثار نظر آئے،مزدوروں نے اس عمارت کی اینٹیں اکھیڑنا شروع کر دیں۔
آپ نے اپنے دست مبارک سے چند اینٹیں اٹھا کر عین دریا کے درمیان میں رکھ
دیں۔قدرت الہی سے ان اینٹوں کا رکھنا تھا کہ بہتا پانی رک گیا۔
چنانچہ آپؒ نے مناسب جگہ دیکھ کرپل کی بنیاد رکھ دی۔ پل تعمیر ہونے تک آپ
وہیں موجود رہے۔بعد میں کوئی طغیانی یا طوفان اس پل کو مسمار نہ کر سکی۔
آپؒ اس طریقہ کار سے لوگوں کو معاش بھی مہیا کرتے تھے تا کہ دوسروں کے آگے
دست سوال نہ ہوں۔ آپ ان بلند نگاہ،خوش نصیب،عالی نظر اور کیمیا اثر لوگوں
میں سے تھے۔جو خاک و خشت کو زر و جواہر سے افضل خیال کرتے۔آپؒ کے پاس جو
کچھ بھی آتاکبھی روک کر نہ رکھتے۔آپ کا معمول تھا کہ جمعہ کے روز شہر کے
سارے بچے آپ کی خانقاہ میں حاضر ہوتے۔غزلیں،نظمیں،ریختہ پڑھتے۔بچے جب
بچگانہ کھیل کھیلتے تو شاھدولہ سرکار ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ان کو
شکر،شیرینی اور نقدی بھی بطور انعام دیتے اور ان کے اساتذہ کے لئے بھی ہدیے
و تخائف بھیجتے۔لیکن اتوار کا دن خاص چھوٹی بچیوں کے لئے مخصوص تھا۔شہر اور
گردونواح سے ہر ذی روح آپ کی زیارت کے لئے آتا۔آپ کی خانقاہ، فیض دستگاہ
میں بخشش،انعام خاص و عام کی مہمانداری کے علاوہ روز مرہ کے اخراجات کی غرض
سے ساٹھ روپے مختص تھے۔آپ ان مستفید ہونے والوں کے علاوہ چرند،پرند،درندوں
اور حیوانات پر بھی خرچ کرتے تھے۔
آپ شاھدولا سرکارؒکی حیوانات سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں
کہ حونخوار جانور بھی آپ کے آگے دم دبا دیا کرتے تھے۔بعض کتب میں
شیر،ہاتھی،بکریاں،ہرن اور چرند پرند ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتے۔بعض
روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ کے پاس جو جانور موجود ہوتے تھے۔آپ ؒاکثر
اوقات انھیں موتیوں سے مرصع ٹوپیاں پہنا دیا کرتے تھے۔اس طرح وہ اور
خوبصورت ہوجاتے،دوسرا یہ ٹوپی ان کی پہچان بن جاتی کہ جانور کس ہستی کے
ہیں؟
روایت ہے کہ اس طرح ٹوپی پہنے ہوئے ایک ہرن جہانگیر بادشاہ نے شاہدرہ کے
قریب دیکھا اور اس کے متعلق دریافت کیا۔جب اسے آپؒ کی کرامات کے متعلق
بتایا گیا تو اس نے ہرن کو پکڑ لیا اور سرکار سے ملنے کی تمنا ظاہر
کی۔تاریخ کی بعض کتب میں آپؒ کی جہانگیر سے ملاقات ثابت بھی ہوئی ہے۔ جس نے
آپ کو پانچ بیگھ زمین بھی دی مگر آپ نے اس کا تحفہ ٹھکرا دیا۔مگر ان پیران
طریقت سے جہاں لوگ بے حد محبت اور عقیدت رکھتے ہیں وہیں ان کے متعلق کئی
خرافات بھی مشہور کر دی جاتی ہیں۔
چھوٹے سر والے بچے،جنھیں عرف عام میں شاہدولہ کے چوہے کے نام سے پکارا جاتا
ہے۔پہلی بات تو یہ کہ یہ چوہے نہیں،یہ انسانوں کی اولاد اور ان کے ساتھ
رہتے ہیں تو ایسے کہنا انسانیت کی توہین ہے۔
وہ لوگ جنہیں اللہ پاک کے ان مقرب بندوں سے کوئی خاص بیر ہوتا ہے۔ایسی
کہانیاں اور من گھڑت قصے پھیلاتے ہیں جیسے کہ یہ چھوٹے سر والے بچے شاہدولہ
سرکار سے منسوب کیے جاتے ہیں۔
