سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی قربانی

جمہوریت برداشت ،صبر اور نا امید نہ ہونے کا نام ہے۔جب بڑے بڑے دانشور پی ڈی ایم کے اتحاد کو ختم اور ایک پارٹی کے اختلاف کو تحریک ختم ہونے کا نام دیتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کو میدان کا فاتح قراردینے والوں پر مسکرانے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے،حالاں کہ جمہوریت میں آناً فاناًحالات پلٹنا معمول کی بات ہوتی ہے،چناں چہ اگر یہ سمجھا جائے کہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے پرانے بدلے چکائے ہیں تو یہ سمجھنے والوں کی غلط فہمی ہے۔ان باتوں سے قطعہ نظر کہ ایک دم سے معاملات اس نہج پر کیوں کر پہنچ گئے،یہ سوچنا چاہیے کہ اتنے محتاط طریقے سے قائم پی ڈی ایم میں یہ اختلاف کیوں ہوا؟

دور اندیش حلقہ کو پہلے سے یہ ایک خطرہ تھا کہ باقی پارٹیوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں، پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے،جس کے پاس ایم این ایز کی بڑی تعداد ہے اور ایک صوبے پر حکومت بھی ہے۔اگر وہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفے اور صوبے کی حکومت قربان کرتے ہیں تو کیا انہیں بدلے میں کوئی بڑی کامیابی مل سکے گی․․․؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست اصول،اخلاقیات یا نظریے کے ساتھ نہیں،بلکہ سیاسی مفادات کو مدِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ہر ایک کو اقتدار چاہیے،جمہوری روایات نہیں،اسی لئے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے فورم کو مقتدر حلقوں کے ساتھ ساز باز کے لئے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا،لیکن یہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کی بڑی سیاسی غلطی بھی بن سکتی ہے۔آصف علی زرداری نے بار بار مقتدر حلقوں سے مل کر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر جمہوریت کو بڑی چوٹیں دی ہیں،جس کی وجہ سے آج تمام سیاست دانوں کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں،لیکن اب پیپلز پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ پی ڈی ایم کے فورم سے کوئی مزید مفاد کشید کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے سوچنے کے لئے پی ڈی ایم سے 4اپریل تک کی مہلت لے لی ہے ۔

اب رہی بات مسلم لیگ (ن) کی،تو مریم نواز سیاست میں جرأت کی زندہ مثال بن کر سامنے آئی ہیں ۔اس وقت پاکستان کی سیاست میں سب پر وہی بھاری ہیں،حالاں کہ حکومت اور مقتدر حلقوں کی تمام تر توپوں کا رخ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی جانب ہے۔ان کے تمام خاندان اور دوستوں کو جیل میں ڈالنے اور انہیں خاموش کروانے کے تمام تر حربے استعمال ہو چکے ،مگر ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی۔ (ن) لیگ متحد ہو کر طوفانوں کا مقابلہ خوب کر رہی ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے،ایک حلقہ چاہتا ہے کہ ماضی کی طرح ہتھیار ڈال دیے جائیں،دوسروں کے مفادات کو لے کر چلا جائے اور اپنی سختیاں آسانیوں میں بدل لی جائیں،مگر سمجھ دار حلقہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی سوچ کے ساتھ کھڑا ہے کہ اس بار سیاست سے مقتدر اداروں کی اجارہ داری کو ختم کر کے دم لیں گے،حالاں کہ یہی ملک کے روشن مستقبل اورترقی کی بنیاد ہے،ورنہ اس وقت ملک جس حال میں پہنچ چکا ہے،یہاں تبدیلی تو کیا ملک کا سنبھلنا ممکن نظر نہیں آتا۔