ایسے کہنا کہ بے اولاد لوگ آپ کے مزار پر اولاد کی منت مانتے ہیں تو پہلا
بچہ ایسا پیداہوتا ہے،جیسے وہ لوگ منت پوری کرنے کے لئے مزار پر چھوڑے جاتے
ہیں۔سراسر بغض کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قدیم وقتوں میں جب اناج کی کمی ہوتی
تھی اور والدین اپنی ضعف الاعتقادی کی وجہ سے بچوں کو آپ کے پاس چھوڑ جاتے۔
آپ ان کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرتے اور
ان سے کراہت نہ فرماتے۔لیکن ہوا اس طرح سے کہ اس مزار کے ساتھ کوئی زمین
وقف نہیں کی گئی تھی تو بعد میں آنے والے مجاوروں نے اپنی گزر اوقات کے لئے
ان مخصوص بچوں کو اپنے گزر اوقات کا ذریعہ بنا لیا، جو بعد میں بھی طویل
عرصے تک جاری رہا۔
کچھ نا عاقبت اندیش ان بچوں کوٹھیکے پر دینے لگ گئے۔ چونکہ لوگ ایسے اولیاء
اللہ سے ایک خاص لگاؤ رکھتے ہیں تو ان چھوٹے سر والے بچوں کو دیکھتے ہی
صدقہ خیرات انھیں عطا کر دیتے۔ جس سے انھیں کافی فائدہ ہونے لگاتھا۔مگر اب
ایسا کچھ نہیں ہے،اسی طرح چند دن پہلے سوشل میڈیا پر بھی ایک ایسی ہی تحریر
نظر سے گزری کہ جس کے مطابق مزار پر نومولود بچوں کو اغواء کر کے ان کے
سروں پر لوہے کے خودچڑھا دیے جاتے ہیں،تا کہ ان کا سر چھوٹا رہ جائے۔
تو ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ اولیاء اللہ سے ایسی باتیں منسوب کرنا کہاں کی
دانشمندی ہے؟
اللہ پاک کی یہ برگزیدہ ہستیاں انسانوں میں امن و سکون بانٹتی ہیں نہ کہ
اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیزوں میں ترامیم کر کے لوگوں کے لئے باعث آزار
بنتی ہیں۔یہ صاحب کرامات انسان اللہ پاک کے امور میں مداخلت نہیں کرتے۔
اور دوسری بات ایسے بچے تو دنیا بھر میں پیدا ہوتے ہیں تو کیا وہ لوگ یہاں
منت ماننے آئے تھے یا وہ کسی اور منت یابد دعا کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
درحقیقت ایسے بچے وہ معذور بچے ہوتے ہیں جنھیں خود ان کے والدین بھی پالنے
سے قاصر ہوتے ہیں۔
طبی حوالے سے اگر بات کی جائے توسر کا چھوٹا ہونا ایک بیماری ہے۔جسے
مائیکرو سفالک یا صغر الراس کہا جاتا ہے،جو دماغ کے وزن میں کمی رہ جانے سے
یا انسانی کھوپڑی کی مناسب نشو ونما نہ ہونے کے باعث ہوتی ہے۔شعاؤں کے
اثرات سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
ان کے علاوہ متعدد وجوہات بھی ہو سکتی ہیں،موروثی اثرات بھی ہو سکتے
ہیں۔بلاوجہ انھیں کسی بزرگ سے جوڑ دینا ماسوائے جہالت و حسد کے اور کچھ
نہیں ہوتا۔
شیخ دولہ کے آخری ایام اور مرض الموت،
آپ ؒنے اپنے وصال سے پہلے چند روزسیالکوٹ میں قیام کیا جہاں آپ ؒ امام علی
الحق کے روضہ اقدس پر معتکف رہے۔ایک دن علی الصبح روضہ مبارک سے باہر آئے
تو آپ کے ہاتھ میں یاسمین کے دو ترو تازہ پھول تھے ۔حاضرین نے مودبانہ عرض
کیا کہ”یہ بے موسم کے پھول کہاں سے آئے؟“
آپؒ نے فرمایا کہ”آج رات امام کی خدمت میں ملتمس ہوا کہ ہماری آسودگی کی
غرض سے اپنے جوار میں چند بالشت زمین عطا فرمائیں“۔
انھوں نے حکم دیا کہ وقت قریب آن پہنچا ہے،یاسمین کے یہ دو پھول تبرک لو
اور جتنی جلدی ہو سکے گجرات جاؤ کہ تمہاری آسودگی کے لئے اس مقام کا تعین
کیا گیا ہے۔ان کا یہ فرمانا تھا کہ میں اسی لمحے گجرات کو روانہ ہو
گیا۔سیالکوٹ کے ساکنین رخصت کی سعادت کے منتظر تھے،
کیا مرد اور کیا عورت،کیا غنی اور کیا مفلس،
یہ خبر سن کر سب عقب میں بھاگے اور دریائے چناب کے کنارے پہنچنے تک خلق خدا
اس طرح جمع ہو گئی گویا کوئی عظیم الشان لشکر اکٹھا ہوا ہو۔ شیخؒنے موضع
میانی ملا حان میں،جہاں حضرتؒ کا لگایا ہوا شہتوت کا باغ ہے،رات بسر کی اور
صبح زیارت کے لئے آنے والوں کو الوداع کہہ کر خود بدولت ایک کشتی میں بیٹھے
اور دریا عبور کیا۔پانچ روز صحت و سلامتی سے گذر گئے۔چھٹے روز اچانک بخار
اور اسہال نے حضرت ایشان کو آ لیا اور تیرہ روز تک اس مرض میں مبتلا
رہے۔حکماء اور حاذق اطباء بغرض حصول سعادت مختلف مرکبات اور معجون تیار کر
کے لاتے تھے، لیکن آپ ہر گز کھانے پر آمادہ نہ ہوتے اور فرماتے تھے کہ دولا
دوست سے ملاپ چاہتا ہے اور یہ نادان لوگ فاصلے کے اسباب چاہتے ہیں اور
زندگی کے لیے کوشاں ہیں اور نہیں جانتے کہ،
زندہ آنست کہ با دوست وصالی دارد
آپؒ بروز پیر،۱۵ ربیع الاول،1082ھ میں جام بقا نوش کیا۔آپ کی عمر شریف
اندازا ایک سو دس برس تھی۔آپ کا روضہ مبارک اسی جگہ پر بنایا گیا جہاں آپ
سیالکوٹ سے آ کررونق افروز ہوئے تھے۔
ایک تحقیق کے مطابق اس وقت آپ نے جس جگہ ڈیرہ جمایا،وہ جرنیلی سڑک یا
شہنشاہی سڑک کہلاتی تھی۔شمال سے آنے والے تمام حملہ آور اور بادشاہ اسی
راستے سے گزرتے تھے اور کئی خوش نصیبوں نے آپؒ سے فیض بھی پایا۔ آپ کے مزار
پرہر سال ماہ جون کی پچیس سے ستائیس (ہاڑھ کی دوسری جمعرات)تک سالانہ عرس
منعقد ہوتا ہے۔جس میں ملک بھر سے عقیدت مندشرکت کرتے ہیں۔
شاہدولہ دریائی کے فرمودات،
آپؒ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص غذا اس لئے نہیں کھاتا کہ اس سے لذت طعام حاصل
ہو،بلکہ کھانا صرف ضرورت کے وقت اس لئے کھانا چاہئیے کہ عبادت الہی کے لئے
قوت ملے۔
اگر کوئی سوئے تو اس کا مقصد آسائش نہیں ہونا چاہئیے بلکہ یہ کہ عبادت کے
لئے بدن میں طاقت کی تجدید ہو۔
یاد الہی کا لب لباب یہ ہے کہ دل کو حب دنیا سے الگ رکھا جائے۔
اگر عاجزی اور انکسار کے مقام تک پہنچنا ے تومفلوک الحال لوگوں کے پاؤں کی
خاک بن جاؤ۔
زہدواطاعت اپنے آپ سے رہائی حاصل کرلینے کا نام ہے اور عالم سرحوشی میں
اللہ تعالی کے سوا کسی سے دل لگانے کو کہتے ہیں۔
موت کو ہر وقت موجود سمجھو کہ حق تعالی کی یاد کا خلاصہ یاد رکھنا ہے۔
استغنا، غنی مطلق یعنی ذات باری تعالی کی صفت ہے اور بندہ جس کی تحلیق صرف
بندگی کے لئے استغنا کا مدعی ہوتا ہے تو یہ اس کی طرف سے غرور و نخوت، خود
نمائی،تکبر اور خود پرستی کا اظہار ہے۔
میری جان!آئین درویش،خاک نشینی اور خود بینی سے دوری ہے نہ کہ گوشہ نشین ہو
کر دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور دوسروں میں عیب تلاش کرنا۔
|