اب رہی بات لانگ مارچ کی،جو کہ واقعی سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہے،اسے کسی پختہ لائحہ عمل کے بغیر شروع کر دینا حماقت ہو گا،خاص طور پر جب ایک بڑی پارٹی اس عمل سے گریزاں ہو،یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ التوا کا شکار ہوا،کیوں کہ لانگ مارچ کہنا آسان،مگر اسے کامیاب کرنا، اتنا ہی مشکل کام ہے،حالاں کہ عوام یک زبان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت قابل قبول نہیں،ان کی نا اہلی اور ڈکٹیٹر شپ سوچ کی وجہ سے ملک اور قوم کو جتنا نقصان ہوا،ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

یہاں یہ پیشِ نگاہ رکھنا لازم ہے کہ پی ڈی ایم کا مقابلہ نہ صرف حکومت بلکہ طاقت ور حلقوں کے اتحاد سے ہے۔ان کے پاس تمام تر قوت موجود ہے اور پی ڈی ایم عوامی طاقت کے ساتھ نہتے لڑنا چاہتے ہے۔یہ حقیقت عیاں ہے کہ حکومتی اقدامات اور فیصلوں نے غریب عوام سے جینے تک کا حق چھین لیا ہے،یوں مقابلے کے لئے فضا بالکل ساز گار ہے ،لیکن یہ بھی درست ہے کہ قانون اور پروپیگنڈا کرنے کے وسائل حکومت کے پاس موجود ہیں ۔ان کے خلاف دھمکیاں اور دباؤ استعمال کیا جا رہا ہے،جس کی مثال آصف علی زرداری کا عین موقع پر حکومت کے خلاف میدان میں اترنے سے انکار اور استعفے نہ دینے کا اعلان کی وجہ سے پانسہ پلٹنا، معمول کی بات نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ جمہوریت میں اصل طاقت عوام کی ہوتی ہے،لیکن پاکستان کی سیاست میں ایسا نہیں ہے۔اگر یہاں عوامی طاقت ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو شہید نہ ہوتے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے انگلینڈ میں جلاوطنی کے آخری دور میں کیا خوب کہا تھا کہ پاکستان اور دوسرے ممالک کی سیاست مختلف ہے،میں اب پاکستانی سیاست کو خوب سمجھ چکی،آئندہ موقع ملنے پرکامیابیاں ہوں گی ،لیکن وطن دشمنوں نے ایک ذہین،کابل اور جمہوری روایات کی پاسباں کو شہید کر دیا۔اب اﷲ تعالیٰ اور عوام نے وہ قوت اور پزیرائی مریم نواز کو دی ہے اور یہی ان کی بقا کی ضامن ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف یا مریم نواز کو اقتدار دینے پر طاقتیں کبھی راضی نہیں ہوں گی۔ان کے پاس ایک راستہ ہے کہ انہیں اپنی جدوجہد کا مرکز تحریکِ پاکستان کی طرح ایک تحریک کی جانب بناناچاہیے،اس تحریک کی راہنمائی میاں نواز شریف اورعملی قیادت مریم نواز کریں،انہیں شاید جلد اقتدار تو نہ ملے ،مگر تاریخ میں سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے والی ’’شیرنی‘‘ کا خطاب ضرور مل جائے گا۔

میاں نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا نعرا لگا کر اپنے ’’اصل‘‘ حریفوں کے ساتھ مفاہمت کے دروازے بند کر دیئے ہیں ۔اب مفاہمت تب ہو گی، جب میاں نواز شریف سیاست سے بالکل دستبردار ہو جائیں،کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں اقتدار کی سیاست میں اصول کی بات کرنے والے کو تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔یہاں تو آصف علی زرداری جیسے سیاست دان ہی کامیاب ہوتے ہیں،لیکن پی ڈی ایم منجھے ہوئے سیاست دانوں کا اتحاد ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت میں برداشت ،صبر اور نا امید نہیں ہونا۔آگے رمضان المبارک کا مہنہ ہے،رمضان میں حکومتی گورننس کی صورت حال زرا اور رنگ دکھا چکی ہو گی۔ابھی تک حکومت خوش ہے،مگر شاید یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے․․․!
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.